Ayats Found (2)
Surah 12 : Ayat 25
وَٱسْتَبَقَا ٱلْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُۥ مِن دُبُرٍ وَأَلْفَيَا سَيِّدَهَا لَدَا ٱلْبَابِۚ قَالَتْ مَا جَزَآءُ مَنْ أَرَادَ بِأَهْلِكَ سُوٓءًا إِلَّآ أَن يُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
آخر کار یوسفؑ اور وہ آگے پیچھے دروازے کی طرف بھاگے اور اس نے پیچھے سے یوسفؑ کا قمیص (کھینچ کر) پھاڑ دیا دروازے پر دونوں نے اس کے شوہر کو موجود پایا اسے دیکھتے ہی عورت کہنے لگی، "کیا سزا ہے اس شخص کی جو تیری گھر والی پر نیت خراب کرے؟ اِس کے سوا اور کیا سزا ہوسکتی ہے کہ وہ قید کیا جائے یا اسے سخت عذاب دیا جائے"
Surah 12 : Ayat 29
يُوسُفُ أَعْرِضْ عَنْ هَـٰذَاۚ وَٱسْتَغْفِرِى لِذَنۢبِكِۖ إِنَّكِ كُنتِ مِنَ ٱلْخَاطِــِٔينَ
یوسفؑ، اس معاملے سے درگزر کر اور اے عورت، تو اپنے قصور کی معافی مانگ، تو ہی اصل میں خطا کار تھی1"
1 | بائیبل میں اس قصے کو جس بھونڈے طریقہ سے بیان کیا گیا ہے وہ ملاحظہ ہو، تب اس عورت نے اُس کا پیراہن پکڑ کر کہا کہ میرے ساتھ ہم بستر ہو۔ وہ اپنا پیراہن اس کے ہاتھ میں چھوڑ کر بھاگا اور باہر نکل گیا۔ جب اس نے دیکھا کہ وہ اپنا پیراہن اس کے ہاتھ میں چھوڑ کر بھاگ گیا تو اس نے اپنے گھر کے آدمیوں کو بلا کر ان سے کہا کہ دیکھو وہ ایک عبری کو ہم سے مزاق کرنے کے لیے ہمارے پاس لے آیا ہے۔ یہ مجھ سے ہم بستر ہونے کو اندر گھس آیا اور میں بلند آواز سے چلانے لگی۔ جب اس نے دیکھا کہ میں زور زور سے چلا رہی ہوں تو اپنا پیراہن میرے پاس چھوڑ کر بھاگا اور باہر نکل گیا۔ اور وہ اس کا پیراہن اس کے آقا کے گھر لوٹنے تک اپنے پاس رکھے رہی، جب اس کے آقا نے اپنی بیوی کی وہ باتیں جو اس نے اس سے کہیں سُن لیں کہ تیرے غلام نے مجھ سے ایسا ایسا کیا تو اس کا غضب بھڑکا ااور یوسفؑ کے آقا نے اس کو لے کر قید خانے میں جہاں بادشاہ کے قیدی بند تھے ڈال دیا (پیدائیش ۲۰:۱۲:۳۹) خلاصہ اس عجیب و غریب روایت کا یہ ہے کہ حضرت یوسفؑ کے جسم پر لباس کچھ اس قسم کا تھا کہ ادھر زلیخا نے اس پر ہاتھ ڈالا اور اُدھر وہ پورا لباس خود بخود اُتر کر اس کے ہاتھ میں آگیا، پھر لطف یہ ہے کہ حضرت یوسفؑ وہ لباس چھوڑ کر یونہی برہنہ بھاگ نکلے اور ان کا لباس ( یعنی ان کے قصور کا ناقابل انکار ثبوت) اس عورت کے پاس ہی رہ گیا۔ اس کے بعد حضرت یوسفؑ کے مجرم ہونے میں آخر کون شک کر سکتا ہے۔ یہ تو ہے بائیبل کی روایت۔ رہی تلمود، تو اس کا بیان ہے کہ فوطیفار نے جب اپنی بیوی سے یہ شکایت سُنی تو اس نے یوسفؑ کو خوب پٹوایا، پھر ان کے خلاف عدالت میں استغاثہ دائر کیا اور حکام عدالت نے حضرت یوسفؑ کے قمیض کا جائزہ لیا اور فیصلہ کیا کہ قصور عورت کا ہے کیونکہ قمیض پیچھے سے پھٹا ہے نہ کہ آگے سے، لیکن یہ بات ہر صاحب عقل آدمی تھوڑے سے غوروتامل سے باآسانی سمجھ سکتا ہے کہ قرآن کی روایت تلمود کی روایت سے زیادہ قرینِ قیاس ہے۔ آخر کس طرح یہ باور کر لیا جائے کہ ایسا بڑا ایک ذی وجاہت آدمی اپنی بیوی پر اپنے غلام کی دست درازی کا معاملہ خود عدالت میں لے گیا ہو۔ یہ ایک نمایاں ترین مثال ہے قرآن اور اسرائیلی روایات کے فرق کی جس سے مغربی مستشرقین کے اس الزام کی لغویت صاف واضح ہو جاتی ہے کہ محمدﷺ نے یہ قصے بنی اسرائیل سے نقل کر لیے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ قرآن نے تو ان کی اصلاح کی ہے اور اصل واقعات دُنیا کو بتائے ہیں۔ |