Ayats Found (8)
Surah 7 : Ayat 88
۞ قَالَ ٱلْمَلَأُ ٱلَّذِينَ ٱسْتَكْبَرُواْ مِن قَوْمِهِۦ لَنُخْرِجَنَّكَ يَـٰشُعَيْبُ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ مَعَكَ مِن قَرْيَتِنَآ أَوْ لَتَعُودُنَّ فِى مِلَّتِنَاۚ قَالَ أَوَلَوْ كُنَّا كَـٰرِهِينَ
اس کی قوم کے سرداروں نے، جو اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا تھے، ا س سے کہا کہ "اے شعیبؑ، ہم تجھے اور اُن لوگوں کو جو تیرے ساتھ ایمان لائے ہیں اپنی بستی سے نکال دیں گے ورنہ تم لوگوں کو ہماری ملت میں واپس آنا ہوگا" شعیبؑ نے جواب دیا "کیا زبردستی ہمیں پھیرا جائے گا خواہ ہم راضی نہ ہوں؟
Surah 7 : Ayat 90
وَقَالَ ٱلْمَلَأُ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ مِن قَوْمِهِۦ لَئِنِ ٱتَّبَعْتُمْ شُعَيْبًا إِنَّكُمْ إِذًا لَّخَـٰسِرُونَ
اس کی قوم کے سرداروں نے، جو اس کی بات ماننے سے انکار کر چکے تھے، آپس میں کہا 1"اگر تم نے شعیبؑ کی پیروی قبول کر لی تو برباد ہو جاؤ گے"
1 | اس چھو ٹے سے فقرے پر سے سرسری طور پر نہ گزر جائیے۔ یہ ٹھہر کر بہت سوچنے کا مقام ہے۔ مَد یَنَ کے سردار اور لیڈر د راصل یہ کہہ رہے تھے اور اسی بات کا اپنی قوم کو بھی یقین دلا رہے تھے کہ شعیب جس ایمان داری اور راست بازی کی دعوت دے رہا ہے اور اخلاق ودیا نت کےجن مستقل اصولوں کی پا بندی کرانا چاہتا ہے، اگر ان کو مان لیا جائے تو ہم تباہ ہو جائیں گے۔ ہماری تجارت کیسے چل سکتی ہے اگر ہم بالکل ہی سچائی کے پابند ہوجائیں اور کھرے کھرے سودے کرنے لگیں۔ اور ہم جو دنیا کی دو سب سے بڑی تجارتی شاہ راہوں کے چوراہے پر بستے ہیں، اور مصر ودعراق کی عظیم الشان متمدّن سلطنتوں کی سرحد پر آباد ہیں، اگر ہم قافلوں کو چھیڑنا بند کر دیں اور بے ضرر اور پُر امن لوگ ہی بن کر رہ جائین تو جو معاشی اور سیاسی فوائد ہمیں اپنی موجودہ جغرافی پو زیشن سے حاصل ہو رہے ہیں وہ سب ختم ہو جائیں گے اور آس پاس کی قوموں پر ہماری جو دھونس قائم ہے وہ باقی نہ رہے گی۔۔۔۔ یہ بات صرف قوم شعیب کے سرداروں ہی تک محدود نہیں ہے۔ ہر زمانے میں بگڑے ہوئے لوگوں نے حق اور راستی اور دیانت کی روش میں ایسے ہی خطرات محسوس کیے ہیں۔ ہر دور کے مفسدین کا یہی خیال رہا ہے کہ تجارت اور سیاست اور دوسرے دنیوی معاملات جُھوٹ اور بے ایمانی اور بد اخلاقی کے بغیر نہیں چل سکتے ۔ ہر جگہ دعوت حق کے مقابلہ میں جو زبر دست عذرات پیش کیے گئے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی رہا ہے کہ اگر دنیا کی چلتی ہوئی راہوں سے ہٹ کر اس دعوت کی پیروی کی جائے گی تو قوم تباہ ہو جائے گی |
Surah 7 : Ayat 87
وَإِن كَانَ طَآئِفَةٌ مِّنكُمْ ءَامَنُواْ بِٱلَّذِىٓ أُرْسِلْتُ بِهِۦ وَطَآئِفَةٌ لَّمْ يُؤْمِنُواْ فَٱصْبِرُواْ حَتَّىٰ يَحْكُمَ ٱللَّهُ بَيْنَنَاۚ وَهُوَ خَيْرُ ٱلْحَـٰكِمِينَ
اگر تم میں سے ایک گروہ اس تعلیم پر جس کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں، ایمان لاتا ہے اور دوسرا ایمان نہیں لاتا، تو صبر کے ساتھ دیکھتے رہو یہاں تک کہ اللہ ہمارے درمیان فیصلہ کر دے، اور وہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے"
Surah 7 : Ayat 93
فَتَوَلَّىٰ عَنْهُمْ وَقَالَ يَـٰقَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَـٰلَـٰتِ رَبِّى وَنَصَحْتُ لَكُمْۖ فَكَيْفَ ءَاسَىٰ عَلَىٰ قَوْمٍ كَـٰفِرِينَ
اور شعیبؑ یہ کہہ کر ان کی بستیوں سے نکل گیا کہ "اے برادران قوم، میں نے اپنے رب کے پیغامات تمہیں پہنچا دیے اور تمہاری خیر خواہی کا حق ادا کر دیا اب میں اُس قوم پر کیسے افسوس کروں جو قبول حق سے انکار کرتی ہے"
1 | یہ جتنے قصے یہاں بیان کیے گئے ہیں ان سب میں ”سرِّ دلبراں درحدیث دیگراں“کا انداز اختیار کیا گیا ہے۔ ہر قصہ اُس معاملہ پر پورا پورا چسپاں ہوتا ہے جو اُس وقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی قوم کے درمیان پیش آ رہا تھا۔ ہر قصہ میں ایک فریق بنی ہے جس کی تعلیم ، جس کی دعوت ، جس کی نصیحت و خیر خواہی، اور جس کی ساری باتیں بعینہٖ وہی ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تھیں ۔ اور دوسرا فریق حق سے منہ موڑنے والی قوم ہے جس کی اعتقادی گمراہیاں ، جس کی اخلاقی خرابیاں ، جس کی جاہلانہ ہٹ دھرمیاں، جس کے سرداروں کا استکبار، جس کے منکروں کا اپنی ضلالت پر اصرار، غرض سب کچھ وہی ہے جو قریش میں پایا جاتا تھا۔ پھر ہر قصے میں منکر قوم کا جو انجام پیش کیا گیا ہے اس سے دراصل قریش کو عبرت دلائی گئی ہے کہ اگر تم نے خدا کے بھیجے ہوئے پیغمبر کی بات نہ مانی اور اصلاح حال کا جو موقع تمہیں دیا جا رہا ہے اسے اندھی ضد میں مبتلا ہو کر کھو دیا تو آخر کار تمہیں بھی اسی تباہی و بر بادی سے دوچار ہونا پڑے گا جو ہمیشہ سے گمراہی و فساد پر اصرار کرنے والی قوموں کے حصہ میں آتی رہی ہے |
Surah 26 : Ayat 185
قَالُوٓاْ إِنَّمَآ أَنتَ مِنَ ٱلْمُسَحَّرِينَ
انہوں نے کہا "تو محض ایک سحرزدہ آدمی ہے
Surah 26 : Ayat 188
قَالَ رَبِّىٓ أَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُونَ
شعیبؑ نے کہا 1"میرا رب جانتا ہے جو کچھ تم کر رہے ہو"
1 | یعنی عذاب نازل کرنا میرا کام نہیں ہے۔ یہ تو اللہ رب العالمین کے اختیار میں ہے اور وہ تمہارے کرتوت دیکھ ہی رہا ہے۔ اگر وہ تمہیں اس عذاب کا مستحق سمجھے گا تو خود نازل فرما دے گا۔ اصحاب الایکہ کے اس مطالبے اور حضرت شعیب کے اس جواب میں کفار قریش کے لیے بھی ایک تنبیہ تھی۔ وہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہی مطالبے کرتے تھے ، اَوْتُسْقِطَ السَّمَآءَ کَمَا زَعَمْتَ عَلَیْنَا کِسَفاً، ’’ یا پھر گرا دے ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا جیسا کہ تیرا دعویٰ ہے ‘‘۔ (بنی اسرائیل۔ آیت 92 )۔ اس لیے ان کو سنایا جا رہا کہ ایسا ہی مطالبہ اصحاب الایکہ نے اپنے پیغمبر سے کیا تھا، اس کا جو جواب انہیں ملا وہی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے تمہاری طلب کا جواب بھی ہے |
Surah 15 : Ayat 78
وَإِن كَانَ أَصْحَـٰبُ ٱلْأَيْكَةِ لَظَـٰلِمِينَ
اور ایکہ1 والے ظالم تھے
1 | یعنی حضرت شعیب کی قوم کے لوگ۔ اس قوم کا نام بنی مدیان تھا۔ مَدْیَن اُن کے مرکزی شہر کو بھی کہتے تھے اور اُن کے پورے علاقے کو بھی۔ رہا اَیکہ ، تو یہ تبوک کا قدیم نام تھا۔ اس لفظ کے لغوی معنی گھنے جنگل کے ہیں۔ آج کل اَیکہ ایک پہاڑی نالے کا نام ہے جو جبل اللَّوز سے وادی اَفَل میں آکر گرتا ہے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الشعراء ، حاشیہ نمبر ۱۱۵ |
Surah 15 : Ayat 79
فَٱنتَقَمْنَا مِنْهُمْ وَإِنَّهُمَا لَبِإِمَامٍ مُّبِينٍ
تو دیکھ لو کہ ہم نے بھی اُن سے انتقام لیا، اور اِن دونوں قوموں کے اجڑے ہوئے علاقے کھلے راستے پر واقع ہیں1
1 | مدین اور اصحاب الایکہ کا علاقہ بھی حجاز سے فلسطین و شام جاتے ہوئے راستے میں پڑتا ہے |