Ayats Found (37)
Surah 2 : Ayat 25
وَبَشِّرِ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّـٰتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَـٰرُۖ كُلَّمَا رُزِقُواْ مِنْهَا مِن ثَمَرَةٍ رِّزْقًاۙ قَالُواْ هَـٰذَا ٱلَّذِى رُزِقْنَا مِن قَبْلُۖ وَأُتُواْ بِهِۦ مُتَشَـٰبِهًاۖ وَلَهُمْ فِيهَآ أَزْوَٲجٌ مُّطَهَّرَةٌۖ وَهُمْ فِيهَا خَـٰلِدُونَ
اور اے پیغمبرؐ، جو لوگ اس کتاب پر ایمان لے آئیں اور (اس کے مطابق) اپنے عمل درست کر لیں، انہیں خوش خبری دے دو کہ اُن کے لیے ایسے باغ ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ان باغوں کے پھل صورت میں دنیا کے پھلوں سے ملتے جلتے ہونگے جب کوئی پھل انہیں کھانے کو دیا جائے گا، تو وہ کہیں گے کہ ایسے ہی پھل اس سے پہلے دنیا میں ہم کو دیے جاتے تھے1 ان کے لیے وہاں پاکیزہ بیویاں ہونگی2، اور وہ وہاں ہمیشہ رہیں گے
2 | عربی متن میں ازدواج کا لفظ استعمال ہوا ہے ، جس کے معنی ہیں”جوڑے“۔ اور یہ لفظ شوہر اور بیوی دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ شوہر کے لیے بیوی ”زوج “ ہے اور بیوی کے شوہر”زوج“۔ مگر وہاں یہ ازدواج پاکیزگی کی صفت کے ساتھ ہوں گے۔ اگر دُنیا میں کوئی مرد نیک ہے اور اس کی بیوی نیک نہیں ہے ، تو آخرت میں ان کا رشتہ کٹ جائے گا اور اس نیک مرد کو کوئی دُوسری نیک بیوی دے دی جائے گی۔ اگر یہاں کوئی عورت نیک ہے اور اس کا شوہر بد، تو وہاں وہ اِس بُرے شوہر کی صحبت سے خلاصی پا جائے گی اور کوئی نیک مرد اس کا شریکِ زندگی بنا دیا جائے گا۔ اور اگر یہاں کوئی شوہر اور بیوی دونوں نیک ہیں، تو وہاں ان کا یہی رشتہ ابدی و سرمدی ہو جائے گا |
1 | یعنی نِرالے اور اجنبی پَھل نہ ہوں گے، جِن سے وہ نا مانوس ہوں۔ شکل میں اُنہی پَھلوں سے ملتے جُلتے ہوں گے جن سے وہ دُنیا میں آشنا تھے۔ البتہ لذّت میں وہ ان سے بدرجہا زیادہ بڑھے ہوئے ہوں گے۔ دیکھنے میں مثلاً آم اور انار اور سنترے ہی ہوں گے۔ اہل جنّت ہر پھل کو دیکھ کر پہچان لیں گے کہ یہ آم ہے اور یہ انار ہے اور یہ سنترا۔ مگر مزے میں دُنیا کے آموں اور اناروں اور سنتروں کو ان سے کوئی نسبت نہ ہوگی |
Surah 2 : Ayat 82
وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ أُوْلَـٰٓئِكَ أَصْحَـٰبُ ٱلْجَنَّةِۖ هُمْ فِيهَا خَـٰلِدُونَ
اور جو لوگ ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے وہی جنتی ہیں اور جنت میں وہ ہمیشہ رہیں گے
Surah 3 : Ayat 107
وَأَمَّا ٱلَّذِينَ ٱبْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِى رَحْمَةِ ٱللَّهِ هُمْ فِيهَا خَـٰلِدُونَ
رہے وہ لوگ جن کے چہرے روشن ہوں گے تو اُن کو اللہ کے دامن رحمت میں جگہ ملے گی اور ہمیشہ وہ اسی حالت میں رہیں گے
Surah 7 : Ayat 42
وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَآ أُوْلَـٰٓئِكَ أَصْحَـٰبُ ٱلْجَنَّةِۖ هُمْ فِيهَا خَـٰلِدُونَ
بخلاف اس کے جن لوگوں نے ہماری آیات کو مان لیا ہے اور اچھے کام کیے ہیں اور اس باب میں ہم ہر ایک کو اس کی استطاعت ہی کے مطابق ذمہ دار ٹھیراتے ہیں وہ اہل جنت ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے
Surah 10 : Ayat 26
۞ لِّلَّذِينَ أَحْسَنُواْ ٱلْحُسْنَىٰ وَزِيَادَةٌۖ وَلَا يَرْهَقُ وُجُوهَهُمْ قَتَرٌ وَلَا ذِلَّةٌۚ أُوْلَـٰٓئِكَ أَصْحَـٰبُ ٱلْجَنَّةِۖ هُمْ فِيهَا خَـٰلِدُونَ
جن لوگوں نے بھَلائی کا طریقہ اختیار کیا ان کے لیے بھَلائی ہے اور مزید فضل1 ان کے چہروں پر رُو سیاہی اور ذلّت نہ چھائے گی وہ جنت کے مستحق ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے
1 | یعنی ان کو صرف ان کی نیکی کے مطابق ہی اجر نہیں ملے گا بلکہ اللہ اپنے فضل سے ان کو مزید انعام بھی بخشے گا |
Surah 11 : Ayat 23
إِنَّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ وَأَخْبَتُوٓاْ إِلَىٰ رَبِّهِمْ أُوْلَـٰٓئِكَ أَصْحَـٰبُ ٱلْجَنَّةِۖ هُمْ فِيهَا خَـٰلِدُونَ
رہے وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اور اپنے رب ہی کے ہو کر رہے، تو یقیناً وہ جنتی لوگ ہیں اور جنت میں وہ ہمیشہ رہیں گے1
1 | یہاں عالم آخرت کا بیان ختم ہوا |
Surah 23 : Ayat 11
ٱلَّذِينَ يَرِثُونَ ٱلْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَـٰلِدُونَ
جو میراث میں فردوس1 پائیں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے2
2 | ان آیات میں چار اہم مضمون ادا ہوئے ہیں : اول یہ کہ جو لوگ بھی قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بات مان کر یہ اوصاف اپنے اندر پیدا کر لیں گے اور اس رویے کے پابند ہو جائیں گے وہ دنیا اور آخرت میں فلاح پائیں گے ، قطع نظر اس سے کہ کسی قوم ، نسل یا ملک کے ہوں۔ دوم یہ کہ فلاح محض اقرار ایمان، یا محض اخلاق اور عمل کی خوبیوں کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ دونوں کے اجتماع کا نتیجہ ہے جب آدمی خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت کو مانے ، پھر اس کے مطابق اخلاق اور عمل کی خوبیاں اپنے اندر پیدا کر لے ، تب وہ فلاح سے ہمکنار ہو گا۔ سوم یہ کہ فلاح محض دنیوی اور مادی خوش حالی اور محدود وقتی کامیابیوں کا نام نہیں ہے ، بلکہ وہ ایک وسیع تر حالت خیر کا نام ہے جس کا اطلاق دنیا اور آخرت میں پائدار و مستقل کامیابی و آسودگی پر رہتا ہے۔ یہ چیز ایمان و عمل صالح کے بغیر نصیب نہیں ہوتی۔ اور اس کلیے کو نہ تو گمراہوں کی وقتی خوش حالیاں اور کامیابیاں توڑتی ہیں ، نہ مومنین صالحین کے عارضی مصائب کو اس کی نقیض ٹھیرایا جا سکتا ہے۔ چہارم یہ کہ مومنین کے ان اوصاف کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے متن کی صداقت کے لئے دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے ، اور یہی مضمون آگے کی تقریر سے ان آیات کا ربط قائم کرتا ہے۔ تیسرے رکوع کے خاتمے تک کی پوری تقریر کا سلسلہ استدلال اس طرح پر ہے کہ آغاز میں تجربی دلیل ہے ، یعنی یہ کہ اس نبی کی تعلیم نے خود تمہاری ہی سوسائٹی کے افراد میں یہ سیرت و کردار اور یہ اخلاق و اوصاف پیدا کر کے دکھائے ہیں ، اب تم خود سوچ لو کہ یہ تعلیم حق نہ ہوتی تو ایسے صالح نتائج کس طرح پیدا کر سکتی تھی۔ اس اس کے بعد مشاہداتی دلیل ہے ، یعنی یہ کہ انسان کے اپنے وجود میں اور گرد و پیش کی کائنات میں جو آیات نظر آتی ہیں وہ سب توحید اور آخرت کی اس تعلیم کے بر حق ہونے کی شہادت دے رہی ہیں جسے محمد صلی اللہ علیہ و سلم پیش کرتے ہیں۔ پھر تاریخی دلائل آتے ہیں ، جن میں بتایا گیا ہے کہ نبی اور اس کے منکرین کی کش مکش آج نئی نہیں ہے بلکہ انہی بنیادوں پر قدیم ترین زمانے سے چلی آ رہی ہے اور اس کش مکش کا ہر زمانے میں ایک ہی نتیجہ برآمد ہوتا رہا ہے جس سے صاف طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ فریقین میں سے حق پر کون تھا اور باطل پر کون |
1 | فردوس، جنت کے لیے معروف ترین لفظ ہے جو قریب قریب تمام انسانی زبانوں میں مشرک طور پر پایا جاتا ہے۔ سنسکرت میں پَردِیْشَا ، قدیم کلدانی زبان میں پردیسا، قدیم ایرانی (ژند) میں پیری وائزا ،عبرانی میں پردیس، ارضی میں پردیز ، سُریانی میں فردیسو، یونانی میں پارا دئسوس، لاطینی میں پاراڈائسس، اور عربی میں فردوس۔ یہ لفظ ان سب زبانوں میں ایک ایسے باغ کے یے بولا جاتا ہے جس کے گرد حصار کھنچا ہوا ہو، وسیع ہو، آدمی کی قیام گاہ سے متصل ہو، اور اس میں ہر قسم کے پھل،خصوصاً انگور پائے جاتے ہوں۔ بلکہ بعض زبانوں میں تو منتخب پالتو پرندوں اور جانوروں کا بھی پایا جانا اس کے مفہوم میں شامل ہے۔ قرآن سے پہلے عرب کے کلام جاہلیت میں بھی لفظ فردوس مستعمل تھا۔ اور قرآن میں اس کا اطلاق متعدد باغوں کے مجموعے پر کیا گیا ہے ، جیسا کہ سورہ کہف میں ارشد ہوا : کَانَتْ لَھُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلاً ، ’’ ان کی میزبانی کے لیے فردوس کے باغ ہیں ‘‘۔ اس سے جو تصور ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ فردوس ایک بڑی جگہ ہے جس میں بکثرت باغ اور چمن اور گلشن پائے جاتے ہیں۔ اہل ایمان کے وارث فردوس ہونے پر سورہ طٰہٰ (حاشیہ 83 ) ، اور سورہ انبیاء (حاشیہ 99 میں کافی روشنی ڈالی جا چکی ہے |
Surah 3 : Ayat 15
۞ قُلْ أَؤُنَبِّئُكُم بِخَيْرٍ مِّن ذَٲلِكُمْۚ لِلَّذِينَ ٱتَّقَوْاْ عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّـٰتٌ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَـٰرُ خَـٰلِدِينَ فِيهَا وَأَزْوَٲجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَرِضْوَٲنٌ مِّنَ ٱللَّهِۗ وَٱللَّهُ بَصِيرُۢ بِٱلْعِبَادِ
کہو: میں تمہیں بتاؤں کہ ان سے زیادہ اچھی چیز کیا ہے؟ جو لوگ تقویٰ کی روش اختیار کریں، اُن کے لیے ان کے رب کے پا س باغ ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہاں انہیں ہمیشگی کی زندگی حاصل ہوگی، پاکیزہ بیویاں ان کی رفیق ہوں گی1 اور اللہ کی رضا سے وہ سرفراز ہوں گے اللہ اپنے بندوں کے رویے پر گہری نظر رکھتا ہے2
2 | یعنی اللہ غلط بخش نہیں ہےاور نہ سرسری اور سطحی طور پر فیصلہ کرنے والا ہے۔ وہ بندوں کے اعمال و افعال اور ان کی نیتوں اور ارادوں کو خوب جانتا ہے ۔ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ بندوں میں سے کون اُس کے انعام کا مستحق ہے اور کون نہیں ہے |
1 | تشریح کےلیے ملاحظہ ہو سُورہٴ بقرہ حاشیہ نمبر ۲۷ |
Surah 3 : Ayat 136
أُوْلَـٰٓئِكَ جَزَآؤُهُم مَّغْفِرَةٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَجَنَّـٰتٌ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَـٰرُ خَـٰلِدِينَ فِيهَاۚ وَنِعْمَ أَجْرُ ٱلْعَـٰمِلِينَ
ایسے لوگوں کی جزا ان کے رب کے پاس یہ ہے کہ وہ ان کو معاف کر دے گا اور ایسے باغوں میں انہیں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہونگی اور وہاں وہ ہمیشہ رہیں گے کیسا اچھا بدلہ ہے نیک عمل کرنے والوں کے لیے
Surah 4 : Ayat 13
تِلْكَ حُدُودُ ٱللَّهِۚ وَمَن يُطِعِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ يُدْخِلْهُ جَنَّـٰتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَـٰرُ خَـٰلِدِينَ فِيهَاۚ وَذَٲلِكَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ
یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں جو اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرے گا اُسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کامیابی ہے