Ayats Found (2)
Surah 12 : Ayat 11
قَالُواْ يَـٰٓأَبَانَا مَا لَكَ لَا تَأْمَ۫نَّا عَلَىٰ يُوسُفَ وَإِنَّا لَهُۥ لَنَـٰصِحُونَ
اس قرارداد پر انہوں نے جا کر اپنے باپ سے کہا "ابا جان، کیا بات ہے کہ آپ یوسفؑ کے معاملہ میں ہم پر بھروسہ نہیں کرتے حالانکہ ہم اس کے سچے خیر خواہ ہیں؟
Surah 12 : Ayat 15
فَلَمَّا ذَهَبُواْ بِهِۦ وَأَجْمَعُوٓاْ أَن يَجْعَلُوهُ فِى غَيَـٰبَتِ ٱلْجُبِّۚ وَأَوْحَيْنَآ إِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُم بِأَمْرِهِمْ هَـٰذَا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ
اِس طرح اصرار کر کے جب وہ اُسے لے گئے اور انہوں نے طے کر لیا کہ اسے ایک اندھے کنویں میں چھوڑ دیں، تو ہم نے یوسفؑ کو وحی کی کہ 1"ایک وقت آئے گا جب تو ان لوگوں کو ان کی یہ حرکت جتائے گا، یہ اپنے فعل کے نتائج سے بے خبر ہیں"
1 | متن میں وَھُم لَایَشعُرُونَ کے الفاظ کچھ ایسے انداز سے آئے ہیں کہ ان سے تین معنی نکلتے ہیں اور تینوں ہی لگتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ ایک یہ ہم یوسف ؑ کو یہ تسلی دے رہے تھے اور اس کے بھائیوں کو کچھ خبر نہ تھی کہ اس پر وحی جاری ہے۔ دوسرے یہ کہ تو ایسے حالات میں ان کی یہ حرکت انہیں جتائے گا جہاں تیرے ہونے کا انہیں وہم و گمان تک نہ ہوگا۔ تیسرے یہ کہ آج یہ بے سمجھے بوجھے ایک حرکت کررہے ہیں اور نہیں جانتے کہ آئندہ اس کے نتائج کیا ہونے والے ہیں۔ بائیبل اور تَلمود اس ذکر سے خالی ہیں کہ اس وقت اللہ تعالٰی کی طرف سے یوسف ؑ کو کوئی تسلی بھی دی گئی تھی۔ اس کے بجائے تلمود میں جو روایت بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ جب حضرت یوسف ؑ کنویں میں ڈالے گئے تو وہ بہت بُلبلائے اور خوب چیخ چیخ کر انہوں نے بھائیوں سے فریاد کی۔ قرآن کا بیان پڑھیے تو محسوس ہوگا کہ ایک ایسے نوجوان کا بیان ہورہا ہے جو آگے چل کر تاریخ انسانی کی عظیم ترین شخصیتوں میں شمار ہونے والا ہے۔ تلمود کو پڑھیے تو کچھ ایسا نقشہ سامنے آئے گا کہ صحرا میں چند بدو ایک لڑکے کو کنویں میں پھینک رہے ہیں اور وہ وہی کچھ کررہا ہے جو ہر لڑکا ایسے موقع پر کرے گا |