Ayats Found (8)
Surah 7 : Ayat 43
وَنَزَعْنَا مَا فِى صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ تَجْرِى مِن تَحْتِهِمُ ٱلْأَنْهَـٰرُۖ وَقَالُواْ ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ ٱلَّذِى هَدَٮٰنَا لِهَـٰذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِىَ لَوْلَآ أَنْ هَدَٮٰنَا ٱللَّهُۖ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِٱلْحَقِّۖ وَنُودُوٓاْ أَن تِلْكُمُ ٱلْجَنَّةُ أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف جو کچھ کدورت ہوگی اسے ہم نکال دیں گے1 اُن کے نیچے نہریں بہتی ہونگی، اور وہ کہیں گے کہ 2"تعریف خدا ہی کے لیے ہے جس نے ہمیں یہ راستہ دکھایا، ہم خود راہ نہ پا سکتے تھے اگر خدا ہماری رہنمائی نہ کرتا، ہمارے رب کے بھیجے ہوئے رسول واقعی حق ہی لے کر آئے تھے" اُس وقت ندا آئے گی کہ "یہ جنت جس کے تم وارث بنائے گئے ہو تمہیں اُن اعمال کے بدلے میں ملی ہے جو تم کرتے رہے تھے"
2 | یہ ایک نہایت لطیف معاملہ ہے جو وہاں پیش آئے گا۔ اہلِ جنت اس بات پر نہ بھولیں گے کہ ہم نے کام ہی ایسے کیے تھے جن پر ہمیں جنت ملنی چاہیے تھی بلکہ وہ خدا کی حمد وثناء اور شکر و احسان مندی میں رطب اللسان ہوں گے اور کہیں گے کہ یہ سب ہمارے رب کا فضل ہےورنہ ہم کس لائق تھے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ ان پر اپنا احسان نہ جتائے گا بلکہ جواب میں ارشاد فرمائے گا کہ تم نے یہ درجہ اپنی خدمات کہ صلہ میں پایا ہے، یہ تمہاری اپنی محنت کی کمائی ہے جو تمہیں دی جارہی ہے ، یہ بھیک کے ٹکڑے نہیں ہیں بلکہ تمہاری سعی کا اجر ہے، تمہارے کام کی مزدوری ہے، اور وہ باعزت روزی ہے جس کا استحقاق تم نے اپنی قوت بازو سے اپنے لیے حاصل کیا ہے۔ پھر یہ مضمون اِس انداز بیان سے اور بھی زیادہ لطیف ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے جواب کا ذکر اس تصریح کے ساتھ نہیں فرماتا کہ ہم یوں کہیں گے بلکہ انتہائی شان کریمی کے ساتھ فرماتا ہے کہ جواب میں یہ ندا آئے گی۔ درحقیقت یہی معاملہ دنیامیں بھی خدا اور اس کے نیک بندوں کے درمیان ہے۔ ظالموں کو جو نعمت دنیا میں ملتی ہے وہ اس پر فخر کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ ہماری قابلیت اور سعی و کوشش کا نتیجہ ہے، اور اسی بنا پر وہ نعمت کےحصول پر اور زیادہ متکبر اور مفسد بنتے چلے جاتےہیں۔ اس کے برعکس صالحین کو جو نعمت بھی ملتی ہے وہ اسے خدا کا فضل سمجھتے ہیں، شکر بجا لاتے ہیں جتنے نوازے جاتے ہیں اتنےہی زیادہ مُتواضع اور رحیم و شفیق اور فیاض ہوتے چلے جاتے ہیں۔ پھر آخرت کے بارے میں بھی وہ اپنے حسنِ عمل پر غرور نہیں کرتے کہ ہم تو یقیناً بخشے ہی جائیں گے۔ بلکہ اپنی کوتاہیوں پر استغفار کرتےہیں، اپنے عمل کےبجائے خدا کے رحم و فضل سے اُمیدیں وابستہ کرتے ہیں اور ہمیشہ ڈرتے ہی رہتے ہیں کہ کہیں ہمارے حساب میں لینے کے بجائے کچے دینا ہی نہ نکل آئے۔ بخاری و مسلم دونوںمیں روایت موجود ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا اعلمواان احد کم لن ید خلہ عملہ الجنة۔خوب جان لو کہ تم محض اپنے عمل کے بل بوتے پر جنت میں نہ پہنچ جاؤ گے لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا آپ بھی ؟ فرمایا ہاں میں بھی الا ان یتغمد نی اللہ برحمةٍ منہ و فضل ،اِلّا یہ کہ اللہ مجھے اپنء رحمت اور اپنے فضل سے ڈھانک لے |
1 | یعنی دنیا کی زندگی میں ان نیک لوگوں کے درمیان اگر کچھ رنجشیں، بدمزگیاں اور آپس کی غلط فہمیاں رہی ہوں تو آخرت میں وہ سب دور کر دی جائیں گی۔ ان کے دل ایک دوسرے سے صاف ہو جائیں گے۔ وہ مخلص دوستوں کی حیثیت سےجنت میں داخل ہوں گے۔ اُن میں سے کسی کو یہ دیکھ کر تکلیف نہ ہو گی کہ فلاں جو میرا مخالف تھا اور جلا جو مجھ سے لڑاتھا اور فلاں جس نے مجھ پر تنقید کی تھی، آج وہ بھی اس ضیافت میں میرے ساتھ شریک ہے۔ اسی آیت کو پڑھ کر حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ مجھے امید ہے کہ اللہ میرے اور عثمانؓ اور طلحہ ؓ اور زبیر ؓ کے درمیان بھی صفائی کراوے گا۔ اس آیت کو اگر ہم زیادہ وسیع نظر سے دیکھیں تو یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ صالح انسانوں کے دامن پر اس دنیا کی زندگی میں جو داغ لگ جاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان داغوں سمیت انہیں جنت میں نہ لے جائے گا بلکہ وہاں داخل کرنے سے پہلے اپنے فضل سے انہیں بالکل پاک صاف کردے گا اور وہ بے داغ زندگی لیے ہوئے وہاں جائیں گے |
Surah 32 : Ayat 17
فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ أُخْفِىَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَآءَۢ بِمَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ
پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ان کے اعمال کی جزا میں ان کے لیے چھپا رکھا گیا ہے اس کی کسی متنفس کو خبر نہیں ہے1
1 | بخاری، مسلم، ترمذی اور مسند احمد میں متعدد طریقوں سے حضرت ابوہریرہ ؓ کی یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: قال اللہ تعالٰی اعددت بعبادی الصالحین ما لا اذن سمعت ولا خطرعلٰی قلب بشرٍ۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ کچھ فراہم کر رکھا ہے جسے نہ کبھی کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کبھی کسی کان نے سُنا، نہ کوئی انسان کبھی اس کا تصوّر کر سکا ہے‘‘۔ یہی مضمون تھوڑے سے لفظی فرق کے ساتھ حضرت ابو سعید خُدری، حضرت مُغیرو بن شُعْبہ اور حضرت سہَل بن سَعد ساعِدی نے بھی حضورؐ سے روایت کیا ہے جسے مسلم، احمد ، ابن جریر اور ترمذی نے صحیح سند وں کے ساتھ نقل کیا ہے۔ |
Surah 46 : Ayat 14
أُوْلَـٰٓئِكَ أَصْحَـٰبُ ٱلْجَنَّةِ خَـٰلِدِينَ فِيهَا جَزَآءَۢ بِمَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ
ایسے سب لوگ جنت میں جانے والے ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے اپنے اُن اعمال کے بدلے جو وہ دنیا میں کرتے رہے ہیں
Surah 56 : Ayat 24
جَزَآءَۢ بِمَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ
یہ سب کچھ اُن اعمال کی جزا کے طور پر انہیں ملے گا جو وہ دنیا میں کرتے رہے تھے
Surah 43 : Ayat 72
وَتِلْكَ ٱلْجَنَّةُ ٱلَّتِىٓ أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
تم اِس جنت کے وارث اپنے اُن اعمال کی وجہ سے ہوئے ہو جو تم دنیا میں کرتے رہے
Surah 52 : Ayat 19
كُلُواْ وَٱشْرَبُواْ هَنِيٓـــَٔۢا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
(ان سے کہا جائے گا) کھاؤ اور پیو مزے سے 1اپنے اُن اعمال کے صلے میں جو تم کرتے رہے ہو
1 | یہاں ’’ مزے سے ‘‘ کے الفاظ اپنے اندر بڑا وسیع مفہوم رکھتے ہیں ۔ جنت میں انسان کو جو کچھ ملے گا کسی مشقت اور محنت کے بغیر ملے گا۔ اس کے ختم ہو جانے یا اس کے اندر کمی واقع ہو جانے کا کوئی اندیشہ نہ ہوگا۔ اس کے لیے انسان کو کچھ خرچ کرنا نہیں پڑے گا۔وہ عین اس کی خواہش اور اس کے دل کی پسند کے مطابق ہوگا۔ جتنا چاہے گا اور جب چاہے گا حاضر کر دیا جاۓ گا۔ مہمان کے طور پر وہ وہاں مقیم نہ ہوگا کہ کچھ طلب کرتے ہوۓ شرماۓ بلکہ سب کچھ اس کے اپنے گذشتہ اعمال کا صلہ اور اس کی اپنی پچھلی کمائی کا ثمرہ ہوگا۔اس کے کھانے اور پینے سے کسی مرض کا خطرہ بھی نہ ہوگا۔ وہ بھوک مٹانے اور زندہ رہنے کے لیے نہیں بلکہ صرف لذت حاصل کرنے کے لیے ہوگا اور آدمی جتنی لذت بھی اس سے اٹھانا چاہے ، اٹھا سکے گا بغیر اس کے کہ اس سے کوئی سوء ہضم لاحق ہو اور وہ غذا کسی قسم کی غلاظت پیدا کرنے والی بھی نہ ہوگی۔اس لیے دنیا میں ’’ مزے سے ‘‘ کھانے پینے کا جو مفہوم ہے ، جنت میں مزے سے کھانے پینے کا مفہوم اس سے بدر جہا زیادہ اور وسیع اور اعلیٰ و ارفع ہے |
Surah 77 : Ayat 43
كُلُواْ وَٱشْرَبُواْ هَنِيٓـــَٔۢا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
کھاؤ اور پیو مزے سے اپنے اُن اعمال کے صلے میں جو تم کرتے رہے ہو
Surah 69 : Ayat 24
كُلُواْ وَٱشْرَبُواْ هَنِيٓـــَٔۢا بِمَآ أَسْلَفْتُمْ فِى ٱلْأَيَّامِ ٱلْخَالِيَةِ
(ایسے لوگوں سے کہا جائے گا) مزے سے کھاؤ اور پیو اپنے اُن اعمال کے بدلے جو تم نے گزرے ہوئے دنوں میں کیے ہیں