Ayats Found (2)
Surah 12 : Ayat 50
وَقَالَ ٱلْمَلِكُ ٱئْتُونِى بِهِۦۖ فَلَمَّا جَآءَهُ ٱلرَّسُولُ قَالَ ٱرْجِعْ إِلَىٰ رَبِّكَ فَسْــَٔلْهُ مَا بَالُ ٱلنِّسْوَةِ ٱلَّـٰتِى قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّۚ إِنَّ رَبِّى بِكَيْدِهِنَّ عَلِيمٌ
بادشاہ نے کہا اسے میرے پاس لاؤ مگر جب شاہی فرستادہ یوسفؑ کے پاس پہنچا تو اس نے کہا1 "اپنے رب کے پاس واپس جا اور اس سے پوچھ کہ اُن عورتوں کا کیا معاملہ ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے؟ میرا رب تو ان کی مکاری سے واقف ہی ہے2"
2 | یہاں سے لے کر بادشاہ کی ملاقات تک جو کچھ قرآن نے بیان کیا ہے۔۔۔۔۔۔ جو اس قصے کا ایک بڑا ہی اہم باب ہے۔۔۔۔۔۔ اس کا کوئی ذکر بائیبل اور تلمود میں نہیں ہے۔ بائیبل کا بیا ن ہے کہ بادشاہ کی طلبی پر حضرت یوسف ؑ فوراً چلنے کے لیے تیار ہوگئے، حجامت بنوائی، کپڑے بدلے اور دربار میں جا حاضر ہوئے۔ تلمود اس سے بھی زیادہ گھٹیا صورت میں اس واقعے کو پیش کرتی ہے۔ اس کا بیا ن یہ ہے کہ ”بادشاہ نے اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ یوسف ؑ کو میرے حضور پیش کرو، اور یہ بھی ہدایت کر دی کہ دیکھو ایسا کوئی کام نہ کرنا کہ لڑکا گھبرا جائے اور صحیح تعبیر نہ دے سکے۔ چنانچہ شاہی ملازموں نے یوسف ؑ کو قید خانے سے نکالا، حجامت بنوائی، کپڑے بدلوائے اور دربار میں لا کر پیش کر دیا۔ بادشاہ اپنے تخت پر بیٹھا تھا ۔ وہاں زروجواہر کی چمک دمک اور دربار کی شان دیکھ کر یوسف ؑ ہکا بکا رہ گیا اور اس کی آنکھیں خیرہ ہونےلگیں۔ شاہی تخت کی سات سیڑھیاں تھیں۔ قاعدہ یہ تھا کہ جب کوئی معزز آدمی بادشاہ سے کچھ عرض کرنا چاہتا تو وہ چھ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جاتا اور بادشاہ سےہم کلام ہوتا تھا۔ اور جب ادنیٰ طبقہ کا کوئی آدمی شاہی مُخاطبہ کے لیے بلایا جاتا تو وہ نیچے کھڑا رہتا اور بادشاہ تیسری سیڑھی تک اتر کر اس سے بات کرتا۔ یوسف ؑ اس قاعدے کے مطابق نیچے کھڑا ہوا اور زمین بوس ہو کر اس نے بادشاہ کو سلامی دی۔ اور بادشاہ نے تیسری سیڑھی تک اتر کر اس سے گفتگو کی“۔ اس تصویر میں بنی اسرائیل نے اپنے جلیل القدر پیغمبر کو جتنا گرا کر پیش کیا ہے اس کو نگاہ میں رکھیے اور پھر دیکھیے کہ قرآن ان کے قید سے نکلنے اور بادشاہ سے ملنے کا واقعہ کس شان اور کس آن بان کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ اب یہ فیصلہ کرنا ہر صاحب نظر کا اپنا کام ہے کہ ان دونوں تصویروں میں سے کونسی تصویر پیغمبر ی کے مرتبے سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔ علاوہ بریں یہ بات بھی عقلِ عام کو کھٹکتی ہے کہ اگر بادشاہ کی ملاقات کے وقت تک حضرت یوسف ؑ کی حیثیت اتنی گہری ہوئی تھی جتنی تلمود کے بیان سے معلوم ہوتی ہے، تو خواب کی تعبیر سنتے ہی یکایک ان کو تمام سلطنت کا مختار کل کیسے بنا دیا گیا۔ ایک مہذب و متمدن ملک میں اتنا بڑا مرتبہ تو آدمی کو اُسی وقت ملا کرتا ہے جب کہ وہ اپنی اخلاقی و ذہنی بر تری کا سکہ لوگوں پر بٹھا چکا ہو۔ پس عقل کی رو سے بھی بائیبل اور تلمود کی بہ نسبت قرآن کا بیان زیادہ مطابق حقیقت معلوم ہوتا ہے |
1 | متن میں لفظ”یعصروف“استعمال ہوا ہے جس کے لفظی معنی ”نچوڑنے“ کے ہیں۔ اس سے مقصود یہاں سر سبزی و شادابی کی وہ کیفیت بیان کرنا ہے جو قحط کے بعد باران رحمت اور دریائے نیل کے چڑھاؤ سے رونما ہونے والی تھی۔ جب زمین سیراب ہوتی ہے تو تیل دینے والے بیج اور رس دینے والے پھر اور میوے خوب پیداہوتے ہیں ، اور مویشی بھی چاہ اچھا ملنے کی وجہ سے خوب دودھ دینے لگتے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اس تعبیر میں صرف بادشاہ کے خواب کا مطلب بتانے ہی پر اکتفا نہ کیا، بلکہ ساتھ ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ خوشحالی کے ابتدائی سات برسوں میں آنے والے قحط کے لیے کیا پیش بندی کی جائے اور غلہ کو محفوظ رکھنے کا کیا بندوبست کیا جائے۔ پھر مزید براں آپ نے قحط کے بعد اچھے دن آنے کی خوشخبری بھی دے دی جس کا ذکر بادشاہ کے خواب میں نہ تھا |
Surah 12 : Ayat 53
۞ وَمَآ أُبَرِّئُ نَفْسِىٓۚ إِنَّ ٱلنَّفْسَ لَأَمَّارَةُۢ بِٱلسُّوٓءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّىٓۚ إِنَّ رَبِّى غَفُورٌ رَّحِيمٌ
میں کچھ اپنے نفس کی براءَت نہیں کر رہا ہوں، نفس تو بدی پر اکساتا ہی ہے الا یہ کہ کسی پر میرے رب کی رحمت ہو، بے شک میرا رب بڑا غفور و رحیم ہے"