Ayats Found (7)
Surah 2 : Ayat 115
وَلِلَّهِ ٱلْمَشْرِقُ وَٱلْمَغْرِبُۚ فَأَيْنَمَا تُوَلُّواْ فَثَمَّ وَجْهُ ٱللَّهِۚ إِنَّ ٱللَّهَ وَٲسِعٌ عَلِيمٌ
مشرق اور مغرب سب اللہ کے ہیں جس طرف بھی تم رخ کرو گے، اسی طرف اللہ کا رخ ہے1 اللہ بڑی وسعت والا اور سب کچھ جاننے والا ہے2
2 | یعنی اللہ تعالٰی محدود،تنگ دل، تنگ نظر اور تنگ دست نہیں ہے ، جیسا کہ تم لوگوں نے اپنے اوپر قیاس کر کے اسے سمجھ رکھا ہے، بلکہ اس کی خدائی بھی وسیع ہے اور اس کا زاویہء نظر اور دائرہٴ فیض بھی وسیع اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اس کا کونسا بندہ کہاں کس وقت کس نیت سے اس کو یاد کر رہا ہے |
1 | یعنی اللہ نہ شرقی ہے، نہ غربی۔ وہ تمام سمْتوں اور مقاموں کا مالک ہے، مگر خود کسی سمت یا کسی مقام میں مقید نہیں ہے۔ لہٰذا اس کی عبادت کے لیے کسی سمْت یا کسی مقام کو مقرر کرنے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اللہ وہاں یا اس طرف رہتا ہے۔ اور نہ یہ کوئی جھگڑنے اور بحث کرنے کے قابل بات ہے کہ پہلے تم وہاں یا اس طرف عبادت کرتے تھے، اب تم نے اس جگہ یا سمْت کو کیوں بدل دیا |
Surah 2 : Ayat 247
وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ ٱللَّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًاۚ قَالُوٓاْ أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ ٱلْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِٱلْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ ٱلْمَالِۚ قَالَ إِنَّ ٱللَّهَ ٱصْطَفَـٰهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُۥ بَسْطَةً فِى ٱلْعِلْمِ وَٱلْجِسْمِۖ وَٱللَّهُ يُؤْتِى مُلْكَهُۥ مَن يَشَآءُۚ وَٱللَّهُ وَٲسِعٌ عَلِيمٌ
اُن کے نبی نے ان سے کہا کہ اللہ نے طالوت کو1 تمہارے لیے بادشاہ مقرر کیا ہے یہ سن کر وہ بولے : "ہم پر بادشاہ بننے کا وہ کیسے حقدار ہو گیا؟ اُس کے مقابلے میں بادشاہی کے ہم زیادہ مستحق ہیں وہ تو کوئی بڑا ما ل دار آدمی نہیں ہے" نبی نے جواب دیا: "اللہ نے تمہارے مقابلے میں اسی کو منتخب کیا ہے اور اس کو دماغی و جسمانی دونوں قسم کی اہلیتیں فراوانی کے ساتھ عطا فرمائی ہیں اور اللہ کو اختیار ہے کہ اپنا ملک جسے چاہے دے، اللہ بڑی وسعت رکھتا ہے اور سب کچھ اُس کے علم میں ہے"
1 | بائیبل میں اس کا نام سا ؤ ل لکھا ہے ۔ یہ قبیلہ بن یمین کا ایک تیس سالہ نوجوان تھا ۔ ”بنی اسرائیل میں اس سے خوبصورت کوئی شخص نہ تھا اور ایسا قد آور تھا کہ لوگ اس کے کندھے تک آتے تھے۔“ اپنے باپ کے گمشدہ گدھے ڈھونڈنے نکلا تھا۔ راستے میں جب سموئیل نبی کی قیام گاہ کے قریب پہنچا ، تو اللہ تعالٰی نے نبی کو اشارہ کیا کہ یہی شخص ہے جس کو ہم نے بنی اسرائیل بادشاہی کے لیے منتخب کیا ہے۔ چنانچہ سموئیل نبی اسے اپنے گھر لائے، تیل کی کُپی لے کر اُس کے سر پر اُنڈیلی اور اُسے چُوما اور کہا کہ ” خداوند نے تجھے مسح کیا تاکہ تُو اُس کی میراث کا پیشوا ہو ۔“ اس کے بعد اُنہوں نے بنی اسرائیل کا اجتماعِ عام کر کے اُس کی بادشاہی کا اعلان کیا (۱-سموئیل، باب ۹ و ۱۰) یہ بنی اسرائیل کا دوسرا شخص تھا جس کو خدا کے حکم سے ”مسح“ کر کے پیشوائی کے منصب پر مقرر کیا گیا ۔ اس سے پہلے حضرت ہارون سردار کاہن(Chief Priest ) کی حیثیت سے مسح کیے گئے تھے ، اس کے بعد تیسرے ممسُوح یا مسیح حضرت دا ؤد ؑ ہوئے ، اور چوتھے مسیح حضرت عیسیٰ ؑ ۔ لیکن طالوت کے متعلق ایسی کوئی تصریح قرآن یا حدیث میں نہیں ہے کہ وہ نبوّت کے منصب پر بھی سرفراز ہو اتھا۔ محض بادشاہی کے لیے نامزد کیا جانا اس بات کے لیے کافی نہیں ہے کہ اُسے نبی تسلیم کیا جائے |
Surah 2 : Ayat 261
مَّثَلُ ٱلَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَٲلَهُمْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِى كُلِّ سُنۢبُلَةٍ مِّاْئَةُ حَبَّةٍۗ وَٱللَّهُ يُضَـٰعِفُ لِمَن يَشَآءُۗ وَٱللَّهُ وَٲسِعٌ عَلِيمٌ
جو لوگ1 اپنے مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں، اُن کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سو دانے ہوں اِسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے، افزونی عطا فرماتا ہے وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی2
2 | یعنی جس قدر خلوص اور جتنے گہرے جذبے کے ساتھ انسان اللہ کی راہ میں مال خرچ کرے گا، اتنا ہی اللہ کی طرف سے اس کا اجر زیادہ ہوگا۔ جو خدا ایک دانے میں اتنی برکت دیتا ہے کہ اس سے سات سو دانے اُگ سکتے ہیں، اس کے لیے کچھ مشکل نہیں کہ تمہاری خیرات کو بھی اسی طرح نشونما بخشے اور ایک روپے کے خرچ کو اتنی ترقی دے کہ اس کا اجر سات سو گونہ ہو کر تمہاری طرف پٹے۔ اس حقیقت کو بیان کرنے کے بعد اللہ کی دو صفات ارشاد فرمائی گئ ہیں۔ ایک یہ کہ وہ فراخ دست ہے، اس کا ہاتھ تنگ نہیں ہے کہ تمہارا عمل فی الواقع جتنی ترقی اور جتنے اجر کا مستحق ہو، وہ نہ دے سکے۔ دوسرے یہ کہ وہ علیم ہے، بے خبر نہیں ہے کہ جو کچھ تم خرچ کرتے ہو اور جس جذبے سے کرتے ہو ، اس سے وہ ناواقف رہ جائے اور تمہارا اجر مارا جائے |
1 | ”اب پھر سلسلہ ء کلام اسی مضمون کی طرف عود کرتا ہے، جو رکوع ۳۲ میں چھیڑا گیا تھا۔ اس تقریر کی ابتدا میں اہل ِ ایمان کو دعوت دی گئی تھی کہ جس مقصدِ عظیم پر تم ایمان لائے ہو ، اس کی خاطر جان و مال کی قربانیاں برداشت کرو۔ مگر کوئی گروہ جب تک کہ اُس کا معاشی نقطہء نظر بالکل ہی تبدیل نہ ہو جائے، اس بات پر آمادہ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنی ذاتی یا قومی اغراض سے بالاتر ہو کر محض ایک اعلیٰ درجے کے اخلاقی مقصد کی خاطر اپنا مال بے دریغ صَرف کرنے لگے۔ مادّہ پرست لوگ، جو پیسہ کمانے لیے جیتے ہوں اور پیسے پیسے پر جان دیتے ہوں اور جن کی نگاہ ہر وقت نفع و نقصان کی میزان ہی پر جمی رہتی ہو، کبھی اس قابل نہیں ہو سکتے کہ مقاصد عالیہ کے لیے کچھ کر سکیں۔ وہ بظاہر اخلاقی مقاصد کے لیے کچھ خرچ کرتے بھی ہیں، تو پہلے اپنی ذات یا اپنی برادری یا اپنی قوم کے مادی منافع کا حساب لگا لیتے ہیں۔ اِس ذہنیّت کے ساتھ اُس دین کی راہ پر انسان ایک قدم بھی نہیں چل سکتا جس کا مطالبہ یہ ہے کہ دُنیوی فائدے اور نقصان سے بے پروا ہو کر محض اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے اپنا وقت، اپنی قوتیں اور اپنی کمائیاں خرچ کرو۔ ایسے مسلک کی پیروی کے لیے تو دُوسری ہی قسم کے اخلاقیات درکار ہیں۔ اس کے لیے نظر کی وسعت ، حوصلے کی فراخی، دل کی کشادگی اور سب سے بڑھ کر خالص خدا طلبی کی ضرورت ہے، اور اجتماعی زندگی کے نظام میں ایسی تبدیلی کی ضرورت ہے کہ افراد کے اندر مادہ پرستانہ اخلاقیات کے بجائے یہ اخلاقی اوصاف نشونما پائیں۔ چنانچہ یہاں سے مسلسل تین رکوعوں تک اسی ذہنیّت کی تخلیق کے لیے ہدایات دی گئی ہیں |
Surah 2 : Ayat 268
ٱلشَّيْطَـٰنُ يَعِدُكُمُ ٱلْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُم بِٱلْفَحْشَآءِۖ وَٱللَّهُ يَعِدُكُم مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلاًۗ وَٱللَّهُ وَٲسِعٌ عَلِيمٌ
شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور شرمناک طرز عمل اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے، مگر اللہ تمہیں اپنی بخشش اور فضل کی امید دلاتا ہے اللہ بڑا فراخ دست اور دانا ہے
Surah 3 : Ayat 73
وَلَا تُؤْمِنُوٓاْ إِلَّا لِمَن تَبِعَ دِينَكُمْ قُلْ إِنَّ ٱلْهُدَىٰ هُدَى ٱللَّهِ أَن يُؤْتَىٰٓ أَحَدٌ مِّثْلَ مَآ أُوتِيتُمْ أَوْ يُحَآجُّوكُمْ عِندَ رَبِّكُمْۗ قُلْ إِنَّ ٱلْفَضْلَ بِيَدِ ٱللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَآءُۗ وَٱللَّهُ وَٲسِعٌ عَلِيمٌ
نیز یہ لوگ آپس میں کہتے ہیں کہ اپنے مذہب والے کے سوا کسی کی بات نہ مانو اے نبیؐ! ان سے کہہ دو کہ، 1"اصل میں ہدایت تو اللہ کی ہدایت ہے اور یہ اُسی کی دین ہے کہ کسی کو وہی کچھ دے دیا جائے جو کبھی تم کو دیا گیا تھا، یا یہ کہ دوسروں کو تمہارے رب کے حضور پیش کرنے کے لیے تمہارے خلاف قوی حجت مل جائے" اے نبیؐ! ان سے کہو کہ، "فضل و شرف اللہ کے اختیار میں ہے، جسے چاہے عطا فرمائے وہ وسیع النظر ہے اور سب کچھ جانتا ہے2
2 | یعنی اللہ کو معلوم ہے کہ کون فضل و شرف کا مستحق ہے |
1 | اصل میں لفظ”واسِع“ استعمال ہوا ہے جو بالعموم قرآن میں تین مواقع پر آیا کرتا ہے۔ ایک وہ موقع جہاں انسانوں کے کسی گروہ کی تنگ خیالی و تنگ نظری کا ذکر آتا ہے اور اُسے اس حقیقت پر متنبہ کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے کہ اللہ تمہاری طرح تنگ نظر نہیں ہے ۔ دُوسرا وہ موقع جہاں کسی کے بُخل اور تنگ دلی اور کم حوصلگی پر ملامت کرتے ہوئے یہ بتانا ہوتا ہے کہ اللہ فراخ دست ہے، تمہاری طرح بخیل نہیں ہے ۔ تیسرا وہ موقع جہاں لوگ اپنے تخیّل کی تنگی کے سبب سے اللہ کی طرف کسی قسم کی محدُود یّت منسُوب کرتے ہیں اور انھیں یہ بتانا ہوتا ہے کہ اللہ غیر محدُود ہے۔(ملاحظہ ہو سُورہٴ بقرہ، حاشیہ نمبر ١١٦) |
Surah 5 : Ayat 54
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِۦ فَسَوْفَ يَأْتِى ٱللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُۥٓ أَذِلَّةٍ عَلَى ٱلْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى ٱلْكَـٰفِرِينَ يُجَـٰهِدُونَ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَآئِمٍۚ ذَٲلِكَ فَضْلُ ٱللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَآءُۚ وَٱللَّهُ وَٲسِعٌ عَلِيمٌ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے (تو پھر جائے) اللہ اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کر دے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ اُن کو محبوب ہوگا، جو مومنوں پر نرم اور کفار پر سخت ہوں گے1، جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے2 یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اللہ وسیع ذرائع کا مالک ہے اور سب کچھ جانتا ہے
2 | یعنی اللہ کے دین کی پَیروی کرنے میں، اُس کے احکام پر عملدرآمد کرنے میں، اور اِس دین کی رُو سے جو کچھ حق ہے اُسے حق اور جو کچھ باطل ہے اُسے باطل کہنے میں اُنہیں کوئی باک نہ ہوگا۔ کسی کی مخالفت، کسی کی طعن و تشنیع ، کسی کے اعتراض اور کسی کی پھبتیوں اور آوازوں کی وہ پروا نہ کریں گے۔ اگر رائے عام اسلام کی مخالف ہو اور اسلام کے طریقے پر چلنے کے معنی اپنے آپ کو دُنیا بھر میں نکّو بنا لینے کے ہوں تب بھی وہ اسی راہ پر چلیں گے جسے وہ سچّے دل سے حق جانتے ہیں |
1 | مومنوں پر نرم“ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص اہلِ ایمان کے مقابلے میں اپنی طاقت کبھی استعمال نہ کرے۔ اُس کی ذہانت ، اُس کی ہوشیاری، اُس کی قابلیت، اُس کا رسُوخ و اثر، اُس کا مال، اُس کا جسمانی زور، کوئی چیز بھی مسلمانوں کو دبانے اور ستانے اور نقصان پہنچانے کے لیے نہ ہو۔ مسلمان اپنے درمیان اس کو ہمیشہ ایک نرم خو، رحم دل، ہمدرد اور حلیم انسان ہی پائیں۔ ”کفار پر سخت“ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایک مومن آدمی اپنے ایمان کی پختگی ، دینداری کے خلُوص ، اصُول کی مضبُوطی، سیرت کی طاقت اور ایمان کی فراست کی وجہ سے مخلالفینِ اسلام کے مقابلہ میں پتھر کی چٹان کے مانند ہو کہ کسی طرح اپنے مقام سے ہٹایا نہ جا سکے۔ وہ اسے کبھی موم کی ناک اور نرم چارہ نہ بنائیں۔ انہیں جب بھی اس سے سابقہ پیش آئے اُن پر یہ ثابت ہو جائے کہ یہ اللہ کا بندہ مر سکتا ہے مگر کسی قیمت پر بِک نہیں سکتا اور کسی دباؤ سے دب نہیں سکتا |
Surah 24 : Ayat 32
وَأَنكِحُواْ ٱلْأَيَـٰمَىٰ مِنكُمْ وَٱلصَّـٰلِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَآئِكُمْۚ إِن يَكُونُواْ فُقَرَآءَ يُغْنِهِمُ ٱللَّهُ مِن فَضْلِهِۦۗ وَٱللَّهُ وَٲسِعٌ عَلِيمٌ
تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں1، اور تمہارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں2، ان کے نکاح کر دو3 اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے اُن کو غنی کر دے گا4، اللہ بڑی وسعت والا اور علیم ہے
4 | اس کا مطلب نہیں ہے کہ جس کا بھی نکاح ہو جاۓ گا اللہ اس کو مال دار بنا دے گا ، بلکہ مدعا یہ ہے کہ لوگ اس معاملے میں بہت زیادہ حسابی بن کر نہ رہ جائیں۔ اس میں لڑکی والوں کے لیے بھی ہدایت ہے کہ نیک اور شریف آدمی اگر ان کے ہاں پیغام دے تو محض اس کی غربت دیکھ کر انکار نہ کر دیں۔ لڑکے والوں کو بھی تلقین ہے کہ کسی نوجوان کو محض اس لیے نہ بٹھا رکھیں کہ ابھی وہ بہت نہیں کما رہا ہے۔ اور نوجوانوں کو بھی نصیحت ہے کہ زیادہ کشائش کے انتظار میں اپنی شادی کے معاملے کو خواہ مخواہ نہ ٹالتے رہیں۔ تھوڑی آمدنی بھی ہو تو اللہ کے بھروسے پر شادی کر ڈالنی چاہیے۔ بسا اوقات خود شادی ہی آدمی کے حالات درست ہونے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ بیوی کی مدد سے اخراجات قابو میں آ جاتے ہیں۔ ذمہ داریاں سر پر آ جانے کے بعد آدمی خود بھی پہلے سے زیادہ محنت اور کوشش کرنے لگتا ہے۔ بیوی معاش کے کاموں میں بھی ہاتھ بٹا سکتی ہے۔ اور سب سے زیادہ یہ کہ مستقبل میں کس کے لیے کیا لکھا ہے ، اسے کوئی بھی نہیں جان سکتا۔ اچھے حالات بُرے حالات میں بھی بدل سکتے ہیں اور بُرے حالات اچھے حالات میں بھی تبدیل ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا آدمی کو ضرورت سے زیادہ حساب لگانے سے پرہیز کرنا چاہیے |
3 | بظاہر یہاں صیغۂ امر دیکھ کر علماء کے ایک گروہ نے یہ خیال کر لیا کہ ایسا کرنا واجب ہے۔ حالانکہ معاملے کی نوعیت خود بتا رہی ہے کہیہ حکم و جوب کے معنی میں نہیں ہو سکتا۔ ظاہر ہے کہ کسی شخص کا نکاح پیش نظر ہے ؟ کیا دوسرے لوگ جہاں بھی اس کا نکاح کرنا چاہیں اسے قبول کر لینا چاہیے ؟ اگر یہ اس پر فرض ہے ہے تو گویا اس کے نکاح میں اس کی اپنی مرضی کا دخل نہیں۔ اور اگر اسے انکار کا حق ہے تو جن پر یہ کام واجب ہے وہ آخر اپنے فرض سے کس طرح سبکدوش ہوں ؟ ان ہی پہلوؤں کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر جمہور فقہاء نے یہ راۓ قائم کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد اس کام کو واجب نہیں بلکہ مندوب قرار دیتا ہے ، یعنی اس کا مطلب در اصل یہ ہے کہ مسلمانوں کو عام طور پریہ فکر ہونی چاہیے کہ ان کے معاشرے میں لوگ بن بیاہے ہ بیٹھے رہیں۔ خاندان والے ، دوست، ہمساۓ سب اس معاملے میں دلچسپی لیں ، اور جس کا کوئی نہ ہو اس کو حکومت اس کام میں مدد دے |
2 | یعنی جن کا رویہ تمہارے ساتھ بھی اچھا ہو، اور جن میں تم یہ صلاحیت بھی پاؤ کہ وہ ازدواجی زندگی نباہ لیں گے۔ مالک کے ساتھ جس غلام یا لونڈی کا رویہ ٹھیک نہ ہو اور جس کے مزاج کو دیکھتے ہوے یہ توقع بھی نہ ہو کہ شادی ہونے کے بعد اپنے شریک زندگی کے ساتھ اس کا نباہ ہو سکے گا، اس کا نکاح کر دینے کی ذمہ داری مالک پر نہیں ڈالی گئی ہے ، کیونکہ اس صورت میں وہ ایک دوسرے فرد کی زندگی کو خراب کرنے کا ذریعہ بن جاۓ گا۔ یہ شرط آزاد آدمیوں کے معاملے میں نہیں لگائی گئی، کیونکہ آزاد آدمی کے نکاح میں حصہ لینے والے کی ذمہ داری در حقیقت ایک مشیر، ایک معاون اور ایک ذریعہ تعارف سے زیادہ نہیں ہوتی۔ اصل رشتہ ناکح اور منکوح کی اپنی ہی رضا مندی سے ہوتا ہے۔ لیکن غلام یا لونڈی کا رشتہ کرنے کی پوری ذمہ داری اس کے مالک پر ہوتی ہے۔ وہ اگر جان بوجھ کر کسی غریب کو ایک بد مزاج اور بد سرشت آدمی کے ساتھ بندھوا دے تو اس کا سارا وبال اسی کے سر ہو گا |
1 | اصل میں لفظ اَیامیٰ استعمال ہوا ہے جسے عام طور پر لوگ محض بیوہ عورتوں کے معنی میں لے لیتے ہیں۔ حالانکہ در اصل اس کا اطلاق ایسے تمام مردوں اور عورتوں پر ہوتا ہے جو بے زوج ہوں۔ ایامیٰ جمع ہے اَیِّم کی، اور اَیِّم ہر اس مرد کو کہتے ہیں جس کی کوئی بیوی نہ ہو، اور ہر اس عورت کو کہتے جس کا کوئی شوہر نہ ہو۔ اسی لیے ہم نے اس کا ترجمہ مجرد کیا ہے |