Ayats Found (7)
Surah 6 : Ayat 73
وَهُوَ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ بِٱلْحَقِّۖ وَيَوْمَ يَقُولُ كُن فَيَكُونُۚ قَوْلُهُ ٱلْحَقُّۚ وَلَهُ ٱلْمُلْكُ يَوْمَ يُنفَخُ فِى ٱلصُّورِۚ عَـٰلِمُ ٱلْغَيْبِ وَٱلشَّهَـٰدَةِۚ وَهُوَ ٱلْحَكِيمُ ٱلْخَبِيرُ
وہی ہے جس نے آسمان و زمین کو بر حق پیدا کیا ہے1 اور جس د ن وہ کہے گا کہ حشر ہو جائے اسی دن وہ ہو جائے گا اس کا ارشاد عین حق ہے اور جس روز صور پھونکا جائیگا 2اس روز پادشاہی اُسی کی ہوگی3، وہ غیب اور شہادت4 ہر چیز کا عالم ہے اور دانا اور باخبر ہے
4 | غیب = وہ سب کچھ جو مخلوقات سے پوشیدہ ہے۔ شھادت = وہ سب کچھ جو مخلوقات کے لیے ظاہر و معلوم ہے |
3 | یہ مطلب نہیں ہے کہ آج بادشاہی اس کی نہیں ہے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ اُس روز جب پردہ اُٹھایا جائے گا اور حقیقت بالکل سامنے آجائے گی تو معلوم ہو جائے گا کہ وہ سب جو با اختیار نظر آتے تھے ، یا سمجھے جاتے تھے ، بالکل بے اختیار ہیں اور بادشاہی کے سارے اختیارات اسی ایک خدا کے لیے ہیں جس نے کائنات کو پیدا کیا ہے |
2 | صُور پھوُنکنے کی صحیح کیفیت کیا ہوگی، اس کی تفصیل ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ قرآن سے جو کچھ ہمیں معلوم ہوا ہے وہ صرف اتنا ہے کہ قیامت کے روز اللہ کے حکم سے ایک مرتبہ صُور پھُونکا جائے گا اور سب ہلاک ہو جائیں گے ۔ پھرنا معلوم کتنی مدّت بعد، جسے اللہ ہی جانتا ہے، دُوسرا صُور پھُونکا جائے گا اور تمام اوّلین و آخرین ازسرِ نو زندہ ہو کر اپنے آپ کو میدانِ حشر میں پائیں گے۔ پہلے صُور پر سارا نظامِ کائنات درہم برہم ہو گا اور دُوسرے صُور پر ایک دُوسرا نظام نئی صُورت اور نئے قوانین کے ساتھ قائم ہو جائے گا |
1 | قرآن میں یہ بات جگہ جگہ بیان کی گئی ہے کہ اللہ نے زمین اور آسمانوں کو برحق پیدا کیا ہے یا حق کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ یہ ارشاد بہت وسیع معانی پر مشتمل ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ زمین اور آسمانوں کی تخلیق محض کھیل کے طور پر نہیں ہوئی ہے۔ یہ ایشورجی کی لِیلا نہیں ہے۔ یہ کسی بچے کا کھلونا نہیں ہے کہ محض دل بہلانے کے لیے وہ اس سے کھیلتا رہے اور پھر یونہی اُسے توڑ پھوڑ کر پھینک دے ۔ دراصل یہ ایک نہایت سنجیدہ کام ہے جو حکمت کی بنا پر کیا گیا ہے، ایک مقصدِ عظیم اس کے اندر کارفرما ہے ، اور اس کا ایک دَور گزر جانے کے بعد ناگزیر ہے کہ خالق اُس پُورے کام کا حساب لے جو اُس دَور میں انجام پایا ہو اور اسی دَور کے نتائج پر دُوسرے دَور کی بُنیاد رکھے۔ یہی بات ہے جو دُوسرے مقامات پر یوں بیان کی گئی ہے: رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَا طِلاً۔”اے ہمارے ربّ، تُو نے یہ سب کچھ فضول پیدا نہیں کیا ہے“۔ اور وَمَا خَلَقْنَا السَّمَآ ءَ وَالْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَھُمَا لٰعِبِیْنَ۔” ہم نے آسمان و زمین اور ان چیزوں کو جو آسمان و زمین کے درمیان ہیں کھیل کے طور پیدا نہیں کیا ہے“۔ اور اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُر ْجَعُوْنَ۔” تو کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تمھیں یونہی فضول پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف واپس نہ لائے جاؤ گے“ ؟ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے یہ سارا نظام ِ کائنات حق کی ٹھوس بُنیادوں پر قائم کیا ہے ۔ عدل اور حکمت اور راستی کے قوانین پر اس کی ہر چیز مبنی ہے۔ باطل کے لیے فی الحقیقت اس نظام میں جڑ پکڑنے اور بار آور ہونے کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ یہ اَور بات ہے کہ اللہ باطل پرستوں کو موقع دیدے کہ وہ اگر اپنے جھُوٹ اور ظلم اور ناراستی کو فروغ دینا چاہتے ہیں تو اپنی کوشش کر دیکھیں۔ لیکن آخر کار زمین باطل کے ہر بیج کو اُگل کر پھینک دے گی اور آخری فرد حساب میں ہر باطل پرست دیکھ لے گا کہ جو کوششیں اس نے اس شجرِ خبیث کی کاشت اور آبیاری میں صرف کیں وہ سب ضائع ہو گئیں۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ خدا نے اس ساری کائنات کو بربنائے حق پیدا کیا ہے اور اپنے ذاتی حق کی بنا پر ہی وہ اس پر فرماں روائی کر رہا ہے۔ اس کا حکم یہاں اس لیے چلتا ہے کہ وہی اپنی پیدا کی ہوئی کائنات میں حکمرانی کا حق رکھتا ہے۔ دُوسروں کا حکم اگر بظاہر چلتا نظر بھی آتا ہے تو اس سے دھوکا نہ کھاؤ، فی الحقیقت نہ ان کا حکم چلتا ہے، نہ چل سکتا ہے ، کیونکہ کائنات کی کسی چیز پر بھی ان کا کوئی حق نہیں ہے کہ وہ اس پر اپنا حکم چلائیں |
Surah 6 : Ayat 128
وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا يَـٰمَعْشَرَ ٱلْجِنِّ قَدِ ٱسْتَكْثَرْتُم مِّنَ ٱلْإِنسِۖ وَقَالَ أَوْلِيَآؤُهُم مِّنَ ٱلْإِنسِ رَبَّنَا ٱسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَبَلَغْنَآ أَجَلَنَا ٱلَّذِىٓ أَجَّلْتَ لَنَاۚ قَالَ ٱلنَّارُ مَثْوَٮٰكُمْ خَـٰلِدِينَ فِيهَآ إِلَّا مَا شَآءَ ٱللَّهُۗ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ
جس روز اللہ ان سب لوگوں کو گھیر کر جمع کرے گا، اس روز وہ جنوں1 سے خطاب کر کے فرمائے گا کہ 2"ا ے گروہ جن! تم نے نوع انسانی پر خوب ہاتھ صاف کیا" انسانوں میں سے جو اُن کے رفیق تھے وہ عرض کریں گے "پروردگار! ہم میں سے ہر ایک نے دوسرے کو خو ب استعمال کیا ہے، اور اب ہم اُس وقت پر آ پہنچے ہیں جو تو نے ہمارے لیے مقرر کر دیا تھا3" اللہ فرمائے گا "اچھا اب آگ تمہارا ٹھکانا ہے، اس میں تم ہمیشہ رہو گے" ا"س سے بچیں گے صرف وہی جنہیں اللہ بچانا چاہے گا، بے شک تمہارا رب دانا اور علیم ہے
3 | یعنی اگرچہ اللہ کو اختیار ہے کہ جسے چاہے سزا دے اور جسے چاہے معاف کر دے ، مگر یہ سزا اور معافی بلاوجہِ معقول ، مجرّد خواہش کی بنا پر نہیں ہو گی، بلکہ علم اور حکمت پر مبنی ہو گی۔ خدا معاف اسی مجرم کو کرے گا جس کے متعلق وہ جانتا ہے کہ وہ کود اپنے جُرم کا ذمّہ دار نہیں ہے اور جس کے متعلق اس کی حکمت یہ فیصلہ کر ے گی کہ اسے سزا نہ دی جانی چاہیے |
2 | یعنی ہم میں سے ہر ایک نے دُوسرے سے ناجائز فائدے اُٹھائے ہیں، ہر ایک دُوسرے کو فریب میں مبتلا کر کے اپنی خواہشات پوری کرتا رہا ہے |
1 | یہاں جِنوں سے مراد شیاطین جِن ہیں |
Surah 6 : Ayat 139
وَقَالُواْ مَا فِى بُطُونِ هَـٰذِهِ ٱلْأَنْعَـٰمِ خَالِصَةٌ لِّذُكُورِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلَىٰٓ أَزْوَٲجِنَاۖ وَإِن يَكُن مَّيْتَةً فَهُمْ فِيهِ شُرَكَآءُۚ سَيَجْزِيهِمْ وَصْفَهُمْۚ إِنَّهُۥ حَكِيمٌ عَلِيمٌ
اور کہتے ہیں کہ جو کچھ ان جانوروں کے پیٹ میں ہے یہ ہمارے مردوں کے لیے مخصوص ہے اور ہماری عورتوں پر حرام، لیکن اگر وہ مُردہ ہو تو دونوں اس کے کھانے میں شریک ہو سکتے ہیں1 یہ باتیں جو انہوں نے گھڑ لی ہیں ان کا بدلہ اللہ انہیں دے کر رہے گا یقیناً وہ حکیم ہے اور سب باتوں کی اسے خبر ہے
1 | اہلِ عرب کے ہاں نذروں اور منتوں کے جانوروں کے متعلق جو خود ساختہ شریعت بنی ہوئی تھی اس کی ایک دفعہ یہ بھی تھی کہ ان جانوروں کے پیٹ سے جو بچہ پیدا ہو اس کا گوشت صرف مر د کھا سکتے ہیں ، عورتوں کے لیے ان کا کھانا جائز نہیں۔ لیکن اگر وہ بچہ مُردہ ہو یا مر جائے تو اس کا گوشت کھانے میں مرد و عورت سب شریک ہو سکتے ہیں |
Surah 15 : Ayat 25
وَإِنَّ رَبَّكَ هُوَ يَحْشُرُهُمْۚ إِنَّهُۥ حَكِيمٌ عَلِيمٌ
یقیناً تمہارا رب ان سب کو اکٹھا کرے گا، وہ حکیم بھی ہے اور علیم بھی1
1 | یعنی اس کی حکمت یہ تقاضا کرتی ہے کہ وہ سب کو اکٹھا کرے اور اس کا علم سب پر اس طرح حاوی ہے کہ کوئی متنفس اُس سے چھوٹ نہیں سکتا، بلکہ کسی اگلے پچھلے انسان کی خاک کا کوئی ذرہ بھی اُس سے گم نہیں ہو سکتا۔ اس لیے جو شخص حیران ہو کر پوچھتا ہے کہ جب مرنے کے بعد ہماری خاک کا زرہ ذرہ منتشر ہو جائے گا تو ہم کیسے دوبارہ پیدا کیے جائیں گے وہ خدا کی صفتِ علم کو نہیں جانتا۔
|
Surah 43 : Ayat 84
وَهُوَ ٱلَّذِى فِى ٱلسَّمَآءِ إِلَـٰهٌ وَفِى ٱلْأَرْضِ إِلَـٰهٌۚ وَهُوَ ٱلْحَكِيمُ ٱلْعَلِيمُ
وہی ایک آسمان میں بھی خدا ہے اور زمین میں بھی خدا، اور وہی حکیم و علیم ہے1
1 | یعنی آسمان اور زمین کے خدا الگ الگ نہیں ہیں، بلکہ ساری کائنات کا ایک ہی خدا ہے ۔ اسی کی حکمت اس پورے نظام کائنات میں کار فرما ہے ، اور وہی تمام حقائق کا علم رکھتا ہے |
Surah 51 : Ayat 30
قَالُواْ كَذَٲلِكِ قَالَ رَبُّكِۖ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلْحَكِيمُ ٱلْعَلِيمُ
انہوں نے کہا 1"یہی کچھ فرمایا ہے تیرے رب نے، وہ حکیم ہے اور سب کچھ جانتا ہے"
1 | اس قصے سے یہ بتانا مقصود ہے کہ جس بندے نے اپنے رب کی بندگی کا حق دنیا میں ٹھیک ٹھیک ادا کیا تھا، اس کے ساتھ عقبیٰ میں تو جو معاملہ ہوگا سو ہوگا، اسی دنیا میں اس کے یہ انعام دیا گیا کہ عام قوانین طبیعت کی رو سے جس عمر میں اس کے ہاں اولاد پیدا نہ ہو سکتی تھی، او ر اس کی سن رسیدہ بیوی تمام عمر بے اولاد رہ کر اس طرف سے قطعی مایوس ہو چکی تھی، اس وقت اللہ نے اسے نہ صرف اولاد دی بلکہ ایسی بے نظیر اولاد دی جو آج تک کسی کو نصیب نہیں ہوئی ہے۔ دنیا میں کوئی دوسرا انسان ایسا نہیں ہے جس کی نسل میں مسلسل چار انبیاء پیدا ہوۓ ہوں۔ وہ صرف حضرت ابراہیم ہی تھے جن کے ہاں تین پشت تک نبوت چلتی رہی اور حضرت اسماعیل، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب اور حضرت یوسف علیہم السلام جیسے جلیل القدر نبی ان کے گھرانے سے اٹھے |
Surah 27 : Ayat 6
وَإِنَّكَ لَتُلَقَّى ٱلْقُرْءَانَ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ عَلِيمٍ
اور (اے محمدؐ) بلاشبہ تم یہ قرآن ایک حکیم و علیم ہستی کی طرف سے پا رہے ہو1
1 | یعنی یہ کوئی ہوائی باتیں نہیں ہیں جو اس قرآن میں کی جارہی ہیں ، اور نہ یہ کسی انسان کے قیاس ورائے پرمبنی ہیں، بلکہ انہیں ایک حکیم وعلیم ذات اِلقا کررہی ہے جو حکمت ودانائی اور علم ودانش میں کامل ہے، جسے اپنی خلق کے مصالح اور ان کے ماضی وحال اور مستقبل کا پورا علم ہے اور جس کی حکمت بندوں کی اصلاح وہدایت کےلیے بہترین تدابیراختیارکرتی ہے |