Ayats Found (2)
Surah 12 : Ayat 31
فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ أَرْسَلَتْ إِلَيْهِنَّ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَــًٔا وَءَاتَتْ كُلَّ وَٲحِدَةٍ مِّنْهُنَّ سِكِّينًا وَقَالَتِ ٱخْرُجْ عَلَيْهِنَّۖ فَلَمَّا رَأَيْنَهُۥٓ أَكْبَرْنَهُۥ وَقَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ وَقُلْنَ حَـٰشَ لِلَّهِ مَا هَـٰذَا بَشَرًا إِنْ هَـٰذَآ إِلَّا مَلَكٌ كَرِيمٌ
اس نے جو اُن کی یہ مکارانہ باتیں سنیں تو اُن کو بلاوا بھیج دیا اور ان کے لیے تکیہ دار مجلس آراستہ کی1 اور ضیافت میں ہر ایک کے آگے ایک چھری رکھ دی (پھر عین اس وقت جبکہ وہ پھل کاٹ کاٹ کر کھا رہی تھیں) اس نے یوسفؑ کو اشارہ کیا کہ ان کے سامنے نکل آ جب ان عورتوں کی نگاہ اس پر پڑی تو وہ دنگ رہ گئیں اور اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں اور بے ساختہ پکا ر اٹھیں "حاشاللّٰہ، یہ شخص انسان نہیں ہے، یہ تو کوئی بزرگ فرشتہ ہے"
1 | یعنی ایسی مجلس جس میں مہمانوں کے لیے تکیے لگے ہوئے تھے۔ مصر کے آثار قدیمہ سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ ان کی مجلسوں میں تکیوں کا استعمال بہت ہوتا تھا۔ بائیبل میں اس ضیافت کا کوئی ذکر نہیں ہے البتہ تلمود میں یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے، مگر وہ قرآن سے بہت مختلف ہے۔ قرآن کے بیان میں جو زندگی، جو روح، جو فطریت اور جو اخلاقیت پائی جاتی ہے اس سے تلمود کا بیان بالکل خالی ہے۔ |
Surah 12 : Ayat 32
قَالَتْ فَذَٲلِكُنَّ ٱلَّذِى لُمْتُنَّنِى فِيهِۖ وَلَقَدْ رَٲوَدتُّهُۥ عَن نَّفْسِهِۦ فَٱسْتَعْصَمَۖ وَلَئِن لَّمْ يَفْعَلْ مَآ ءَامُرُهُۥ لَيُسْجَنَنَّ وَلَيَكُونًا مِّنَ ٱلصَّـٰغِرِينَ
عزیز کی بیوی نے کہا 1"دیکھ لیا! یہ ہے یہ وہ شخص جس کے معاملہ میں تم مجھ پر باتیں بناتی تھیں بے شک میں نے اِسے رجھانے کی کوشش کی تھی مگر یہ بچ نکلا اگر یہ میرا کہنا نہ مانے گا تو قید کیا جائے گا اور بہت ذلیل و خوار ہوگا
1 | اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُس وقت مصر کے اونچے طبقوں کی اخلاقی حالت کیا تھی۔ ظاہر ہے کہ عزیز کی بیوی نے جن عورتوں کو بلایا ہو گا وہ امراء و رؤسا اور بڑے عہدہ داروں کے گھر کی بیگمات ہی ہوں گی۔ ان عالی مرتبہ خواتین کے سامنے وہ اپنے محبوب نوجوان کو پیش کرتی ہے اور اس کی خوبصورت جوانی دکھا کر انہیں قائل کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ ایسے جوانِ رعنا پر میں مر نہ مٹتی تو آخر اور کیا کرتی۔ پھر یہ بڑے گھروں کی بہو بیٹیاں خود بھی اپنے عمل سے گویا اس امر کی تصدیق فرماتی ہیں کہ واقعی ان میں سے ہر ایک ایسے حالات میں وہی کچھ کرتی جو بیگم عزیز نے کیا۔ پھر شریف خواتین کی اس بھر ی مجلس میں معزز میزبان کو علانیہ اپنے اِس عزم کا اظہار کرتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی کہ اگر اس کا خوبصورت غلام اس کی خواہشِ نفس کا کھلونا بننے پر راضی نہ ہو ا تو وہ اسے جیل بھجوا دے گی۔ یہ سب کچھ اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ یورپ اور امریکہ اور ان کے مشرقی مقلدین آج عورتوں کی جس آزادی و بے باکی کو بیسویں صدی کا کرشمہ سمجھ رہے ہیں وہ کوئی نئی چیز نہیں ہے ، بہت پرانی چیز ہے۔ دقیانوس سے سیکڑوں برس پہلے مصر میں یہ اسی شان کے ساتھ پائی جاتی تھی جیسی آج اِس ”روشن زمانے“ میں پائی جا رہی ہے |