Ayats Found (2)
Surah 12 : Ayat 3
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ ٱلْقَصَصِ بِمَآ أَوْحَيْنَآ إِلَيْكَ هَـٰذَا ٱلْقُرْءَانَ وَإِن كُنتَ مِن قَبْلِهِۦ لَمِنَ ٱلْغَـٰفِلِينَ
اے محمدؐ، ہم اس قرآن کو تمہاری طرف وحی کر کے بہترین پیرایہ میں واقعات اور حقائق تم سے بیان کرتے ہیں، ورنہ اس سے پہلے تو (ان چیزو ں سے) تم بالکل ہی بے خبر تھے1
1 | سورہ کے دیباچے میں کرچکے ہیں کہ کفار مکہ میں سے بعض لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کا امتحان لینے کے لیے، بلکہ اپنے نزدیک آپ کا بھرم کھولنے کے لیے، غالباً یہودیوں کے اشارے پر، آپ کے سامنے اچانک یہ سوال پیش کیا تھا کہ بنی اسرائیل کے مصر پہنچنے کا کیا سبب ہُوا۔ اسی بنا پر ان کے جواب میں تاریخ بنی اسرائیل کا یہ باب پیش کرنے سے پہلے تمہیداً یہ فقرہ ارشاد ہُوا ہے کہ اے محمد ؐ !تم ان واقعات سے بے خبر تھے، دراصل یہ ہم ہیں جو وحی کے ذریعہ سے تمہیں ان کی خبر دے رہے ہیں۔ بظاہر اس فقرے میں خطاب نبی ؐ سے ہے، لیکن اصل میں روئے سخن اُن مخالفین کی طرف ہے جن کو یقین نہ تھا کہ آپ کو وحی کے ذریعہ سے علم حاصل ہوتا ہے |
Surah 12 : Ayat 6
وَكَذَٲلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ وَيُعَلِّمُكَ مِن تَأْوِيلِ ٱلْأَحَادِيثِ وَيُتِمُّ نِعْمَتَهُۥ عَلَيْكَ وَعَلَىٰٓ ءَالِ يَعْقُوبَ كَمَآ أَتَمَّهَا عَلَىٰٓ أَبَوَيْكَ مِن قَبْلُ إِبْرَٲهِيمَ وَإِسْحَـٰقَۚ إِنَّ رَبَّكَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
اور ایسا ہی ہوگا (جیسا تو نے خواب میں دیکھا ہے کہ) تیرا رب تجھے (اپنے کام کے لیے) منتخب کرے گا1 اور تجھے باتوں کی تہ تک پہنچنا سکھائے گا2 اور تیرے اوپر اور آل یعقوبؑ پر اپنی نعمت اسی طرح پوری کرے گا جس طرح اس سے پہلے وہ تیرے بزرگوں، ابراہیمؑ اور اسحاقؑ پر کر چکا ہے، یقیناً تیرا رب علیم اور حکیم ہے3"
3 | بائیبل اور تَلمود کا بیان قرآن کے اس بیان سے مختلف ہے۔ ان کا بیان یہ ہے کہ حضرت یعقوب ؑ نے خواب سُن کر بیٹے کو خوب ڈانٹا اور کہا، اچھا اب تو یہ خواب دیکھنے لگا ہے کہ میں اور تیری ماں اور تیرے سب بھائی تجھے سجدہ کریں گے۔ لیکن ذرا غور کرنے سے بآسانی یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ حضرت یعقوب ؑ کی پیغمبرانہ سیرت سے قرآن کا بیان زیادہ مناسبت رکھتا ہے نہ کہ بائیبل اور تَلمود کا۔ حضرت یوسف ؑ نے خواب بیان کیا تھا، کوئی اپنی تمنّا اور خواہش نہیں بیان کی تھی خواب اگر سچّا تھا، اور ظاہر ہے کہ حضرت یعقوب ؑ نے جو اس کی تعبیر نکالی وہ سچا خواب ہی سمجھ کر نکالی تھی، تو اس کے صاف معنی یہ تھے کہ یہ یوسف ؑ کی خواہش نہیں تھی بلکہ تقدیرِ الٰہی کا فیصلہ تھا کہ ایک وقت ان کو یہ عروج حاصل ہو۔ پھر کیا ایک پیغمبر تو درکنار ایک معقول آدمی کا بھی یہ کام ہوسکتا ہے کہ ایسی بات پر بُرا مانے اور خواب دیکھنے والے کو اُلٹی ڈانٹ پلائے؟ اور کیا کوئی شریف باپ ایسا بھی ہوسکتا ہے جو اپنے ہی بیٹے کے آئندہ عروج کی بشارت سن کر خوش ہونے کے بجائےاُلٹا جل بُھن جائے؟ |
2 | ”تَاوِیلُ الاَحَا دِیثِ“کا مطلب محض تعبیرِ خواب کا علم نہیں ہے جیسا کہ گمان کیا گیا ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے معاملہ فہمی اور حقیقت رسی کی تعلیم دے گا اور وہ بصیرت تجھ کو عطا کرے گا جس سے تو ہر معاملہ کی گہرائی میں اترنے اور اس کی تہ کو پالینے کے قابل ہوجائے گا |