Ayats Found (2)
Surah 12 : Ayat 23
وَرَٲوَدَتْهُ ٱلَّتِى هُوَ فِى بَيْتِهَا عَن نَّفْسِهِۦ وَغَلَّقَتِ ٱلْأَبْوَٲبَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَۚ قَالَ مَعَاذَ ٱللَّهِۖ إِنَّهُۥ رَبِّىٓ أَحْسَنَ مَثْوَاىَۖ إِنَّهُۥ لَا يُفْلِحُ ٱلظَّـٰلِمُونَ
جس عورت کے گھر میں وہ تھا وہ اُس پر ڈورے ڈالنے لگی اور ایک روز دروازے بند کر کے بولی 1"آ جا" یوسفؑ نے کہا "خدا کی پناہ، میرے رب نے تو مجھے اچھی منزلت بخشی (اور میں یہ کام کروں!) ایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پایا کرتے"
1 | عام طور پر مفسرین اور مترجمین نے یہ سمجھا ہے کہ یہاں ”میرے رب“کا لفظ حضرت یوسف ؑ نے اُس شخص کے لیے استعمال کیا ہے جس کی ملازمت میں وہ اُس وقت تھے اور ان کے اس جواب کا مطلب یہ تھا کہ میرے آقا نے تو مجھے ایسی اچھی طرح رکھا ہے، پھر میں یہ نمک حرامی کیسے کرسکتا ہوں کہ اس کی بیوی سے زنا کروں۔ لیکن مجھے اس ترجمہ و تفسیر سے سخت اختلاف ہے۔ اگرچہ عربی زبان کے اعتبار سے یہ مفہوم لینے کی بھی گنجائش ہے، کیونکہ عربی میں لفظ رب ”آقا“کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، لیکن یہ بات ایک نبی کی شان سے بہت گری ہوئی ہے کہ وہ ایک گناہ سے باز رہنے میں اللہ تعالیٰ کے بجائے کسی بندے کا لحاظ کرے۔ اور قرآن میں اس کی کوئی نظیر بھی موجود نہیں ہے کہ کسی نبی نے خدا کے سوا کسی اور کو اپنا رب کہا۔ آگے چل کر آیات ۴١، ۴۲، ۵۰ میں ہم دیکھتے ہیں کہ سیّدنا یوسف ؑ اپنے اور مصریوں کے مسلک کا یہ فرق بار بار واضح فرماتے ہیں کہ اُ ن کا رب تو اللہ ہے اور مصریوں نے بندوں کو اپنا رب بنارکھا ہے۔ پھر جب آیت کے الفاظ میں یہ مطلب لینے کی بھی گنجائش موجود ہے کہ حضرت یوسف ؑ نےرَبّی کہہ کر اللہ کی ذات مراد لی ہو، تو کیا وجہ ہے کہ ہم ایک ایسے معنی کو اختیار کریں جس میں صریحاً قباحت کا پہلو نکلتا ہے |
Surah 12 : Ayat 24
وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِۦۖ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَآ أَن رَّءَا بُرْهَـٰنَ رَبِّهِۦۚ كَذَٲلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ ٱلسُّوٓءَ وَٱلْفَحْشَآءَۚ إِنَّهُۥ مِنْ عِبَادِنَا ٱلْمُخْلَصِينَ
وہ اُس کی طرف بڑھی اور یوسفؑ بھی اس کی طرف بڑھتا اگر اپنے رب کی برہان نہ دیکھ لیتا 1ایسا ہوا، تاکہ ہم اس سے بدی اور بے حیائی کو دور کر دیں2، در حقیقت وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے تھا
2 | اس ارشاد کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس کا دلیلِ رب کو دیکھنا اور گناہ سے بچ جانا ہماری توفیق و ہدایت سے ہُوا کیونکہ ہم اپنے اس منتخب بندے سے بدی اور بے حیائی کو دور کرنا چاہتے تھے۔ دوسرا مطلب یہ بھی لیا جاسکتا ہے، اور یہ زیادہ گہرا مطلب ہے کہ یوسف ؑ کو یہ معاملہ جو پیش آیا تو یہ بھی دراصل ان کی تربیت کے سلسلہ میں ایک ضروری مرحلہ تھا۔ ان کوبدی اور بے حیائی سے اپک کرنے اور ان کی طہارتِ نفس کو درجہٴ کمال پر پہنچانے کے لیے مصلحتِ الہٰی میں یہ ناگزیر تھا کہ ان کے سامنے معصیت کا ایک ایسا نازک موقع پیش آئے اور اس آزمائش کے وقت وہ اپنے ارادے کی پوری طاقت پرہیز گاری و تقویٰ کے پلڑے میں ڈال کر اپنے نفس کے بُرے میلانات کو ہمیشہ کے لیے قطعی طور پر شکست دے دیں۔ خصوصیت کے ساتھ اس مخصوص طریقہٴ تربیت کے اختیار کرنے کی مصلحت اور اہمیت اُس اخلاقی ماحول کو نگاہ میں رکھنے سے بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے جو اُس وقت کی مصری سوسائٹی میں پایا جاتا تھا۔ آگے رکوع ۴ میں اس ماحول کی جو ایک ذراسی جھلک دکھائی گئی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت کے ”مہذب مصر“ میں بالعموم اور اُس کے اونچے طبقے میں بالخصوص صنفی آزادی قریب قریب اسی پیمانے پر تھی جس پر ہم اپنے زمانے کے اہل مغرب اور مغرب زدہ طبقوں کو ”فائز“ پارہے ہیں۔ حضرت یوسف ؑ کے ایسے بگڑے ہوئے لوگوں میں رہ کر کام کرنا تھا، اور کام بھی ایک معمولی آدمی کی حیثیت سے نہیں بلکہ فرمانروائے ملک کی حیثیت سے کرنا تھا۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جو خواتینِ کرام ایک حَسین غلام کے آگے بچھی جارہی تھیں، وہ ایک جوان اور خوبصورت فرمانروا کو پھانسنے اور بگاڑنے کے لیے کیا نہ کر گزرتیں۔ اسی کی پیش بندی اللہ تعالیٰ نے اس طرح فرمائی کہ ایک طرف تو ابتدا ہی میں اِس آزمائش سے گزار کر حضرت یوسف ؑ کو پختہ کردیا، اور دوسری طرف خود خواتین مصر کو بھی ان سے مایوس کرکے ان کے سارے فتنوں کا دروازہ بند کردیا |
1 | برہان کے معنی ہیں دلیل اور حجت کے۔ رب کی برہان سے مراد خدا کی سُجھائی ہوئی وہ دلیل ہے جس کی بنا پر حضرت یوسفؑ کے ضمیر نے اُن کے نفس کو اس بات کا قائل کیا کہ اس عورت کی دعوت عیش قبول کرنا تجھے زیبا نہیں ہے۔ اور دلیل تھی کیا؟ اسے پچلے فقرے میں بیان کیا جا چکا ہے، یعنی یہ کہ میرے رب نے مجھے یہ منزلت بخشی اور میں ایسا بُرا کام کروں، ایسے ظالموں کو فلاح نصیب نہیں ہوا کرتی ۔ یہی وہ برہانِ حق تھی جس نے سیّد نا یوسفؑ بھی اس کی طرف اگر اپنے رب کی برہان نہ دیکھ لیتا تو اس سے عصمت انبیاء کی حقیقت سے باز رکھا۔ نبی کی معصومیت کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اس سے گناہ اور لغزش و خطا کی قوت داستعداد سلب کر لی گئی ہے حتیٰ کہ گناہ کا صدور اس کے امکان ہی میں نہیں رہا ہے۔ بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ نبی اگرچہ گناہ کرنے پر قادر ہوتا ہے لیکن بشریت کی تمام صفات سے متصف ہونے کے باوجود، اور جملہ انسانی جزبات، احساسات اور خواہشات رکھتے ہوئے بھی وہ ایسا نیک نفس اور خدا ترس ہوتا ہے کہ جان بوجھ کر کبھی گناہ کا قصد نہیں کرتا۔ وہ اپنے ضمیر میں اپنے رب کی ایسی ایسی زبردست حجتیں اور دلیلیں رکھتا ہے جن کے مقابلہ میں خواہش نفس کبھی کامیاب نہیں ہونے پاتی۔ اور اگر نادانستہ اس سے کوئی لغزش نہیں ہے، ایک پوری اُمت کی لغزش ہے۔ وہ راہِ راست سے بال برابر ہٹ جائے تو دنیا گمراہی میں میلوں دُور نکل جائے۔ |