Ayats Found (2)
Surah 12 : Ayat 54
وَقَالَ ٱلْمَلِكُ ٱئْتُونِى بِهِۦٓ أَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِىۖ فَلَمَّا كَلَّمَهُۥ قَالَ إِنَّكَ ٱلْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِينٌ أَمِينٌ
بادشاہ نے کہا 1"اُنہیں میرے پاس لاؤ تاکہ میں ان کو اپنے لیے مخصوص کر لوں" جب یوسفؑ نے اس سے گفتگو کی تو اس نے کہا "اب آپ ہمارے ہاں قدر و منزلت رکھتے ہیں اور آپ کی امانت پر پورا بھروسا ہے"
1 | یہ بات غالباً یوسف ؑ نے اس وقت کہی ہوگی جب قید خانہ میں آپ کو تحقیقات کے نتیجے کی خبردی گئی ہوگی۔ بعض مفسرین، جن میں ابن تیمیہ اور ابن کثیر جیسے فضلا بھی شامل ہیں، اس فقرے کو حضرت یوسف ؑ کا نہیں بلکہ عزیز کی بیوی کے قول کا ایک حصہ قرار دیتے ہیں۔ اُن کی دلیل یہ ہے کہ یہ فقرہ امرأة العزیز کے قول سے متصل آیا ہے اور بیچ میں کوئی لفظ ایسا نہیں ہے جس سے یہ سمجھا جائے کہ ”اِنَّہُ لَمِنَ الصَّادِقِینَ“ پر امرأة العزیز کی بات ختم ہوگئی اور بعد کا کلام حضرت یوسف ؑ کی زبان سے ادا ہُوا۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر دو آدمیوں کے قول ایک دوسرے سے متصل واقع ہوں اور اس امر کی صراحت نہ ہوکہ یہ قول فلاں کا ہے اور یہ فلاں کا، تو اس صورت میں لازماً کوئی قرینہ ایسا ہونا چاہیے جس سے دونوں کے کلام میں فرق کیا جاسکے، اور یہاں ایسا کوئی قرینہ موجود نہیں ہے۔ اس لیے یہی ماننا پڑے گا کہ الئن حصحص الحق سے لے کر ان ربی غفور رحیم تک پورا کلام امرأة العزیز کا ہی ہے۔ لیکن مجھے تعجب ہے کہ ابن تیمیہ جیسے دقیقہ رس آدمی تک کی نگاہ سے یہ بات کیسے چوک گئی کہ شان کلام بجائے خود ایک بہت بڑا قرینہ ہے جس کے ہوتے کسی اور قرینہ کی ضرورت نہیں رہتی۔ پہلا فقرہ تو بلا شبہہ امرأة العزیز کے منہ پر پھبتا ہے، مگر کیا دوسرا فقرہ بھی اس کی حیثیت کے مطابق نطر آتا ہے؟ یہاں تو شانِ کلام صاف کہہ رہی ہے کہ اس کے قائل حضرت یوسف ؑ ہیں نہ کہ عزیز مصر کی بیوی۔ اس کلام میں جو نیک نفسی، جو عالی ظرفی، جو فروتنی اور جو خدا ترسی بول رہی ہے وہ خود گواہ ہے کہ یہ فقرہ اس زبان سے نکلا ہُوا نہیں ہوسکتا جس سے ھَیتَ لَکَ نکلا تھا۔ جس سے مَا جَزَآءُ مَن اَرَادَ بِاَھلِکَ سُو ءًا نکلا تھا، اور جس سے بھری محفل کے سامنے یہ تک نکل سکتا تھا کہ لَئِن لَّم یَفعَل مَآ اٰمُرُہُ لَیُسجَنَنَّ۔ ایسا پاکیزہ فقرہ تو وہی زبان بول سکتی تھی جو اس سے پہلے مَعَا ذَاللہِ اِنَّہُ رَبِّیٓ اَحسَنَ مَتوَایَ ط کہہ چکی تھی، جو رَبِّ السِّجنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَد عُو نَنِی اِلَیہِ کہہ چکی تھی، جو اِلَّا تَصرِف عَنِّی کَیدَ ھُنَّ اَصبُ اِلَیھِنَّ کہہ چکی تھی۔ ایسے پاکیزہ کلام کو یوسف ِ صدیق کے بجائے امرأ العزیز کا کلام ماننا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کوئی قرینہ اس امر پر دلالت نہ کرے کہ اس مرحلے پر پہنچ کر اسے توبہ اور ایمان اور اصلاح نفس کی توفیق نصیب ہوگئی تھی، اور افسوس ہے کہ ایسا کو۴ی قرینہ موجود نہیں ہے |
Surah 12 : Ayat 57
وَلَأَجْرُ ٱلْأَخِرَةِ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَكَانُواْ يَتَّقُونَ
اور آخرت کا اجر اُن لوگو ں کے لیے زیادہ بہتر ہے جو ایمان لے آئے اور خدا ترسی کے ساتھ کام کرتے رہے1
1 | یعنی اب ساری سرزمین مصر اس کی تھی۔ اُس کی ہر جگہ کو وہ اپنی جگہ کہہ سکتا تھا ۔ وہاں کوئی گوشہ بھی ایسا نہ رہا تھا جو اس سے روکا جا سکتا ہو۔ یہ گویا اُس کا مل تسلط اور ہمہ گیر اقتدار کا بیا ن ہے جو حضرت یوسف ؑ کو اُس ملک پر حاصل تھا۔ قدیم مفسرین بھی اس آیت کی یہی تفسیر کرتے ہیں۔ چنانچہ ابن زید ے حوالہ سے علامہ ابن جریر طبری نے اپنی تفسیر میں اس کے معنی یہ بیان کیے ہیں کہ”ہم نے یوسف ؑ کو ان سب چیزوں کا مالک بنا دیا جو مصر میں تھیں، دنیا کے اس حصے میں وہ جہاں جو کچھ چاہتا کر سکتا تھا، وہ سرزمین اس کے حوالہ کر دی گئی تھی، حتیٰ کہ اگر وہ چاہتا کہ فرعون کو اپنا زیر دست کر لے اور خود اس سے بالا تر ہوجائے تو یہ بھی کر سکتا تھا“۔ دوسرا قول علامہ موصوف نے مجاہد کا نقل کیا ہے جو مشہور ائمہ تفسیر میں سےہیں۔ ان کا خیا ل ہے کہ بادشاہ مصر نے یوسف ؑ کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا تھا |