Ayats Found (3)
Surah 28 : Ayat 15
وَدَخَلَ ٱلْمَدِينَةَ عَلَىٰ حِينِ غَفْلَةٍ مِّنْ أَهْلِهَا فَوَجَدَ فِيهَا رَجُلَيْنِ يَقْتَتِلَانِ هَـٰذَا مِن شِيعَتِهِۦ وَهَـٰذَا مِنْ عَدُوِّهِۦۖ فَٱسْتَغَـٰثَهُ ٱلَّذِى مِن شِيعَتِهِۦ عَلَى ٱلَّذِى مِنْ عَدُوِّهِۦ فَوَكَزَهُۥ مُوسَىٰ فَقَضَىٰ عَلَيْهِۖ قَالَ هَـٰذَا مِنْ عَمَلِ ٱلشَّيْطَـٰنِۖ إِنَّهُۥ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِينٌ
(ایک روز) وہ شہر میں ایسے وقت میں داخل ہوا جبکہ اہلِ شہر غفلت میں تھے1 وہاں اس نے دیکھا کہ دو آدمی لڑ رہے ہیں ایک اس کی اپنی قوم کا تھا اور دُوسرا اس کی دشمن قوم سے تعلق رکھتا تھا اس کی قوم کے آدمی نے دشمن قوم والے کے خلاف اسے مدد کے لیے پکارا موسیٰؑ نے اس کو ایک گھونسا مارا2 اور اس کا کام تمام کر دیا (یہ حرکت سرزد ہوتے ہی) موسیٰؑ نے کہا "یہ شیطان کی کارفرمائی ہے، وہ سخت دشمن اور کھلا گمراہ کن ہے3"
3 | اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ گھونسا کھا کرجب مصری گرا ہوگا اوراس نے دم توڑدیا ہوگا توکیسی سخت ندامت اورگھبراہٹ کی حالت میںیہ الفاظ حضرت موسٰیؑ کی زبان سے نکلے ہوں گے۔ ان کاکوئی ارادہ قتل کا نہ تھا۔ نہ قتل کے کے گھونسا ماراجاتا ہے۔ نہ کوئی شخص یہ توقع رکھتا ہےکہ ایک گھونسا کھاتے ہی ایک بھلاچنگا آدمی پران چھوڑدےگا۔ اس بنا پرحضرت موسٰی ؑ نے فرمایا کہ شیطان کاکوئی شریرانہ منصوبہ معلوم ہوتا ہے۔ اس نے ایک بڑا فساد کھڑا کرنےکےلیے مجھ سے یہ کام کرایا ہے تاکہ ایک اسرئیلی کی حمایت میں ایک قبطی کومارڈالنے کاالزام مجھ پر عائد ہواورصرف میرےہی خلاف نہیں بلکہ بنی اسرائیل کے خلاف مصر میں ایک طوفان عظیم اُٹھ کھڑا ہو۔ اس معاملہ میں بائیبل کابیان قرآن سے مختلف ہے۔ وہ حضرت موسٰیؑ کوقتل عمد کامجرم ٹھیراتی ہے۔ اس کی روایت یہ ہے کہ مصری اوراسرئیلی کولڑتےدیکھ کرحضرت موسٰیؑ نے’’اِدھر اُدھر نگاہ کی اورجب دیکھا کہ وہاں کوئی دوسرا آدمی نہیں ہے تواس مصری کو جان سےمار کر اسےریت میں چھپادیا‘‘(خروج ۱۲:۲)۔ یہی بات تلمود میںبھی بیان کی گئی ہے۔ اب یہ ہرشخص دیکھ سکتا ہے کہ بنی اسرئیل اپنے اکابر کی سیرتوں کوخود کس طرح داغدار کرتے ہیں اورقرآن کس طرح ان کی پوزیشن صاف کرتا ہے۔ عقل بھی یہی کہتی ہے کہ ایک حکیم وداناآدمی ، جسے آگے چل کرایک اولوالعزم پیغمبر ہوناتھااورجسے انسان کوعدل وانصاف کاایک عظیم الشان قانون دیناتھا، ایسا اندھا قوم پرست نہیں ہوسکتا کہ اپنی قوم کے ایک فرد سے دوسری قوم کے کسی شخص کوکڑتے دیکھ کرآپے سےباہرہوجائے اورجان بوجھ کراسے قتل کرڈالے۔ ظاہر ہے کہ اسرئیلی کومصری کے پنجےسے چھڑانے کےلیے اسے قتل کردینا توروانہ ہوسکتا تھا |
2 | اصل میںلفظ ’’ وکز‘‘ استعمال ہُوا ہے جس کے معنی تھپڑ مارنے کےبھی ہیں اورگھونسامارنے کےبھی۔ ہم نےاس خیال کہ تھپڑ سے موت واقع ہوجاناگھونسے کی بہ نسبت بعید ترہے، اس کاترجمہ گھونسا مارناکیاہے۔ |
1 | ہوسکتا ہے کہ صبح سویرے کاوقت ہو، یاگرمی میںدوپہر کا، یاسردیوں میں رات کا۔ بہرحال مرادیہ ہے کہ جب سڑکیںسنسان تھیں اورشہر میںسناٹا چھایا ہواتھا۔ ’’شہرمیںداخل ہُوا‘‘، ان الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ دارالسلطنت کے شاہی محلات عام آبادی سے باہرواقع تھے۔ حضرت موسٰی علیہ السلام چونکہ شاہی محل میںرہتے تھے اس لیے’’شہرمیںنکلے‘‘شہر میں نکلے‘‘ کہنے کے بجائے’’شہرمیںداخل ہوئے‘‘ فرمایاگیاہے۔ |
Surah 28 : Ayat 19
فَلَمَّآ أَنْ أَرَادَ أَن يَبْطِشَ بِٱلَّذِى هُوَ عَدُوٌّ لَّهُمَا قَالَ يَـٰمُوسَىٰٓ أَتُرِيدُ أَن تَقْتُلَنِى كَمَا قَتَلْتَ نَفْسَۢا بِٱلْأَمْسِۖ إِن تُرِيدُ إِلَّآ أَن تَكُونَ جَبَّارًا فِى ٱلْأَرْضِ وَمَا تُرِيدُ أَن تَكُونَ مِنَ ٱلْمُصْلِحِينَ
پھر جب موسیٰؑ نے ارادہ کیا کہ دشمن قوم کے آدمی پر حملہ کرے1 تو وہ پکار اٹھا2 "اے موسیٰؑ، کیا آج تو مجھے اُسی طرح قتل کرنے لگا ہے جس طرح کل ایک شخص کو قتل کر چکا ہے، تو اس ملک میں جبّار بن کر رہنا چاہتا ہے، اصلاح نہیں کرنا چاہتا"
2 | یہ پکارنے والا ہی اسرئیلی تھا جس کی مدد کےلیے حضرت موسٰیؑگے بڑھے تھے۔اس کوڈانٹنے کے بعد جب آپ مصری کومارنے کےلیے چلے تو اُس اسرئیلی نےسمجھا کہ یہ مجھے مارنے آرہےہیں، اس نے چیخنا شروع کردیا اوراپنی حماقت سے کل کےقتل کا رازفاش کرڈالا۔ |
1 | بائیبل کابیان یہاں قرآن کے بیان سے مختلف ہے۔ بائیبل کہتی ہے کہ دوسرے دن کاجھگڑا دواسرائیلیوں کے درمیان تھا۔ لیکن قرآن کہتا ہے کہ یہ جھگڑا بھی اسرئیلی اورمصری کے درمیان ہی تھا۔ قرین قیاس بھی یہی دوسرا بیان معلوم ہوتا ہے کیونکہ پہلے دن کے قتل کاراز فاش ہونے کی جوصورت آگے بیان ہورہی ہے وہ اسی طرح رونما ہوسکتی تھی کہ مصری قوم کے ایک شخص کواُس واقعہ کی خبر ہوجاتی۔ ایک اسرئیل کے علم میں اس کے آجانے سے یہ امکان کم تھا کہ اپنی قوم کے پشیبان شہزادے کے اتنے بڑے قصورکی اطلاع پاتے ہی وہ جاکر فرعونی حکومت میں اس کی مخبری کردیتا۔ |
Surah 20 : Ayat 40
إِذْ تَمْشِىٓ أُخْتُكَ فَتَقُولُ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَىٰ مَن يَكْفُلُهُۥۖ فَرَجَعْنَـٰكَ إِلَىٰٓ أُمِّكَ كَىْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَۚ وَقَتَلْتَ نَفْسًا فَنَجَّيْنَـٰكَ مِنَ ٱلْغَمِّ وَفَتَنَّـٰكَ فُتُونًاۚ فَلَبِثْتَ سِنِينَ فِىٓ أَهْلِ مَدْيَنَ جِئْتَ ثُمَّ عَلَىٰ قَدَرٍ يَـٰمُوسَىٰ
یاد کر جبکہ تیری بہن چل رہی تھی، پھر جا کر کہتی ہے، "میں تمہیں اُس کا پتہ دوں جو اِس بچے کی پرورش اچھی طرح کرے؟" اس طرح ہم نے تجھے پھر تیری ماں کے پاس پہنچا دیا تاکہ اُس کی آنکھ ٹھنڈی رہے اور وہ رنجیدہ نہ ہو اور (یہ بھی یاد کر کہ) تو نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا، ہم نے تجھے اِس پھندے سے نکالا اور تجھے مختلف آزمائشوں سے گزارا اور تو مَدیَن کے لوگوں میں کئی سال ٹھیرا رہا پھر اب ٹھیک اپنے وقت پر تو آ گیا ہے اے موسیٰؑ