Ayats Found (2)
Surah 12 : Ayat 33
قَالَ رَبِّ ٱلسِّجْنُ أَحَبُّ إِلَىَّ مِمَّا يَدْعُونَنِىٓ إِلَيْهِۖ وَإِلَّا تَصْرِفْ عَنِّى كَيْدَهُنَّ أَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَأَكُن مِّنَ ٱلْجَـٰهِلِينَ
یوسفؑ نے کہا 1"اے میرے رب، قید مجھے منظور ہے بہ نسبت اس کے کہ میں وہ کام کروں جو یہ لوگ مجھ سے چاہتے ہیں اور اگر تو نے ان کی چالوں کو مجھ سے دفع نہ کیا تو میں ان کے دام میں پھنس جاؤں گا اور جاہلوں میں شامل ہو رہوں گا
1 | یہ آیات ہمارے سامنے اُن حالات کا ایک عجیب نقشہ پیش کرتی ہیں جن میں اس وقت حضرت یوسف ؑ مبتلا تھے۔ انیس بیس سال کا ایک خوبصورت نوجوان ہے جو بدویانہ زندگی سے بہترین تندرستی اور بھری جوانی لیے ہوئے آیا ہے۔ غریبی، جلاوطنی اور جبری غلامی کے مراحل سے گزرنے کے بعد قسمت اسے دنیا کی سب سے بڑی متمدن سلطنت کے پایہ تخت میں ایک بڑے رئیس کے ہاں لے آئی ہے۔ یہاں پہلے تو خود اس گھر کی بیگم یہ اس کے پیچھے پڑ جاتی ہے جس سے اس کا شب و روز کا سابقہ ہے۔ پھر اس کے حسن کا چرچا سارے دارالسلطنت میں پھیلتا ہے اور شہر بھر کے امیر گھرانوں کی عورتیں اس پر فریفتہ ہو جاتی ہیں۔ اب ایک طرف وہ ہے اور دوسری طرف سیکڑوں خوبصورت جال ہیں جو ہر وقت ہر جگہ اسے پھانسنے کے لیے پھیلے ہوئے ہیں۔ ہر طرح کی تدبیر یں اس کے جذبات کو بھڑکانے اور اس کے زہد کو توڑنے کے لیے کی جارہی ہیں۔ جدھر جاتا ہے یہی دیکھتا ہے کہ گناہ اپنی ساری خوشنمائیوں اور دلفیبیوں کے ساتھ دروازے کھولے اس کا منتظر کھڑا ہے۔ کوئی تو فجور کے مواقع خود ڈھونڈھتا ہے، مگر یہاں خود مواقع اس کو ڈھونڈ رہے ہیں اور اس تاک میں لگے ہوئے ہیں کہ جس وقت بھی اس کے دل میں برائی کی طرف ادنیٰ مَیلان پیدا ہو وہ فوراً اپنے آپ کو اس کے سامنے پیش کردیں۔ رات دن کے چوبیس گھنٹے وہ اس خطرے میں بسر کر رہا ہے کہ کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی اس کے اردے کی بندش میں کچھ ڈھیل آجائے تو وہ گناہ کے اُن بے شمار دروازوں میں سےکسی میں داخل ہو سکتا ہے جو اس کے انتظار میں کھلے ہوئے ہیں۔ اس حالت میں یہ خدا پرست نوجوان جس کامیابی کے ساتھ ان شیطانی تر غیبات کا مقابلہ کرتا ہے وہ بجائے خود کچھ کم قابل تعریف نہیں ہے۔ مگر ضبطِ نفس کے اس حیرت انگیز کمال پر عرفانِ نفس اور طہارت ِ فکر کا مزید کمال یہ ہے کہ اس پر بھی اس کے دل میں کبھی یہ متکبرانہ خیال نہیں آتا کہ واہ رے میں، کیسی مضبوط ہے میری سیرت کہ ایسی ایسی حَسین اور جوان عورتیں میری گردیدہ ہیں اور پھر بھی میرے قدم نہیں پھسلتے۔ اس کے بجائے وہ اپنی بشری کمزوریوں کا خیال کر کے کانپ اٹھتا ہے اور نہایت عاجزی کے ساتھ خدا سے مدد کی التجا کرتا ہے کہ اے رب، میں ایک کمزور انسان ہوں، میرا اتنا بل بوتا کہاں کہ ان بے پناہ ترغیبات کا مقابلہ کر سکوں، تو مجھے سہارا دے اور مجھے بچا، ڈرتاہوں کہ کہیں میرے قدم پھسل نہ جائیں۔۔۔۔۔۔ درحقیقت یہ حضرتِ یوسف علیہ السلام کی اخلاقی تربیت کا اہم ترین اور نازک ترین مرحلہ تھا۔ دیانت، امانت، عفت، حق شناسی، راست روی، انضباط، اور توازن ذہنی کی غیر معمولی صفات جواب تک ان کے اندر چھپی ہوئی تھیں اور جن سے وہ خود بھی بے خبر تھے، وہ سب کی سب اس شدید آزمائش کے دور میں اُبھر آئیں، پورے زور کے ساتھ کام کرنے لگیں اور انہیں خود بھی معلوم ہوگیا کہ ان کے اندر کون کون سی قوتیں موجود ہیں اور وہ ان سے کیا کام لے سکتے ہیں۔ |
Surah 12 : Ayat 34
فَٱسْتَجَابَ لَهُۥ رَبُّهُۥ فَصَرَفَ عَنْهُ كَيْدَهُنَّۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْعَلِيمُ
اس کے رب نے اس کی دعا قبول کی اور اُن عورتوں کی چالیں اس سے دفع کر دیں1، بے شک وہی ہے جو سب کی سنتا اور سب کچھ جانتا ہے
1 | دفع کرنا اس معنی میں ہے کہ یوسف علیہ السلام کی سیرت صالحہ کو ایسی مضبوط بخش دی گئی جس کے مقابلہ میں ان عورتوں کی ساری تدبیر یں ناکام ہو کر رہ گئیں۔ نیز اس معنی میں بھی ہے کہ مشیت الہٰی نے جیل کا دروازہ ان کے لیے کھلوادیا |