Ayats Found (1)
Surah 12 : Ayat 101
۞ رَبِّ قَدْ ءَاتَيْتَنِى مِنَ ٱلْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِى مِن تَأْوِيلِ ٱلْأَحَادِيثِۚ فَاطِرَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِ أَنتَ وَلِىِّۦ فِى ٱلدُّنْيَا وَٱلْأَخِرَةِۖ تَوَفَّنِى مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِى بِٱلصَّـٰلِحِينَ
اے میرے رب، تو نے مجھے حکومت بخشی اور مجھ کو باتوں کی تہ تک پہنچنا سکھایا زمین و آسمان کے بنانے والے، تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا سرپرست ہے، میرا خاتمہ اسلام پر کر اور انجام کار مجھے صالحین کے ساتھ ملا1"
1 | یہ چند فقرے جو اس موقع پر حضرت یوسفؑ کی زبان سے نکلے ہیں ہمارے سامنے ایک سچے مومن کی سیرت کا عجیب دلکش نقشہ پیش کرتے ہیں۔ صحرائی گلہ بانوں کے خاندان کا ایک فرد جس کو خود اس کے بھائیوں نے حسد کے مارے ہلاک کر دینا چاہا تھا، زندگی جے نشیب وفراز دیکھتا ہُوا بالاآخر دینوی عروج کے انتہائی مقام پر پنہچ گیا ہے۔ اس کے قحط زدہ اہل خاندان اب اس کے دست نگر ہو کر اس کے حضور آئے ہیں اور وہ حاسد بھائی بھی جو اس کومارڈالنا چاہتے تھے، اس کے تخت شاہی کے سامنے سرنگوں کھڑے ہیں۔ یہ موقع دینا کے عام دستور کے مطابق فخر جتانے ڈینگیں مارنے گلے اور شکوے کرنے، اور طعن و ملامت کے تیر برسانے کا تھا۔ مگر ایک سچا خدا پرست انسان اس موقع پر کچھ دوسرے ہی اخلاق ظاہر کرتا ہے۔ وہ اپنے اس عروج پترفخر کرنے کے بجائے اس خدا کے احسان کا اعتراف کرتا ہے جس نے اسے یہ مرتبہ عطا کیا۔ وہ خاندان والوں کو اُس ظلم و ستم پر کوئی ملامت نہیں کرتا جوا وائل عمر میں انہوں اس پر کیے تھے۔ اس کے برعکس وہ اس بات پر شکر ادا کرتا ہے کہ خدا نے اتنے دنوں کی جدائی کے بعد ان لوگوں کو مجھ سے ملایا۔ وہ حاسد بھائیوں کے خلاف شکایت کا ایک لفظ زبان سے نہیں نکالتا۔ حتی کہ یہ بھی نہیں کہتا کہ انہوں نے میرے ساتھ برائی کی تھی۔ بلکہ ان کی صفائی خود ہی اس طرح پیش کرتا کہ شیطان نے میرے اور ان کے درمیان برائی ڈال دی تھی۔ اور پھر اس برائی کے بھی بُرے پہلو چھوڑ کر اس کا یہ اچھا پہلو پیش کرتا ہے کہ خدا جس مرتبے پر مجھے پنہچایا چاہتا تھا اس کے لیے یہ لطیف تدیبر اُس نے فرمائی۔ یعنی بھائیوں سے شیطان نے جو کچھ کرایا اسی میں حکمت الہی کے مطابق میرے لیے خبر تھی۔ چند الفاظ میں یہ سب کچھ کہہ جانے کے بعد وہ بے اختیار اپنے خدا کے آگے جھک جاتا ہے، اس کا شکر ادا کرتا ہے کہ تو نے بحھے بادشاہی دی اور وہ قابلیتیں بخشیں جن کی بدولت میں خانے میں سڑنے کے بجائے آج دینا کی سب سے بڑی سلطنت پر فرماں روائی کر رہا ہوں۔ اور آخر میں خدا سے کچھ مانگتا ہے تو یہ کہ دینا میں جب تک زندہ رہوں تیری بندگی و غلامی پر ثابت قدم رہوں، اور جب اس دینا سے رخصت ہوں تو مجھے نیک بندوں کے ساتھ ملا دیا جائے۔ کس قدر بلند اور کتنا پاکیزہ ہے یہ نمونہ سیرت: حضرت یوسفؑ کی اس قیمتی تقریر نے بائیبل اور تلمود میں کوئی جگہ نہیں پائی ہے حیرت ہے کہ یہ کتابیں قصوں غیر ضروری تفصیلات سے تو بھری پڑی یئں، مگر جو چیزیں کوئی اخلاقی قدرو قیمت رکھتی ہیں اور جن سے انبیاء کی اصلی تعلیم اور ان کے حقیقی مشن اور ان کی سیرتوں کے سبق آموز پہلوؤں پر ورشنی پڑتی ہے، ان سے ان کتابوں کا دامن خالی ہے۔ یہاں یہ قصہ ختم ہو رہا ہے اس لیے ناظرین کو پھر اس حقیقت پر تنبہ کر دینا ضروری ہے کہ قصہ یوسفؑ علیہ السلام کے متعلق قرآن کی یہ رواتی اپنی جگہ ایک مستقل روایت ہے بائیبل یا تلمود کا چربہ نہیں ہے۔ تنیوں کتابوں کو متقابل مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قصے کے متعدد اہم اجزاء میں قرآن کی روایت ان دونوں سے مختلف ہے۔ بعض چیزیں قرآن ان سے زائد بیان کرتا ہے، بوض ان سے کم اور بعض میں ان کی تردید کرتا ہے۔ لہذا کسی کے لیے یہ کہنے کی گنجائش نہیں ہے کہ محمد ﷺ نے جو قصہ سنایا وہ بنی اسرائیل سے سن لیا ہوگا۔ |