Ayats Found (9)
Surah 2 : Ayat 58
وَإِذْ قُلْنَا ٱدْخُلُواْ هَـٰذِهِ ٱلْقَرْيَةَ فَكُلُواْ مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَٱدْخُلُواْ ٱلْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُواْ حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطَـٰيَـٰكُمْۚ وَسَنَزِيدُ ٱلْمُحْسِنِينَ
پھر یاد کرو جب ہم نے کہا تھا کہ، 1"یہ بستی جو تمہارے سامنے ہے، اس میں داخل ہو جاؤ، اس کی پیداوار جس طرح چاہو، مزے سے کھاؤ، مگر بستی کے دروازے میں سجدہ ریز ہوتے ہو ئے داخل ہونا اور کہتے جانا حطۃ حطۃ2، ہم تمہاری خطاؤں سے در گزر کریں گے اور نیکو کاروں کو مزید فضل و کرم سے نوازیں گے"
2 | یعنی حکم یہ تھا کہ جابر و ظالم فاتحوں کی طرح اَکڑتے ہوئے نہ گھُسنا، بلکہ خدا ترسوں کی طرح منکسرانہ شان سے داخل ہونا، جیسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکّہ کے موقع پر مکّہ میں داخل ہوئے۔ اور حِطَّۃ ٌ کے دو مطلب ہو سکتے ہیں: ایک یہ کہ خدا سے اپنی خطا ؤ ں کی معافی مانگتے ہوئے جانا، دوسرے یہ کہ لوٹ مار اور قتلِ عام کے بجائے بستی کے باشندوں میں درگذر اور عام معافی کا اعلان کرتے جانا |
1 | یہ ابھی تک تحقیق نہیں ہو سکا ہے کہ اس بستی سے مُراد کونسی بستی ہے۔ جس سلسلہء واقعات میں یہ ذکر ہو رہا ہے وہ اس زمانے سے تعلق رکھتا ہے ، جبکہ بنی اسرائیل ابھی جزیرہ نمائے سینا ہی میں تھے۔ لہٰذا اغلب یہ ہے کہ یہ اسی جزیرہ نما کا کوئی شہر ہو گا ۔ مگر یہ بھی ممکن ہے کہ اِس سے مُراد شِطّیم ہو، جو یَرِْیْحُو کے بالمقابل دریائے اُرْدُن کے مشرقی کنارے پر آباد تھا۔ بائیبل کا بیان ہے کہ اس شہر کو بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ ؑ کی زندگی کے اخیر زمانے میں فتح کیا اور وہاں بڑی بدکاریاں کیں جن کے نتیجے میں خدا نے ان پر وبا بھیجی اور ۲۴ ہزار آدمی ہلاک کر دیے |
Surah 7 : Ayat 161
وَإِذْ قِيلَ لَهُمُ ٱسْكُنُواْ هَـٰذِهِ ٱلْقَرْيَةَ وَكُلُواْ مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ وَقُولُواْ حِطَّةٌ وَٱدْخُلُواْ ٱلْبَابَ سُجَّدًا نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطِيٓـَٔـٰتِكُمْۚ سَنَزِيدُ ٱلْمُحْسِنِينَ
یاد کرو وہ وقت جب ان سے کہا گیا تھا کہ اِس بستی میں جا کر بس جاؤ اور اس کی پیداوار سے حسب منشا روزی حاصل کرو اور حطۃ حطۃ کہتے جاؤ اور شہر کے دروازے میں سجدہ ریز ہوتے ہوئے داخل ہو، ہم تمہاری خطائیں معاف کریں گے اور نیک رویہ رکھنے والوں کو مزید فضل سے نوازیں گے"
Surah 4 : Ayat 40
إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍۖ وَإِن تَكُ حَسَنَةً يُضَـٰعِفْهَا وَيُؤْتِ مِن لَّدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا
اللہ کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا اگر کوئی ایک نیکی کرے تو اللہ اُسے دو چند کرتا ہے اور پھر اپنی طرف سے بڑا اجر عطا فرماتا ہے
Surah 6 : Ayat 160
مَن جَآءَ بِٱلْحَسَنَةِ فَلَهُۥ عَشْرُ أَمْثَالِهَاۖ وَمَن جَآءَ بِٱلسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزَىٰٓ إِلَّا مِثْلَهَا وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
جو اللہ کے حضور نیکی لے کر آئے گا اس کے لیے دس گنا اجر ہے، اور جو بدی لے کر آئے گا اس کو اتنا ہی بدلہ دیا جائے گا جتنا اس نے قصور کیا ہے، اور کسی پر ظلم نہ کیا جائے گا
Surah 28 : Ayat 54
أُوْلَـٰٓئِكَ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُم مَّرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُواْ وَيَدْرَءُونَ بِٱلْحَسَنَةِ ٱلسَّيِّئَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَـٰهُمْ يُنفِقُونَ
یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ان کا اجر دو بار دیا جائے گا اُس ثابت قدمی کے بدلے جو انہوں نے دکھائی وہ بُرائی کو بھَلائی سے دفع کرتے ہیں اور جو کچھ رزق ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں
Surah 27 : Ayat 89
مَن جَآءَ بِٱلْحَسَنَةِ فَلَهُۥ خَيْرٌ مِّنْهَا وَهُم مِّن فَزَعٍ يَوْمَئِذٍ ءَامِنُونَ
جو شخص بھلائی لے کر آئیگا اسے اُس سے زیادہ بہتر صلہ ملے گا1 اور ایسے لوگ اُس دن کے ہَول سے محفوظ ہوں گے2
2 | یعنی قیامت اورحشرونشر کی وہ ہولناکیاں جومنکرین حق کے حواس باختہ کیے دےرہی ہوں گی، ان کےدرمیان یہ لوگ مطمئن ہوں گے۔ اس لیے کہ یہ سب کچھ ان کی توقعات کےمطابق ہوگا۔ وہ پہلے سے اللہ اوراس کےرسولوں کی دی ہوئی خبروں کے مطابق اچھی طرح جانتے تھے کہ قیامت ہونی ہے، ایک دوسری زندگی پیش آنی ہے اوراس میں یہی سب کچھ ہونا ہے۔ اس لیے ان پروہ بدحواسی اورگبھراہٹ طاری نہ ہوگی جومرتے دم تک اس چیز کا انکار کرنے والوں اوراس سے غافل رہنے والوں پرطاری ہوگی ۔ پھر ان کےاطمینان یہ بھی ہوگی کہ انہوں نے اس دن کی توقع پراس کےلیے فکر کی تھی اوریہاں رہنے والوں پرطاری ہوگی۔ پھر ان کےاطمینان کی وجہ یہ بھی ہوگی کہ انہوں نے اس دن کی توقع پراس کےلیے فکر کی تھی اور یہاں کی کامیابی کےلیے کچھ سامان کرکے دنیا سے آئے تھے۔اس لیے اُن پروہ گھبراہٹ طاری نہ ہوگی جوان لوگوں پرطاری ہوگی جنہوں نے اپنا سارا سرمایہ حیات دنیاہی کی کامیابیاں حاصل کرنے پرلگادیا تھا اورکبھی نہ سوچاتھا کہ کوئی آخرت بھی ہے جس کےلیےکچھ سامان کرنا ہے منکرین کے برعکس یہ مومنین اب مطمئن ہوں گے کہ جس دن کےلیے ہم ناجائز فائدوں اورلزتوں کوچھوڑاتھا، اورصعوبتیںاورمشقیںبرداشت کی تھیں، وہ دن آگیا ہے اوراب یہاں ہماری محنتوں کا اجر ضائع ہونےوالاہے |
1 | یعنی وہ اس لحاظ سے بی بہتر ہوگا کہ جتنی نیکی اس نے کی ہوگی اس سے زیادہ انعام اسے دیاجائے گا اوراس لحاظ سے بھی کہ اس کی نیکی تووقتی تھی اوراس کے اثرات بھی دنیامیں ایک محدود زمانے کےلیے تھے مگراس کااجر دائمی اورابدی ہوگا۔ |
Surah 28 : Ayat 84
مَن جَآءَ بِٱلْحَسَنَةِ فَلَهُۥ خَيْرٌ مِّنْهَاۖ وَمَن جَآءَ بِٱلسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزَى ٱلَّذِينَ عَمِلُواْ ٱلسَّيِّـَٔـاتِ إِلَّا مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ
جو کوئی بھَلائی لے کر آئے گا اس کے لیے اس سے بہتر بھَلائی ہے، اور جو بُرائی لے کر آئے تو بُرائیاں کرنے والوں کو ویسا ہی بدلہ ملے گا جیسے عمل وہ کرتے تھے
Surah 39 : Ayat 34
لَهُم مَّا يَشَآءُونَ عِندَ رَبِّهِمْۚ ذَٲلِكَ جَزَآءُ ٱلْمُحْسِنِينَ
انہیں اپنے رب کے ہاں وہ سب کچھ ملے گا جس کی وہ خواہش کریں گے1 یہ ہے نیکی کرنے والوں کی جزا
1 | یہ بات ملحوظ رہے کہ یہاں فی ا لجنّۃ (جنّت میں)نہیں بلکہ عِنْدَ رَبِّھِمْ (ان کے رب کے ہاں) کے الفاظ ارشاد ہوئے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ اپنے رب کے ہاں تو بندہ مرنے کے بعد ہی پہنچ جاتا ہے۔ اس لیے آیت کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں پہنچ کر ہی نہیں بلکہ مرنے کے وقت سے دخول جنت تک زمانے میں بھی مومن صالح کے ساتھ اللہ تعالٰی کا معاملہ یہی رہے گا۔ وہ عذاب برزخ سے، روز قیامت کی سختیوں سے، حساب کی سخت گیری سے، میدان حشر کی رسوائی سے، اپنی کوتاہیوں اور قصوروں پر مواخذہ سے لازماً بچنا چاہے گا اور اللہ جل شانہ اس کی یہ ساری خواہشات پوری فرمائے گا۔ |
Surah 42 : Ayat 23
ذَٲلِكَ ٱلَّذِى يُبَشِّرُ ٱللَّهُ عِبَادَهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِۗ قُل لَّآ أَسْــَٔلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا ٱلْمَوَدَّةَ فِى ٱلْقُرْبَىٰۗ وَمَن يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْ لَهُۥ فِيهَا حُسْنًاۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ شَكُورٌ
یہ ہے وہ چیز جس کی خوش خبری اللہ اپنے اُن بندوں کو دیتا ہے جنہوں نے مان لیا اور نیک عمل کیے اے نبیؐ، اِن لوگوں سے کہہ دو کہ میں اِس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں1، البتہ قرابت کی محبت ضرور چاہتا ہوں2 جو کوئی بھلائی کمائے گا ہم اس کے لیے اس بھلائی میں خوبی کا اضافہ کر دیں گے بے شک اللہ بڑا در گزر کرنے والا اور قدر دان ہے3
3 | عنی جان بوجھ کر نافرمانی کرنے والے مجرمین کے برعکس ، نیکی کی کوشش کرنے والے بندوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ یہ ہے کہ (1)جتنی کچھ اپنی طرف سے وہ نیک بننے کی سعی کرتے ہیں ، اللہ ان کو اس سے زیادہ نیک بنا دیتا ہے (2)ان کے کام میں جو کوتاہیاں رہ جاتی ہیں ، یا نیک عمل کی پونجی وہ لے کر آتے ہیں اللہ اس پر ان کی قدر افزائی کرتا ہے اور انہیں زیادہ اجر عطا فرماتا ہے |
2 | اصل الفاظ ہیں : اِلَّا الْمَوَدَّ ۃَ فِی الْقُرْبٰی۔ یعنی میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا مگر ’’قربٰی ‘‘ کی محبت ضرور چاہتا ہوں۔ اس لفظ ’’قربٰی‘‘ کی تفسیر میں مفسرین کے درمیان بڑا اختلاف واقع ہو گیا ہے۔ ایک گروہ نے اس کو قرابت (رشت دری) کے معنی میں لیا ہے اور آیت کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ’’ میں تم سے اس کام پر کوئی اجر نہیں چاہتا ، مگر یہ ضرور چاہتا ہوں کہ تم لوگ (یعنی اہل قریش) کم از کم اس رشتہ داری کا تو لحاظ کرو جو میرے اور تمہارے درمیان ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ تم میری بات مان لیتے۔ لیکن اگر تم نہیں مانتے تو یہ ستم تو نہ کرو کہ سارے عرب میں سب سے بڑھ کر تم ہی میری دشمنی پر تُل گۓ ہو‘‘۔ یہ حضرت عبداللہ بن عباس کی تفسیر ہے جسے بکثرت راویوں کے حوالہ سے امام احمد، بخاری ، مسلم ، ترمذی، ابن جریر، طبرانی، بیہقی ، اور ابن سعد و غیر ہم نے نقل کیا ہے ، اور یہی تفسیر مجاہد، عکرمہ ، قتادہ، سدی، ابو مالک، عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم ، ضحاک، عطاء بن دینار اور دوسرے اکابر مفسرین نے بھی بیان کی ہے۔ دوسرا گروہ’’ قربٰی ‘‘ کو قرب اور تقرب کے معنی میں لیتا ہے ، اور آیت کا مطلب یہ بیان کرتا ہے کہ ’’ میں تم سے اس کام پر کوئی اجر اس کے سوا نہیں چاہتا کہ تمہارے اندر اللہ کے قرب کی چاہت پیدا ہو جاۓ‘‘ یعنی تم ٹھیک ہو جاؤ، بس یہی میرا اجر ہے۔ یہ تفسیر حضرت حسن بصری سے منقول ہے ، اور ایک قول قتادہ سے بھی اس کی تائید میں نقل ہوا ہے بلکہ طبرانی کی ایک روایت میں اب عباس کی طرف بھی یہ قول منسوب کیا گیا ہے۔ خود قرآن مجید میں ایک دوسرے مقام پر یہی مضمون ان الفاظ میں ارشاد ہوا ہے : قُلْ مَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ اِلَّا مَنْ شَآ ءَ اَنْ یَّتََّخِذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیْلاً (الفرقان۔57)۔ ان سے کہہ دو کہ میں اس کام پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا ، میری اجرت بس یہی ہے کہ جس کا جی چاہے وہ اپنے رب کا راستہ اختیار کر لے۔‘‘ تیسرا گروہ ’’ قربٰی ‘‘ کو اقرب (رشتہ داروں ) کے معنی میں لیتا ہے ، اور آیت کا مطلب یہ بیان کرتا ہے کہ میں تم سے اس کام پر کوئی اجر اس کے سوا نہیں چاہتا کہ تم میرے اقارب سے محبت کرو‘‘۔ پھر اس گروہ کے بعض حضرات اقارب سے تمام بنی عبد المطلب مراد لیتے ہیں ، اور بعض اسے صرف حضرت علی و فاطمہ اور ان کی اولاد تک محدود رکھتے ہیں۔ یہ تفسیر سعید بن جُبیر اور عمرو بن شعیب سے منقول ہے ، اور بعض روایات میں یہی تفسیر ابن عباس اور حضرت علی بن حسین (زین العابدین) کی طرف منسوب کی گئی ہے۔ لیکن متعدد وجوہ سے یہ تفسیر کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ اول تو جس وقت مکہ معظمہ میں سورہ شوریٰ نازل ہوئی ہے اس وقت حضرت علی و فاطمہ کی شادی تک نہیں ہوئی تھی، اولاد کا کیا سوال۔ اور بنی عبدالمطلب میں سب کے سب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ساتھ نہیں دے رہے تھے ، بلکہ ان میں سے بعض کھلم کھلا دشمنوں کے ساتھی تھے۔ اور ابو لہب کی عداوت کو تو ساری دنیا جانتی ہے۔ دوسرے ، نبی صلی کے رشتہ دار صرف بنی عبدالمطلب ہی نہ تھ۔ آپ کی والدہ ماجدہ ، آپ کے والد ماجد اور آپ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ کے واسطے سے قریش کے تمام گھرانوں میں آپ کی رشتہ داریاں تھیں اور ان سب گھرانوں میں آپؐ کے بہترین صحابی بھی تھے اور بدترین دشمن بھی۔ آخر حضور کے لیے یہ کس طرح ممکن تھا کہ ان سب اقرباء میں سے آپ صرف بنی عبد المطلب کو اپنا رشتہ دار قرار دے کر اس مطالبہ محبت کو انہی کے لیے مخصوص رکھتے۔ تیسری بات ، جو ان سب سے زیادہ اہم ہے ، وہ یہ ہے کہ ایک نبی جس بلند مقام پر کھڑا ہو کر دعوت اِلی اللہ کی پکار بلند کرتا ہے ، اس مقام سے اس کار عظیم پر یہ اجر مانگنا کہ تم میرے رشتہ داروں سے محبت کرو ، اتنی گری ہوئی بات ہے کہ کوئی صاحب ذوق سلیم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ اللہ نے نبی کو یہ بات سکھائی ہو گی اور نبی نے قریش کے لوگوں میں کھڑے ہو کر یہ بات کہی ہو گی۔ قرآن مجید میں انبیاء علیہم السلام کے جو قصے آۓ ہیں ان میں ہم دیکھتے ہیں کہ نبی اٹھ کر اپنی قوم سے کہتا ہے کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا ، میرا اجر تو اللہ رب العالمین کے ذمہ ہے۔ (یونس 72۔ ہود 29۔51۔ الشعراء 109۔127۔145۔164۔180)۔ سورہ یٰسٓ میں نبی کی صداقت جانچنے کا معیار یہ بتایا گیا ہے کہ وہ اپنی دعوت میں بے غرض ہوتا ہے (آیت 21)۔ خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے قرآن پاک میں بار بار یہ کہلوایا گیا ہے کہ میں تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہو(الانعام 90۔ یوسف 104۔ المؤمنون 72۔ الفرقان 57۔ سبا 47۔ ص 82۔ الطور 40۔ القلم 46)۔ اس کے بعد یہ کہنے کا آخر کیا موقع ہے کہ میں اللہ کی طرف بلانے کا جو کام کر رہا ہوں اس کے عوض تم میرے رشتہ داروں سے محبت کرو۔ پھر یہ بات اور بھی زیادہ بے موقع نظر آتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ اس تقریر کے مخاطب اہل ایمان نہیں بلکہ کفار ہیں۔ اوپر سے ساری تقریر ان ہی سے خطاب کرتے ہوۓ ہوتی چلی آ رہی ہے ، اور آگے بھی روۓ سخن ان ہی کی طرف ہے۔ اس سلسلہ کلام میں مخالفین سے کسی نوعیت کا اجر طلب کرنے کا آخر سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے۔ اجر تو ان لوگوں سے مانگا جاتا ہے جن کی نگاہ میں اس کام کی کوئی قدر ہو جو کسی شخص نے ان کے لیے انجام دیا ہو۔ کفار حضورؐ کے اس کام کی کون سی قدر کر رہے تھے کہ آپ ان سے یہ بات فرماتے کہ یہ خدمت جو میں نے تمہاری انجام دی ہے اس پر تم میرے رشتہ داروں سے محبت کرنا۔ وہ تو الٹا اسے جرم سمجھ رہے تھے اور اس کی بنا پر آپ کی جان کے درپے تھے |
1 | اس کام‘‘ سے مراد وہ کوشش ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں کو خدا کے عذاب سے بچانے اور جنت کی بشارت کا مستحق بنانے کے لیے کر رہے تھے |