Ayats Found (2)
Surah 12 : Ayat 67
وَقَالَ يَـٰبَنِىَّ لَا تَدْخُلُواْ مِنۢ بَابٍ وَٲحِدٍ وَٱدْخُلُواْ مِنْ أَبْوَٲبٍ مُّتَفَرِّقَةٍۖ وَمَآ أُغْنِى عَنكُم مِّنَ ٱللَّهِ مِن شَىْءٍۖ إِنِ ٱلْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِۖ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُۖ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ ٱلْمُتَوَكِّلُونَ
پھر اس نے کہا 1"میرے بچو، مصر کے دارالسطنت میں ایک دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے جانا مگر میں اللہ کی مشیت سے تم کو نہیں بچا سکتا، حکم اُس کے سوا کسی کا بھی نہیں چلتا، اسی پر میں نے بھروسہ کیا، اور جس کو بھی بھروسہ کرنا ہو اسی پر کرے"
1 | اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یوسفؑ کے بعد ان کے بھائی کو بھیجتے وقت حضرت یعقوبؑ کے دل پر کیا کچھ گزر رہی ہوگی۔ گو خدا پر بھروسہ تھا اور صبروتسلیم میں ان کا مقام نہایت بلند تھا۔ مگر پھر بھی تھے تو انسان ہی۔ طرح طرح کے اندیشے دل میں آتے ہوں گے اور رہ رہ کر اس خیال سے کانپ اٹھتے ہوں گے کہ خدا جانے اب اس لڑکے کی صورت بھی دیکھ سکوں گا یا نہیں اسی لیے وہ چاہتے ہوں گے کہ اپنی حد تک احتیاط میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی جائے۔ یہ احتیاطی مشورہ کہ مصر کے دارالسطنت میں یہ سب بھائی ایک دروازے سے نہ جائیں، اُن سیاسی حالات کا تصور کرنے سے صاف سمجھ میں آجاتا ہے جو اس وقت پائے جاتے تھے۔ یہ لوگ سلطنت مصر کی سرحد پر آزاد قبائلی علاقے کے رہنے والے تھے۔ اہل مصر اس علاقے کے لوگوں کو اسی شبہہ کی نگاہ سے دیکھتے ہوں گے جس نگاہ سے ہندوستان کی برطانوی حکومت آزاد سرحدی علاقے والوں کو دیکھتی رہی ہے۔ حضرت یعقوبؑ کو اندیشہ ہوا ہوگا کہ اس قحط کے زمانہ میں اگر یہ لوگ ایک جتھا بنے ہوئے وہاں داخل ہوں گے تو شاید انہیں مشتبہ سمجھا جائے اور یہ گمان کیا جائے کہ یہ یہاں لوُٹ مار کی غرض سے آئے ہیں۔ پچھلی آیت میں ٖحضرت یعقوبؑ کا یہ ارشاد کہ ’’ اِلا یہ کہ کہیں تم گھیر ہی لیے جاؤ‘‘ اس مضمون کی طرف خود اشارہ کر رہا ہے کہ یہ مشورہ سیاسی اسباب کی بنا پر تھا۔ |
Surah 12 : Ayat 68
وَلَمَّا دَخَلُواْ مِنْ حَيْثُ أَمَرَهُمْ أَبُوهُم مَّا كَانَ يُغْنِى عَنْهُم مِّنَ ٱللَّهِ مِن شَىْءٍ إِلَّا حَاجَةً فِى قَضَـٰهَاۚ وَإِنَّهُۥ لَذُو عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنَـٰهُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
اور واقعہ بھی یہی ہوا کہ جب وہ اپنے باپ کی ہدایت کے مطابق شہر میں (متفرق دروازوں سے) داخل ہوئے تو اس کی یہ احتیاطی تدبیر اللہ کی مشیت کے مقابلے میں کچھ بھی کام نہ آسکی ہاں بس یعقوبؑ کے دل میں جو ایک کھٹک تھی اسے دور کرنے کے لیے اس نے اپنی سی کوشش کر لی بے شک وہ ہماری دی ہوئی تعلیم سے صاحب علم تھا مگر اکثر لوگ معاملہ کی حقیقت کو جانتے نہیں ہیں1
1 | اس کا مطلب یہ ہے کہ تدبیر اور توکل کے درمیان یہ ٹھیک ٹھیک توازن جو تم حضرت یعقوبؑ کے مزکورہ بالا اقوال میں پاتے ہو یہ دراصل علم حقیقت کے اس فیضان کا نتیجہ تھا جو اللہ تعالٰی کے فضل سے ان پر ہوا تھا۔ ایک طرف وہ عالم اسباب کے قوانین کے مطابق تمام ایسی تدبیریں کرتے ہیں جو عقل و فکر اور تجربہ کی بنا پر اختیار کرنی ممکن تھیں۔ بیٹوں کو ان کا پہلا جرم یاد دلا کر زجر و تنبیہ کرتے ہیں تاکہ وہ دوبارہ ویسا ہی جرم کرنے کی جرات نہ کریں، ان سے خدا کے نام پر عہدوپیمان لیتے ہیں کہ سوتیلے بھائی کی حفاظت کریں گے۔ اور وقت کے سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے جس احتیاطی تدبیر کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اسے بھی استعمال کرنے کا علم دیتے ہیں تاکہ اپنی حد تک کوئی خارجی سبب بھی ایسا نہ رہنے دیا جائے جو ان لوگوں کے گھر جانے کا موجب ہو۔ مگر دوسری طرف ہر آن یہ بات ان کے پیش نظر ہے اور اس کا بار بار اظہار کرتے ہیں کہ کوئی انسانی تدبیر اللہ کی مشیت کو نافز ہونے سے نہیں روک سکتی، اور اصل حفاظت اللہ کی حفاظت ہے، اور بھروسا اپنی تدبیروں پر نہیں بلکہ اللہ ہی کے فضل پر ہونا چاہیے۔ یہ صحیح توازن اپنی باتوں میں اوراپنے کاموں میں صرف وہی شخص قائم کر سکتا ہے جو حقیقت کا علم رکھتا ہو۔ جو یہ بھی جانتا ہو کہ حیات دنیا کے ظاہری پہلو میں اللہ کی بنائی ہوئی فطرت انسان سے کس سعی و عمل کا تقاضا کرتی ہے، اور اس سے بھی واقف ہو کہ اس ظاہر کے پیچھے جو حقیقت نفس الامری پوشیدہ ہے اس کی بنا پر اصل کارفرما طاقت کونسی ہے اور اس کے ہوتے ہوئے اپنی سعی و عمل پر انسان کا بھروسہ کس قدابے بنیاد ہے۔ یہی وہ بات ہے جس کو اکثر لوگ نہیں جانتے۔ ان میں سے جس کے ذہن پر ظاہر کا غلبہ ہوتاہے وہ توکل سے غافل ہو کر تدبیر ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھتا ہے، اور جس کے دل پر باطن چھا جائے وہ تدبیر سے بے پروا ہو کر نرے توکل ہی کے بل پر زندگی کی گاڑی چلانا چاہتا ہے۔ |