Ayats Found (2)
Surah 12 : Ayat 99
فَلَمَّا دَخَلُواْ عَلَىٰ يُوسُفَ ءَاوَىٰٓ إِلَيْهِ أَبَوَيْهِ وَقَالَ ٱدْخُلُواْ مِصْرَ إِن شَآءَ ٱللَّهُ ءَامِنِينَ
پھر جب یہ لوگ یوسفؑ کے پاس پہنچے تو اُس نے اپنے والدین کو اپنے ساتھ بٹھا لیا اور (اپنے سب کنبے والوں سے) کہا "چلو، اب شہر میں چلو، اللہ نے چاہا تو امن چین سے رہو گے"
Surah 12 : Ayat 100
وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى ٱلْعَرْشِ وَخَرُّواْ لَهُۥ سُجَّدًاۖ وَقَالَ يَـٰٓأَبَتِ هَـٰذَا تَأْوِيلُ رُءْيَـٰىَ مِن قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّى حَقًّاۖ وَقَدْ أَحْسَنَ بِىٓ إِذْ أَخْرَجَنِى مِنَ ٱلسِّجْنِ وَجَآءَ بِكُم مِّنَ ٱلْبَدْوِ مِنۢ بَعْدِ أَن نَّزَغَ ٱلشَّيْطَـٰنُ بَيْنِى وَبَيْنَ إِخْوَتِىٓۚ إِنَّ رَبِّى لَطِيفٌ لِّمَا يَشَآءُۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلْعَلِيمُ ٱلْحَكِيمُ
(شہر میں داخل ہونے کے بعد) اس نے اپنے والدین کو اٹھا کر اپنے پاس تخت پر بٹھایا اور سب اس کے آگے بے اختیار سجدے میں جھک گئے1 یوسفؑ نے کہا "ابا جان، یہ تعبیر ہے میرے اُس خواب کی جو میں نے پہلے دیکھا تھا، میرے رب نے اسے حقیقت بنا دیا اس کا احسان ہے کہ اُس نے مجھے قید خانے سے نکالا، اور آپ لوگوں کو صحرا سے لا کر مجھ سے ملایا حالانکہ شیطان میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد ڈال چکا تھا واقعہ یہ ہے کہ میرا رب غیر محسوس تدبیروں سے اپنی مشیت پوری کرتا ہے، بے شک و ہ علیم اور حکیم ہے
1 | اس لفظ سجدہ سے بکثرت لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ حتی کہ ایک گروہ تو اسی سے استدلال کرکے بادشا ہوں اور پیروں کے لیے سجدہ تحتیہ اور سجدہ تعظیمی کا جو از نکال لیا۔ دوسرے لوگوں کو اس قباحت سے بچنے کے لیے اس کی یہ توجیہ کرنی پڑی کہ اگلی شریعتوں میں ضرف سجدہ عبادت غیر اللہ کے لیے حرام تھا، باقی رہا وہ سجدہ جو عبادت کے جذبہ سے خالی ہوتو وہ خدا کے سوا دوسروں کو بھی کیا جاسکتا تھا، البتہ شریعت محمدیﷺ میں ہر قسم کا سجدہ غیر اللہ کے لیے حرام کر دیا گیا۔ لیکن ساری غلط فہمیاں دراصل اس وجہ سے پیدا ہوئی ہیں کہ لفظ سجدہ، کو موجودہ اسلامی اصطلاح کا ہم معنی سمجھ لیا گیا یعنی ہاتھ گھٹنے اور پیشانی زمین پر ٹکانا۔ حلانکہ سجدہ کے اصل معنی محض جھکنے کے ہیں اور یہاں یہ لفظ اسی مفہوم میں استعمال ہُوا ہے۔ قدیم تہذیب میں یہ عام طریقہ تھا (اور آج بھی بعض ملکوں میں اس کا رواج ہے) کہ کسی کا شکریہ ادا کرنے کے لیے، یا کسی کا استقبال کرنے کے لیے، یا محض سلام کرنے کے لیے سینے پر ہاتھ رکھ کر کسی حد تک آگے کی طرف جھکتے تھے۔ اسی جھکاؤ کے لیے عربی میں سجود اور انگریزی میں (Bow) کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ بائیبل میں اس کی بکثرت مثالیں ہم ملتی ہیں کہ قدیم زمانے میں یہ آداب تہذیب میں شامل تھا۔ چنانچہ حضرت ابراہیم کے متعلق ایک جگہ لکھا ہے کہ انہوں نے اپنے خیمہ کی طرف تین آدمیوں کو آتے دیکھا تو وہ ان کے استقبال کے لیے دوڑے اور زمین تک جھکے۔ عربی بائیبل میں اس موقع پرجو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں وہ یہ ہیں: فلما نظر رکض لاستقبالہم من باب الخیمۃ و سجدالی الارض (تکوین: ۱۸۔۳) پھر جس موقع پر یہ ولر آتا ہے کہ بنی حت نے حضرت سارہ کے دفن ککے لیےزمین مفت دی وہاں ارُعد بائیبل کے الفاظ یہ ہیں ابرھام نے اُٹھ کر اور بنی حت کے آگے جو اس ملک کے لوگ ہیں آداب بجالا کر ان سے یوں گفتگو کی، اور جب ان لوگوں نے قبر کی زمین ہی نہیں بلکہ ایک پورا کھیت اور ایک غارندر میں پیش کر دیا تب ابرھام اس ملک کے لوگوں کے سامنے جھکا مگر عربی ترجمعہ میں ان دونوں مواقع پر آداب بجا لانے اور جھکنے کے لیے سجدہ کرنے ہی کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں مقام ابراہیم و سجد الشطب الارض لبنی حتِ (تکوین ۷:۲۳) فسجد ابراہیم امامر شعیب الارض (۱۲:۲۳)۔ انگریزی بائیبل میں ان مواقع پر جو الفاظ آئے ہیں وہ یہ یہں Bowed himself toward the ground Bowed himself to the people of the land and Abraham bowed اس مضمون کی مثالیں بڑی کثرت سے بائیبل میں ملتی ہیں اور ان سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اس سجدے کا مفہوم وہ ہے ہی نہیں جواب اسلامی اصطلاح کے لفظ سجدہ سے سمجھا جاتا ہے۔ جن لوگوں نے معاملہ کی اس حقیقت کو جانے بیغر اس کی تاعیل میں سرسری طور پر یہ لکھ دیا ہے کہ اگلی شریعتوں میں غیر اللہ کو تفظیمی سجدہ کرنا یا سجدہ تحیتہ بجالانا جائز تھا انہوں نے محض ایک بے اصل بات کہی ہے اگر سجدے سے مراد وہ چیز ہو جسے اسلامی اصطلاح میں سجدہ کہا جاتا ہے تو وہ خدا کی بھیجی ہوئی کسی شریعت میں کبھی کسی غیر اللہ کے لیے جائز نہیں رہا ہے۔ بائیبل میں ذکر آتا ہے کہ بابل کی اسیری کے زمانے میں جب اخسویرس بادشاہ نے ہامان کو اپنا امیر الامر اینایا اور حکم دیا کہ سب لاگ اس کو سجدہ تغظیمی بجالایا کریں تو مرد نے جو بنی اسرائیل کے اولیا میں سے تھے یہ حکم ماننے سے انکار کر دیا (آستر۱:۳۔۲) تلمود میں اس واقعہ کی شرح کرتے ہوئے اس کی جو تفصیل دی گئی ہے وہ پڑھنے کے لائق ہے: بادشاہ کے ملازموں نے کہا آخر تو کیوں ہامان کو سجدہ کرنے سے انکار کرتا ہے؟ ہم بھی آدمی ہیں مگر شاہی حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ اس نے جواب دیا تم لوگ نادان ہع۔ کیا ایک فانی انسان جو خاک میں مل جانے والا ہے، اس قابل ہوسکتا ہے اس کے بڑائی مانی جائے: کیا میں اُس کو سجدہ کروں جو ایک عورت کے پیٹ سے پیدا ہُوا کل بچہ تھا آج جوان ہے کا بوڑھا ہو گا اور پرسوں مرجائے گا؟ نہیں میں تو اس اشلی دابدی خدا ہی کے آگے جھکوں گا جو حی و قیوم ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ جو کانئات کا خالق اور حاکم ہے، میں تو بس اسی کی تغظیم بجالاؤں گا، اور کسی کی نہیں، یہ تقریر نزدل قرآن سے تقریبا ایک ہزار برس پہلے ایک اسرائیلی مومن کی زبان سے ادا ہوئی ہے اور اس میں کوئی شائبہ تک اس تخیل کا نہیں پایا جاتا کہ غیر اللہ کو کسی معنی میں بھی سجدہ کرنا جاہز ہے۔ |