Ayats Found (2)
Surah 12 : Ayat 16
وَجَآءُوٓ أَبَاهُمْ عِشَآءً يَبْكُونَ
شام کو وہ روتے پیٹتے اپنے باپ کے پاس آئے
Surah 12 : Ayat 18
وَجَآءُو عَلَىٰ قَمِيصِهِۦ بِدَمٍ كَذِبٍۚ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْرًاۖ فَصَبْرٌ جَمِيلٌۖ وَٱللَّهُ ٱلْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ
اور وہ یوسفؑ کے قمیص پر جھوٹ موٹ کا خون لگا کر آئے تھے یہ سن کر ان کے باپ نے کہا 1"بلکہ تمہارے نفس نے تمہارے لیے ایک بڑے کام کو آسان بنا دیا اچھا، صبر کروں گا اور بخوبی کروں گا، جو بات تم بنا رہے ہو اس پر اللہ ہی سے مدد مانگی جا سکتی ہے2"
2 | بائیبل اور تلمود یہاں حضرت یعقوب ؑ کے تاثر کا نقشہ بھی کچھ ایسا کھینچتی ہیں جو کسی معمولی باپ کے تاثر سے کچھ بھی مختلف نہیں ہے۔ بائیبل کا بیان یہ ہےکہ ”تب یعقوب نے اپنا پیراہن چاک کیا اور ٹاٹ اپنی کمر سے لپیٹا اور بہت دنوں تک اپنے بیٹے کے لیے ماتم کرتا رہا“۔ اور تلمود کا بیان ہے کہ ”یعقوب بیٹے کا قمیص پہچانتے ہی اوندھے منہ زمین پر گر پڑا اور دیر تک بے حس و حرکت پڑا رہا، پھر اٹھ کر بڑے زور سے چیخا کہ ہاں یہ میرے بیٹے ہی کا قمیض ہے …………. اور وہ سالہا سال تک یوسف ؑ کا ماتم کرتا رہا“۔ اس نقشے میں حضرت یعقوب ؑ وہی کچھ کرتے نظر آتے ہیں جو ہر باپ ایسے موقع پر کرے گا۔ لیکن قرآن جو نقشہ پیش کررہا ہے اس سے ہمارے سامنے ایک ایسے غیر معمولی انسان کی تصویر آتی ہے جو کمال درجہ بردبار و باوقار ہے، اتنی بڑی غم انگیز خبر سن کر بھی اپنے دماغ کا توازن نہیں کھوتا، اپنی فراست سے معاملہ ٹھیک ٹھیک نوعیت کو بھانپ جاتا ہے کہ یہ ایک بناوٹی بات ہے جو ان حاسد بیٹوں نے بناکر پیش کی ہے، اور پھرعالی ظرف انسانوں کی طرح صبر کرتا ہے اور خدا پر بھروسہ کرتا ہے |
1 | متن میں”صبر جمیل“ کے الفاظ ہیں جن کا لفظی ترجمہ ”اچھا صبر“ ہوسکتا ہے۔ اس سے مراد ایسا صبر ہے جس میں شکایت نہ ہو، فریاد نہ ہو، جَزَع نزع نہ ہو، ٹھنڈے دل سے اس مصیبت کو برداشت کیا جائے جو ایک عالی ظرف انسان پر آپڑی ہو |