Ayats Found (7)
Surah 7 : Ayat 85
وَإِلَىٰ مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًاۗ قَالَ يَـٰقَوْمِ ٱعْبُدُواْ ٱللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُۥۖ قَدْ جَآءَتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْۖ فَأَوْفُواْ ٱلْكَيْلَ وَٱلْمِيزَانَ وَلَا تَبْخَسُواْ ٱلنَّاسَ أَشْيَآءَهُمْ وَلَا تُفْسِدُواْ فِى ٱلْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَـٰحِهَاۚ ذَٲلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
اور مدین1 والوں کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیبؑ کو بھیجا اس نے کہا 2"اے برادران قوم، اللہ کی بندگی کرو، اُس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے تمہارے پاس تمہارے رب کی صاف رہنمائی آ گئی ہے، لہٰذا وزن اور پیمانے پورے کرو، لوگوں کو اُن کی چیزوں میں گھاٹا نہ دو، اور زمین میں فساد برپا نہ کرو جب کہ اس کی اصلاح ہو چکی ہے3، اسی میں تمہاری بھلائی ہے اگر تم واقعی مومن ہو4
4 | اس فقرے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ خود مدعی ایمان تھے۔ جیسا کہ اوپر ہم ارشاد ر چکے ہیں ، یہ دراصل بگڑے ہوئے مسلمان تھے اور اعتقادی و اخلاقی فساد میں مبتلا ہونے کے با وجود ان کے اندر نہ صرف ایمان کا دعویٰ باقی تھا بلکہ اس پر انہیں فخر بھی تھا۔ اسی لیے حضرت شعیب نے فرمایا کہ اگرتم مومن ہو تو تمہارے نزدیک خیر اور بھلائی راستبازی اور دیانت میں ہونی چاہیے اور تمہارے میارِ خیر و شر اُن دنیا پرستوں سے مختلف ہونا چاہیے جو خدا اور آخرت کو نہیں مانتے |
3 | اس فقرے کی جامع تشریح اس سورة اعراف کے حواشی ۴۴،۴۵ میں گزر چکی ہے ۔ یہاں خصوصیت کے ساتھ حضرت شعیب کے اس قول کا ارشاد اس طرح ہے کہ دینِ حق اور اخلاق صالحہ پر زندگی کا جو نظام انبیائے سابقین کی ہدایت و رہنما ئی قائم ہو چکا تھا، اب تم اسے اپنی اعتقادی گمراہیوں اور اخلاقی بد راہیوں سے خراب نہ کرو |
2 | اس سے معلوم ہوا کہ اس قوم میں دو بڑی خرابیاں پائی جاتی تھی۔ ایک شرک ، دوسرے تجارتی معاملا ت میں بد دیانتی ۔ اور انہی دونوں چیزوں کی اصلاح کے لیے حضرت شعیب مبعوث ہوئے تھے |
1 | مَدیَن کا اصل علاقہ حجاز کے شمال مغرب اور فلسطین کے جنوب میں بحِراحمر اور خلیج عقبہ کے کنارے پر واقع تھا مگر جزیرہ نما ئے سینا کے مشرقی ساحل پر بھی اس کا کچھ سلسلہ پھیلا ہوا تھا۔ یہ ایک بڑی تجارت پیشہ قوم تھی۔ قدیم زمانہ میں جو تجارتی شاہ راہ بحِر احمر کے کنارے یمن سے مکہ اور یَنبوع ہوتی ہوئی شام تک جاتی تھی، اور ایک دوسری تجارتی شاہ راہ جو عراق سے مصر کی طرف جاتی تھی، اس کے عین چوراہے پر اس قوم کی بستیاں واقع تھیں۔ اسی بناء پر عرب کا بچہ بچہ مَدیَن سے واقف تھا اور اس کے مٹ جانے کے بعد بھی عرب میں اس کی شہرت برقرار رہی ۔ کیونکہ عربوں کے تجارتی قافلے مصر اور شام کی طرف جاتے ہوئے رات دن اس کے آثارِ قدیمہ کے درمیان سے گزرتے تھے۔ اہل مَد یَن کے متعلق ایک اور ضروری بات ، جس کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہیے، یہ ہے کہ یہ لوگ دراصل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صاحبزادے مِد یان کی طرف منسوب ہیں جو ان کی تیسری بیوی قَطُوراء کے بطن سے تھے۔ قدیم زمانہ کے قاعدے کے مطابق جو لوگ کسی بڑے آدمی کے ساتھ وابستہ ہو جاتے تھے وہ رفتہ رفتہ اسی کی آل اولاد میں شمار ہو کر بنی فلاں کہلانے لگتے تھے، اسی قاعدے پر عرب کی آبادی کا بڑا حِصہ بنی اسماعیل کہلایا۔ اور اولاد یعقوب کے ہاتھ پر مشرف باسلام ہونے والے لوگ سب کے سب بنی اسرائیل کے جامع نام کے تحت کھپ گئے۔ اسی طرح مَد یَن کے علاقے کی ساری آبادی بھی جو مد یان بن ابراہیم علیہ السلام کے زیر اثر آئی، بنی مدیان کہلائی اور ان کے ملک کا نام ہی مَد یَن یا مَد یان مشہور ہو گیا۔ اس تاریخی حقیقت کو جان لینے کےبعد یہ گمان کرنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی کہ اس قوم کو دین ِحق کی آواز پہلی مرتبہ حضرت شعیب کے ذریعہ سے پہنچی تھی۔ درحقیقت بنی اسرائیل کی طرح ابتداء ً وہ بھی مسلمان ہی تھے اور شعیب علیہ السلام کے ظہور کے وقت ان کی حالت ایک بگڑی ہوئی مسلمان قوم کی سی تھی جیسی ظہور موسیً علیہ السلام کے وقت بنی اسرائیل کی حالت تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد چھ سات سو برس تک مشرک اور بد اخلاق قوموں کے درمیان رہتے رہتے یہ لوگ شرک بھی سیکھ گئے تھے اور بد اخلاقیوں میں بھی مبتلا ہو گئے تھے، مگر اس کے با وجود ایمان کا دعویٰ اور اس پر فخر بر قرار تھا |
Surah 7 : Ayat 87
وَإِن كَانَ طَآئِفَةٌ مِّنكُمْ ءَامَنُواْ بِٱلَّذِىٓ أُرْسِلْتُ بِهِۦ وَطَآئِفَةٌ لَّمْ يُؤْمِنُواْ فَٱصْبِرُواْ حَتَّىٰ يَحْكُمَ ٱللَّهُ بَيْنَنَاۚ وَهُوَ خَيْرُ ٱلْحَـٰكِمِينَ
اگر تم میں سے ایک گروہ اس تعلیم پر جس کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں، ایمان لاتا ہے اور دوسرا ایمان نہیں لاتا، تو صبر کے ساتھ دیکھتے رہو یہاں تک کہ اللہ ہمارے درمیان فیصلہ کر دے، اور وہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے"
Surah 11 : Ayat 84
۞ وَإِلَىٰ مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًاۚ قَالَ يَـٰقَوْمِ ٱعْبُدُواْ ٱللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُۥۖ وَلَا تَنقُصُواْ ٱلْمِكْيَالَ وَٱلْمِيزَانَۚ إِنِّىٓ أَرَٮٰكُم بِخَيْرٍ وَإِنِّىٓ أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ مُّحِيطٍ
اور مدین والوں کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیبؑ کو بھیجا1 اُس نے کہا "اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے اور ناپ تول میں کمی نہ کیا کرو آج میں تم کو اچھے حال میں دیکھ رہا ہوں، مگر مجھے ڈر ہے کہ کل تم پر ایسا دن آئے گا جس کا عذاب سب کو گھیر لے گا
1 | سورہٴ اعراف رکوع ۱۱کے حواشی پیش نظر رہیں |
Surah 11 : Ayat 86
بَقِيَّتُ ٱللَّهِ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَۚ وَمَآ أَنَا۟ عَلَيْكُم بِحَفِيظٍ
اللہ کی دی ہوئی بچت تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم مومن ہو اور بہر حال میں تمہارے اوپر کوئی نگران کار نہیں ہوں1"
1 | یعنی میرا کوئی زور تم پر نہیں ہے میں تو بس ایک خیر خواہ ناصح ہوں زیادہ سے زیادہ اتنا ہی کر سکتا ہوں کہ تمہیں سمجھا دوں آگے تمہیں اختیار ہے چاہے مانو چاہے نہ مانو سوال میری باز پرس سے ڈرنے یا نہ ڈرنے کا نہیں ہے اصل چیز خدا کی باز پُرس ہے جس کا اگر تمہیں کچھ خوف ہو تو اپنی ان حرکتوں سے باز آجاؤ |
Surah 26 : Ayat 176
كَذَّبَ أَصْحَـٰبُ لْــَٔيْكَةِ ٱلْمُرْسَلِينَ
اصحاب الاَیکہ نے رسولوں کو جھٹلایا1
1 | اصحاب الایکہ کا مختصر ذکر سورہ الحجر آیت 78۔ 84 میں پہلے گزر چکا ہے۔ یہاں اس کی تفصیل بیان ہو رہی ہے۔ مفسرین کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ آیا مِدْیَن اور اصحاب الایکہ الگ الگ قومیں ہیں یا ایک ہی قوم کے دو نام ہیں۔ ایک گروہ کا خیال ہے کہ یہ دو الگ قومیں ہیں اور اس کے لیے سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ سورہ اعراف میں حضرت شعیبؑ کو اہل مدین کا بھائی فرمایا گیا ہے (وَاِلیٰ مَدْیَنَ اَخَا ھُمْ شُعَیْباً )، اور یہاں اصحاب الایکہ کے ذکر میں صرف یہ ارشاد ہوا ہے کہ اِذْقَالَ لَھُمْ شُعَیبٌ (جب کہ ان سے شعیب نے کہا)، ’’ان کے بھائی ‘‘ (اَخُوْ ھُمْ) کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا۔ اس کے بر عکس بعض مفسرین دونوں کو ایک ہی قوم قرار دیتے ہیں ، کیونکہ سورہ اعراف اور سورہ ہود میں جو امراض اور اوصاف اصحاب مدین کے بیان ہوئے ہیں وہی یہاں اصحاب الایکہ کے بیان ہو رہے ہیں ، حضرت شعیب کی دعوت و نصیحت بھی یکساں ہے ، اور آخر کار ان کے انجام میں بھی فرق نہیں ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں اقوال اپنی جگہ صحیح ہیں۔ اصحاب مدین اور اصحاب الایکہ بلا شبیہ دو الگ قبیلے ہیں مگر ہیں ایک ہی نسل کی دو شاخیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جو اولاد ان کی بیوی یا کنیز قطورا کے بطن سے تھی وہ عرب اور اسرائیل کی تاریخ میں بنی قطُورا کے نام سے معروف ہے۔ ان میں سے ایک قبیلہ جو سب سے زیادہ مشہور ہوا، مدیان بن ابراہیم کی نسبت سے مدیانی، یا اصحاب مدین کہلایا، اور اس کی آبادی شمالی حجاز سے فلسطین کے جنوب تک اور وہاں سے جزیرہ نماۓ سینا کے آخری گوشے تک بحر قلزم اور خلیج عقبہ کے سوا حل پر پھیل گئی۔ اس کا صدر مقام شہر مدین تھا جس کی جائے وقوع ابوالفدا نے خلیج عقبہ کے مغربی کنارے اَیلَہ (موجودہ عقبہ) سے پانچ دن کی راہ پر بتائی ہے۔ باقی بنی قطورا جن میں بنی ودان (Dedanites)نسبۃً زیادہ مشہور ہیں ، شمالی عرب میں تَیماء اور تبوک اور العُلاء کے درمیان آباد ہوئے اور ان کا صدر مقام تبوک تھا جسے قدیم زمانے میں ایکہ کہتے تھے۔ (یا قوت نے معجم البلد ان میں لفظ ایکہ کے تحت بتایا ہے کہ یہ تبوک کا پرانا نام ہے اور اہل تبوک میں عام طور پر یہ بات مشہور ہے کہ یہی جگہ کسی زمانے میں ایکہ تھی)۔ اصحاب مدین اور اصحاب الایکہ کے لیے ایک ہی پیغمبر مبعوث کیے جانے کی وجہ غالباً یہ تھی کہ دونوں ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے تھے ،ایک ہی زبان بولتے تھے ، اور ان کے علاقے بھی بالکل ایک دوسرے سے متصل تھے۔ بلکہ بعید نہیں کہ بعض علاقوں میں یہ ساتھ ساتھ آباد ہوں اور آپس کے شادی بیاہ سے ان کا معاشرہ بھی باہم گھل مل گیا ہو۔ اس کے علاوہ بنی قطور کی ان دونوں شاخوں کا پیشہ بھی تجارت تھا۔ اور دونوں میں ایک ہی طرح کی تجارتی بے ایمانیاں اور مذہبی و اخلاقی بیماریاں پائی جاتی تھیں۔ بائیبل کی ابتدائی کتابوں میں جگہ جگہ یہ ذکر ملتا ہے کہ یہ لوگ بعل فغور کی پرستش کرتے تھے اور بنی اسرائیل جب مصر سے نکل کر ان کے علاقے میں آئے تو ان کے اندر بھی انہوں نے شرک اور زنا کاری کی وبا پھیلا دی (گنتی، باب 25 آیت 1۔5، باب 31 آیت 16۔17)۔ پھر یہ لوگ بین الاقوامی تجارت کی ان دو بڑی شاہراہوں پر آباد تھے جو یمن سے شام اور خلیج فارس سے مصر کی طرف جاتی تھیں۔ ان شاہراہوں پر واقع ہونے کی وجہ سے انہوں نے بڑے پیمانے پر رہزنی کا سلسلہ چلا رکھا تھا۔ دوسری قوموں کے تجارتی قافلوں کو بھاری خراج لیے بغیر نہ گزرنے دیتے تھے ، اور بین الاقوامی تجارت پر خود قابض رہنے کی خاطر انہوں نے راستوں کا امن خطرے میں ڈال رکھا تھا۔ قرآن مجید میں ان کی اس پوزیشن کو یوں بیان کیا گیا ہے : اِنَّھُمَا لِبَاِ مَامٍ مُّبِیْنٍ O ’’ یہ دونوں (قوم لوط اور اصحاب الایکہ) کھلی شاہراہ پر آباد تھے ‘‘، اور ان کی رہزنی کا ذکر سورہ اعراف میں اس طرح کیا گیا ہے : وَلَا تَقْعُدُوْ ا بِکلِ صِرَاطٍ تُوْ عِدُوْنَ O ’’ اور ہر راستے پر لوگوں کو ڈرانے نہ بیٹھو‘‘۔ یہی اسباب تھے جن کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں قبیلوں کے لیے ایک ہی پیغمبر بھیجا اور ان کو ایک ہی طرح کی تعلیم دی۔ حضرت شعیبؑ اور اہل مدین کے قصے کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف، آیات 85۔ 93۔ ہود 84۔ 95۔ العنکبوت 36۔ 37 |
Surah 26 : Ayat 184
وَٱتَّقُواْ ٱلَّذِى خَلَقَكُمْ وَٱلْجِبِلَّةَ ٱلْأَوَّلِينَ
اور اُس ذات کا خوف کرو جس نے تمہیں اور گزشتہ نسلوں کو پیدا کیا ہے"
Surah 29 : Ayat 36
وَإِلَىٰ مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا فَقَالَ يَـٰقَوْمِ ٱعْبُدُواْ ٱللَّهَ وَٱرْجُواْ ٱلْيَوْمَ ٱلْأَخِرَ وَلَا تَعْثَوْاْ فِى ٱلْأَرْضِ مُفْسِدِينَ
اور مَدیَن کی طرف ہم نے اُن کے بھائی شعیب کو بھیجا1 اُس نے کہا 2"اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو اور روزِ آخر کے امیدوار رہو اور زمین میں مفسد بن کر زیادتیاں نہ کرتے پھرو"
2 | اس کےدومطلب ہوسکتےہیں۔ایک یہ کہ آخرت کےآنے کی توقع رکھو،یہ نہ سمجھوکہ جوکچھ ہےبس یہی دینوی زندگی ہےاورکوئی دوسری زندگی نہیں ہےجس میں تمہیں اپنےاعمال کاحساب دینااورجزاوسزاپاناہو۔دوسرامطلب یہ ہےکہ وہ کام کروجس سےتم آخرت میں انجام بہترہونے کی امید کرسکو۔ |
1 | تقابل کےلیےملاحظ ہوالاعراف،رکوع ۱۱۔ہود ۸۔الشعراء ۱۰۔ |