Ayats Found (2)
Surah 12 : Ayat 58
وَجَآءَ إِخْوَةُ يُوسُفَ فَدَخَلُواْ عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُۥ مُنكِرُونَ
یوسفؑ کے بھائی مصر آئے اور اس کے ہاں حاضر ہوئے1 اس نے انہیں پہچان لیا مگر وہ اس سے نا آشنا تھے2
2 | برادرانِ یوسف ؑ کا آپ کو نہ پہچاننا کچھ بعید ازقیاس نہیں ہے۔ جس وقت انہوں نے آپ کو کنویں میں پھینکا تھا اس وقت آپ صرف سترہ سال کے لڑکے تھے۔ اور اب آپ کی عمر ۳۸ سال کے لگ بھگ تھی۔ اتنی طویل مدت آدمی کو بہت کچھ بدل دیتی ہے۔ پھر یہ تو ان کے وہم گمان میں بھی نہ تھا کہ جس بھائی کو وہ کنویں میں پھینک گئے تھے وہ آج مصر کا مختارِ مطلق ہوگ |
1 | یہاں پھر سات آٹھ برس کے واقعات درمیان میں چھوڑ کر سلسلہ بیان اس جگہ سے جوڑدیا گیا ہے۔ جہاں سے بنی اسرائیل کے مصر منتقل ہونے اور حضرت یعقوب ؑ کو اپنے گم شدہ صاحبزادے کا پتہ ملنے کی ابتداء ہوتی ہے۔ بیچ میں جو واقعات چھوڑ دیے گئے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ خواب والی پیش خبری کے مطابق حضرت یوسف ؑ کی حکومت کے پہلے سات سال مصر میں انتہائی خوشحالی کے گزرے اور ان ایام میں انہوں نے آنے والے قحط کے لیے وہ تمام پیش بندیاں کر لیں جن کا مشورہ بادشاہ کے خواب کی تعبیر بتاتے وقت وہ دے چکے تھے۔ اس کے بعد قحط کا دور شروع ہوا اور یہ قحط صرف مصر ہی میں نہ تھا بلکہ آس پاس کے ممالک بھی اس کی لپیٹ میں آگئے تھے۔ شام، فلسطین، شرق اردن، شمالی عرب، سب جگہ خشک سالی دور دورہ تھا۔ ان حالات میں حضرت یوسف ؑ کے دانشمند انہ انتظام کی بدولت صرف مصر ہی وہ ملک تھا جہاں قحط کے باوجود غلہ کی فراط تھی۔ اس لیے ہمسایہ ممالک کے لوگ مجبور ہوئے کہ غلہ حاصل کرنے کے لیے مصر کی طرف رجعر کریں۔ یہی وہ موقع تھا جب فلسطین سے حجرت یوسف ؑ کے بھائی غلہ خریدنے کے لیے مصر پہنچے۔ غالباً حضرت یوسف ؑ نے غلہ کی اس طرح ضابطہ بندی کی ہوگی کہ بیرونی ممالک میں خاص اجازت ناموں کے بغیر اور خاص مقدار سے زیادہ غلہ نہ جا سکتا ہوگا۔ اس وجہ سے جب برادران یوسف ؑ نے غیر ملک سے آکر غلہ حاصل کرنا چاہا ہوگا تو انہیں اس کے لیے خاص اجازت نامہ حاصل کرنے کی ضرورت پیش آئی ہوگی اور اس طرح حضرت یوسف ؑ کے سامنے ان کی پیشی کی نوبت آئی ہوگی |
Surah 12 : Ayat 60
فَإِن لَّمْ تَأْتُونِى بِهِۦ فَلَا كَيْلَ لَكُمْ عِندِى وَلَا تَقْرَبُونِ
اگر تم اسے نہ لاؤ گے تو میرے پاس تمہارے لیے کوئی غلہ نہیں ہے بلکہ تم میرے قریب بھی نہ پھٹکنا1"
1 | اختصار بیا ن کی وجہ سے شاید کسی کو یہ سمجھنے میں دقت ہو کہ حضرت یوسف ؑ جب اپنی شخصیت کو ان پر ظاہر نہ کرنا چاہتے تھے تو پھر ان کے سوتیلے بھائی کا ذکر کیسے آگیا اور اس کے لانے پر اس قدر اصرار کرنے کے کیا معنی تھے، کیونکہ اس طرح تو راز فاش ہوا جاتا تھا۔ لیکن تھوڑا سا غور کرنے سے بات صاف سمجھ میں آجاتی ہے۔ وہاں غلے کی ضابطہ بندی تھی اور ہر شخص ایک مقرر مقدارِ غلہ ہی لے سکتا تھا۔ غلہ لینے کے لیے یہ دس بھائی تھے۔ مگر وہ اپنے والد اور اپنے گیارھویں بھائی کا حصہ بھی مانگتے ہوں گے۔ ا پر حضرت یوسف ؑ نے کہا ہوگا کہ تمہارے والد کے خود نہ آنے کے لیے تو یہ عذر معقول ہوسکتا ہے کہ وہ بہت بوڑھے اور نابینا ہیں، مگر بھائی کے نہ آنے کا کیا معقول سبب ہوسکتا ہے؟ کہیں تم ایک فرضی نام سے زائد غلہ حاصل کرنے اور پھر ناجائز تجارت کرنے کی کوشش تو نہیں کر رہے ہو؟ انہوں نے جواب میں اپنے گھر کے کچھ حالات بیان کیے ہوں گے اور بتایا ہوگا کہ وہ ہمارا سوتیلا بھائی ہے اور بعض وجوہ سے ہمارے والد اس کو ہمارے ساتھ بھیجنے میں تامل کرتے ہیں۔ تب حضرت یوسف ؑ نے فرمایا ہوگا کہ خیر، اس وقت تو ہم تمہاری زبان کا اعتبار کر کے تم کو پورا غلہ دیے دیتے ہیں، مگر آئندہ اگر تم اس کو ساتھ نہ لائے تو تمہارا اعتبار جاتا رہے گا اور تمہیں یہاں سے کوئی غلہ نہ مل سکے گا۔ اس حاکمانہ دھمکی کے ساتھ آپ نے ان کو اپنےاحسان اپنی مہمان نوازی سے بھی رام کرنے کی کوشش کی، کیونکہ دل اپنے چھوٹے بھائی کو دیکھنے اور گھر کے حالات معلوم کرنے کے لیے بے تاب تھا۔ یہ معاملہ کہ ایک سادہ سی صورت ہے جو ذرا غور کرنے سے خود بخود سمجھ میں آجاتی ہے۔ اس صورت میں بائیبل کی اُس مبالغہ آمیز داستان پر اعتماد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہتی جو کتاب پیدائش کے باب ۴۲۔۴۳ میں بڑی رنگ آمیزی کے ساتھ پیش کی گئی ہے |