Ayats Found (7)
Surah 37 : Ayat 45
يُطَافُ عَلَيْهِم بِكَأْسٍ مِّن مَّعِينِۭ
شراب1 کے چشموں2 سے ساغر بھر بھر کر ان کے درمیان پھرائے جائیں گے3
3 | یہاں یہ نہیں بتایا گیا کہ شراب کے یہ ساغر لے کر جنّتیوں کے درمیان گردش کون کرے گا۔ اس کی تفصیل دوسرے مقامات پر ارشاد ہوئی ہے : وَ یَطُوْ فُ عَلَیْھِمْ غِلْمَانٌ لَّھُمْ کَاَنَّھُمْ لُو ءْ لُوءٌ مَّکْنُوْنٌ ۔ اور ان کی خدمت کے لیے گردش کریں گے ان کے خادم لڑکے،ایسے خوبصورت جیسے صدف میں چھُپے ہوئے موتی‘‘ (الطور، آیت 24)۔ وَیَطُوْ فُ عَلَیْھِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ اِذَارَ أَیْتَھُمْ حَسِبْتَھُمْ لُوْء لُؤًا مَّنْشُوْراً۔ ’’اور ان کی خدمت کے لیے گردش کریں گے ایسے لڑکے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہنے والے ہیں۔تم انہیں دیکھو تو سمجھو کہ موتی بکھیر دیے گئے ہیں‘‘ (الدہر، آیت 19)۔ پھر اس کی مزید تفصیل حضرت اَنَس اور حضرت سَمُرَہ بن جُندُب کی ان روایات میں ملتی ہے جو انہوں نے نبی صلی اللہ ولیہ و سلم سے نقل کی ہیں۔ان میں بتایا گیا ہے کہ ’’مشرکین کے بچے اہل جنت کے خادم ہوں گے‘‘(ابو داؤد طَیالِسی، طبرانی، بزَّار) ۔ یہ روایات اگرچہ سنداً ضعیف ہیں، لیکن متعدد دوسری احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو بچے سنّ رشد کو نہیں پہنچے ہیں وہ جنت میں جائیں گے۔پھر یہ بھی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جن بچوں کے والدین جنتی ہو ں گے وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ رہیں گے تاکہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔اس کے بعد لامحالہ وہ بچے رہ جاتے ہیں جن کے ماں باپ جنّتی نہ ہوں گے ۔ سو ان کے متعلق یہ بات معقول معلوم ہوتی ہے کہ وہ اہل جنت کے خادم بنا دیے جائیں ۔ (اس کے متعلق تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو فتح الباری اور عمدۃالقاری، کتاب الجنائز، باب ماقیل فی اولاد المشرکین رسائل و مسائل، جلد سوم، ص 177 تا 187)۔ |
2 | یعنی وہ شراب اس قوم کی نہ ہو گی جو دنیا میں پھلوں اور غلّوں کو سڑا کر کشید کی جاتی ہے۔بلکہ وہ قدرتی طور پر چشموں سے نکلے گی اور نہروں کی شکل میں بہے گی۔سورہ محمدؐ میں اسی مضمون کو صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے : وَاَنْھٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّۃٍ لِّشَّارِبِیْنَ۔ ’’اور شراب کی نہریں جو پینے والوں کے لیے لذت ہوں گی۔‘‘ |
1 | اصل میں یہاں شراب کی تصریح نہیں ہے بلکہ صرف کاًس(ساغر)کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔لیکن عربی زبان کی کاًس کا لفظ بول کر ہمیشہ شراب ہی مراد لی جاتی ہے۔جس پیالے میں شراب کے بجائے دودھ یا پانی ہو،یا جس پیالے میں کچھ نہ ہو اسے کاًس نہیں کہتے کاًس کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب اس میں شراب ہو۔ |
Surah 37 : Ayat 46
بَيْضَآءَ لَذَّةٍ لِّلشَّـٰرِبِينَ
چمکتی ہوئی شراب، جو پینے والوں کے لیے لذّت ہو گی
Surah 38 : Ayat 51
مُتَّكِــِٔينَ فِيهَا يَدْعُونَ فِيهَا بِفَـٰكِهَةٍ كَثِيرَةٍ وَشَرَابٍ
ان میں وہ تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے، خوب خوب فواکہ اور مشروبات طلب کر رہے ہوں گے
Surah 52 : Ayat 23
يَتَنَـٰزَعُونَ فِيهَا كَأْسًا لَّا لَغْوٌ فِيهَا وَلَا تَأْثِيمٌ
وہاں وہ ایک دوسرے سے جام شراب لپک لپک کر لے رہے ہوں گے جس میں نہ یاوہ گوئی ہوگی نہ بد کرداری1
1 | یعنی وہ شراب نشہ پیدا کرنے والی نہ ہوگی کہ اسے پی کر وہ بد مست ہوں اور بیہودہ بکواس کرنے لگیں ، یا گالم گلوچ اور دَھول دھپے پر اُتر آئیں ، یا اس طرح کی فحش حرکات کرنے لگیں جیسی دنیا کی شراب پینے والے کرتے ہیں ۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ صافات، حاشیہ 27)۔ |
Surah 56 : Ayat 18
بِأَكْوَابٍ وَأَبَارِيقَ وَكَأْسٍ مِّن مَّعِينٍ
لبریز پیالے کنٹر اور ساغر لیے دوڑتے پھرتے ہونگے
Surah 76 : Ayat 21
عَـٰلِيَهُمْ ثِيَابُ سُندُسٍ خُضْرٌ وَإِسْتَبْرَقٌۖ وَحُلُّوٓاْ أَسَاوِرَ مِن فِضَّةٍ وَسَقَـٰهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُورًا
اُن کے اوپر باریک ریشم کے سبز لباس اور اطلس و دیبا کے کپڑے ہوں1 گے، ان کو چاندی کے کنگن پہنا ئے جائیں گے2، اور ان کا رب ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا3
3 | پہلے دو شرابوں کا ذکر گزر چکا ہے۔ ایک وہ جس میں آبِِ چشمئہ کافور کی آمیزش ہو گی۔ دوسری وہ جس میں آبِِ چشمئہ زنجیل کی آمیزش ہو گی۔ ان دونوں شرابوں کے بعد اب پھر ایک شراب کا ذکرکرنا اور یہ فرمانا کہ ان کا رب انہیں نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا، یہ معنی رکھتا ہے کہ یہ کوئی اور بہترین نوعیت کی شراب ہو گی جو اللہ تعالی کی طرف سے فضلِ خاص کے طور پر انہیں پلائی جائے گی |
2 | سورہ کہف آیت 31 میں فرمایا گیا ہے یحلون فیھا من اساور من ذھب ’’ وہ وہاں سونے کے گنگنوں سے آراستہ کیے جائیں گے‘‘۔ یہی مضمون سورہ حج آیت 23، اور سورہ فاطر آیت 33 میں بھی ارشاد ہوا ہے۔ ان سب آیتوں کو ملا کر دیکھا جائے تو تین صورتیں ممکن محسوس ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ کبھی وہ چاہیں گے تو سونے کے کنگن پہنیں گےاور کبھی چاہیں گے تو چاندی کے کنگن پہن لیں گے۔ دونوں چیزیں ان کے حسب خواہش موجود ہوں گی۔ دوسرے یہ کہ سونےاورچاندی کے کنگن وہ بیک وقت پہنیں گے، کیونکہ دونوں کو ملا دینے سے حسن دو بالا ہو جاتا ہے۔ تیسرے یہ کہ جس کا جی چاہیےگا سونےکے کنگن پہنےگا اورجو چاہے گا چاندی کے کنگن استعمال کرے گا۔رہا یہ سوال کہ زیور توعورتیں پہنتی ہیں، مردوں کو زیور پہنانے کا کیا موقع ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قدیم زمانے میں بادشاہوں اوررئیسوں کا طریقہ یہ تھا کہ وہ ہاتھوں اور گلے اور سر کے تاجوں میں طرح طرح کے زیورات استعمال کرتے تھے، بلکہ ہمارے زمانے میں برطانوی ہند کے راجاؤں اور نوابوں تک میں یہ دستور رائج رہا ہے۔ سورہ زخرف میں بیان ہوا ہے کہ حضرت موسی جب اپنے سادہ لباس میں بس ایک لاٹھی لیے ہوئے فرعون کے دربار میں پہنچے اوراس سے کہا کہ میں اللہ رب ا لعالمین کا بھیجا ہوا پیغمبر ہوں تو اس نے اپنے درباریوں سے کہا کہ یہ اچھا سفیر ہے جو اس حالت میں میرے سامنے آیا ہے، فلو لا القی علیہ اسورۃ من ذھب اوجاء معہ الملئکۃ مقترنین۔ (آیت 53)۔ یعنی اگر یہ زمین و آسمان کے بادشا ہ کی طرف سے بھیجا گیا ہوتا تو کیوں نہ اس پر سونے کے کنگن اتارے گئے؟ یا ملائکہ کا کوئی لشکر اس کی اردلی میں آتا |
1 | یہی مضمون سورہ کہف آیت 31 میں گزر چکا ہے کہ ویلبسون ثیابا خضرا من سندس و استبرق متکئین فیھا علی الارائک۔ ’’وہ (اہل جنت) باریک ریشم اور اطلس و دیبا کے سبز کپڑے پہنیں گے، اونچی مسندوں پر تکیے لگا کر بیٹھیں گے‘‘۔اس بنا پر ان مفسرین ک ی رائے صحیح نہیں معلوم ہوتی جنہوں نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اس سے مراد وہ کپڑے ہیں جو ان کی مسندوں یا مسہریوں کے اوپر لٹکے ہوئے ہوں گے، یا یہ ان لڑکوں کا لباس ہو گا جو ان ک یخدمت میں دوڑے پھر رہے ہوں گے |
Surah 78 : Ayat 34
وَكَأْسًا دِهَاقًا
اور چھلکتے ہوئے جام