Ayats Found (14)
Surah 36 : Ayat 57
لَهُمْ فِيهَا فَـٰكِهَةٌ وَلَهُم مَّا يَدَّعُونَ
ہر قسم کی لذیذ چیزیں کھانے پینے کو ان کے لیے وہاں موجود ہیں، جو کچھ وہ طلب کریں اُن کے لیے حاضر ہے
Surah 37 : Ayat 42
فَوَٲكِهُۖ وَهُم مُّكْرَمُونَ
ہر طرح کی لذیذ چیزیں،
Surah 38 : Ayat 51
مُتَّكِــِٔينَ فِيهَا يَدْعُونَ فِيهَا بِفَـٰكِهَةٍ كَثِيرَةٍ وَشَرَابٍ
ان میں وہ تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے، خوب خوب فواکہ اور مشروبات طلب کر رہے ہوں گے
Surah 43 : Ayat 73
لَكُمْ فِيهَا فَـٰكِهَةٌ كَثِيرَةٌ مِّنْهَا تَأْكُلُونَ
تمہارے لیے یہاں بکثرت فواکہ موجود ہیں جنہیں تم کھاؤ گے"
Surah 44 : Ayat 55
يَدْعُونَ فِيهَا بِكُلِّ فَـٰكِهَةٍ ءَامِنِينَ
وہاں وہ اطمینان سے ہر طرح کی لذیذ چیزیں طلب کریں گے1
1 | اطمینان سے طلب کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جو چیز جتنی چاہیں گے بے فکری کے ساتھ جنت کے خادموں کو اس کے لانے کا حکم دیں گے اور وہ حاضر کر دی جاۓ گی۔ دنیا میں کوئی شخص ہوٹل تو درکنار، خود اپنے گھر میں اپنی چیز بھی اس اطمینان سے طلب نہیں کرسکتا جس طرح وہ جنت میں طلب کرے گا۔ کیونکہ یہاں کسی چیز کے بھی اتھاہ ذخیرے کسی کے پاس نہیں ہوتے ، اور جو چیز بھی آدمی استعمال کرتا ہے اس کی قیمت بہر حال اس کی اپنی جیب ہی سے جاتی ہے ۔ جنت میں مال اللہ کا ہوگا اور بندے کو اس کے استعمال کی کھلی اجازت ہوگی ۔ نہ کسی چیز کے ذخیرے ختم ہو جانے کا خطرہ ہوگا نہ بعد میں بل پیش ہونے کا کوئی سوال |
Surah 47 : Ayat 15
مَّثَلُ ٱلْجَنَّةِ ٱلَّتِى وُعِدَ ٱلْمُتَّقُونَۖ فِيهَآ أَنْهَـٰرٌ مِّن مَّآءٍ غَيْرِ ءَاسِنٍ وَأَنْهَـٰرٌ مِّن لَّبَنٍ لَّمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُهُۥ وَأَنْهَـٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشَّـٰرِبِينَ وَأَنْهَـٰرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّىۖ وَلَهُمْ فِيهَا مِن كُلِّ ٱلثَّمَرَٲتِ وَمَغْفِرَةٌ مِّن رَّبِّهِمْۖ كَمَنْ هُوَ خَـٰلِدٌ فِى ٱلنَّارِ وَسُقُواْ مَآءً حَمِيمًا فَقَطَّعَ أَمْعَآءَهُمْ
پرہیز گاروں کے لیے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان تو یہ ہے کہ اس میں نہریں بہہ رہی ہوں گی نتھرے ہوئے پانی کی1، نہریں بہہ رہی ہوں گی ایسے دودھ کی جس کے مزے میں ذرا فرق نہ آیا ہو گا2، نہریں بہہ رہی ہوں گی ایسی شراب کی جو پینے والوں کے لیے لذیذ ہوگی3، نہریں بہہ رہی ہوں گی صاف شفاف شہد کی4 اُس میں اُن کے لیے ہر طرح کے پھل ہوں گے اور اُن کے رب کی طرف سے بخشش5 (کیا وہ شخص جس کے حصہ میں یہ جنت آنے والی ہے) اُن لوگوں کی طرح ہو سکتا ہے جو جہنم میں ہمیشہ رہیں گے اور جنہیں ایسا گرم پانی پلایا جائے گا جو ان کی آنتیں تک کاٹ دے گا؟
5 | جنت کی ان نعمتوں کے بعد اللہ کی طرف سے مغفرت کا ذکر کرنے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ان ساری نعمتوں سے بڑھ کر یہ نعمت ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرما دے گا۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں جو کوتاہیاں ان سے ہوئی تھیں ان کا ذکر تک جنت میں کبھی ان کے سامنے نہ آۓ گا بلکہ اللہ تعالیٰ ان پر ہمیشہ کے لیے پردہ ڈال دے گا تا کہ جنت میں وہ شرمندہ نہ ہوں |
4 | حدیث مرفوع میں اس کی تشریح یہ آئی ہے کہ ’’وہ مکھیوں کے پیٹ سے نکلا ہوا شہد نہ ہوگا۔ یعنی وہ بھی چشموں سے نکلے گا اور نہروں میں بہے گا۔ اسی لیے اس کے اندر موم اور چھتے کے ٹکڑے اور مری ہوئی مکھیوں کی ٹانگیں ملی ہوئی نہ ہوں گی، بلکہ ہو خالص شہد ہو گا |
3 | حدیث مرفوع میں اس کی تشریح یہ آئی ہے کہ اس شراب کو انسانوں نے اپنے قدموں سے روند کر نہ نچوڑا ہو گا۔ یعنی وہ دنیا کی شرابوں کی طرح پھلوں کو سڑا کر اور قدموں سے روند کر کشید کی ہوئی نہ ہو گی، بلکہ اللہ تعالیٰ اسے بھی چشموں کی شکل میں پیدا کرے گا اور نہروں کی شکل میں بہا دے گا۔ پھر اس کی تعریف یہ بیان کی گئی ہے کہ ’’وہ پینے والوں کے لیے لذیذ ہو گی‘‘، یعنی دنیا کی شرابوں کی طرح وہ تلخ اور بو دار نہ ہوگی جسے کوئی بڑے سے بڑا شراب کا رسیا بھی کچھ نہ کچھ منہ بناۓ بغیر نہیں پی سکتا۔ سورہ صافات میں اس کی مزید تعریف یہ کی گئی ہے کہ اس کے پینے سے نہ جسم کو کوئی ضرر ہو گا نہ عقل خراب ہوگی (آیت 47)، اور سورہ واقعہ میں فرمایا گیا ہے کہ اس سے نہ دوران سر لاحق ہو گا نہ آدمی بہکے گا(آیت 19)۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ شراب نشہ آور نہ ہو گی بلکہ محض لذت و سرور بخشنے والی ہو گی |
2 | حدیث مرفوع میں اس کی تشریح یہ آئی ہے کہ وہ جانوروں کے تھنوں سے نکلا ہوا دودھ نہ ہوگا۔ یعنی اللہ تعالیٰ یہ دودھ چشموں کی شکل میں زمین سے نکالے گا اور نہروں کی شکل میں سے بہا دے گا۔ ایسا نہ ہوگا کہ جانوروں کے تھنوں سے اس کو نچوڑا جاۓ اور پھر جنت کی نہروں میں ڈال دیا جاۓ۔ اس قدرتی دودھ کی تعریف میں بیان کیا گیا ہے کہ ’’اس کے مزے میں ذرا فرق نہ آیا ہوگا،‘‘ یعنی اس کے اندر وہ ذرا سی بِساند بھی نہ ہوگی جو جانور کے تھن سے نکلے ہوۓ ہر دودھ میں ہوتی ہے |
1 | اصل الفاظ ہیں مَاءٍ غیر اٰسنٍ۔ آسِن اس پانی کو کہتے ہیں جس کا مزا اور رنگ بدلا ہوا ہو، یا جس میں کسی طرح کی بو پیدا ہو گئی ہو۔ دنیا میں دریاؤں اور نہروں کے پانی عموماً گدلے ہوتے ہیں ان کے ساتھ ریت، مٹی اور بسا اوقات طرح طرح کی نباتات کے مل جانے سے ان کا رنگ اور مزا بدل جاتا ہے۔ اور کچھ نہ کچھ بو بھی ان میں پائی جاتی ہے۔ اس لیے جنت کے دریاؤں اور نہروں کے پانی کی یہ تعریف بیان کی گئی ہے کہ وہ غیر آسن ہوگا۔ یعنی وہ خلاص، صاف ستھرا پانی ہوگا کسی قسم کی آمیزش اس میں ہوگی |
Surah 52 : Ayat 18
فَـٰكِهِينَ بِمَآ ءَاتَـٰهُمْ رَبُّهُمْ وَوَقَـٰهُمْ رَبُّهُمْ عَذَابَ ٱلْجَحِيمِ
لطف لے رہے ہوں گے اُن چیزوں سے جو اُن کا رب انہیں دے گا، اور اُن کا رب اُنہیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے گا1
1 | کسی شخص کے داخل جنت ہونے کا ذکر کر دینے کے بعد پھر دوزخ سے اس کے بچاۓ جانے کا ذکر کرنے کی بظاہر کوئی حاجت نہیں رہتی۔ مگر قرآن مجید میں متعدد مقامات پر یہ دونوں باتیں الگ الگ اس لیے بیان کی گئی ہیں کہ آدمی کا دوزخ سے بچ جانا بجاۓ خود ایک بہت بڑی نعمت ہے ۔ اور یہ ارشاد کہ ’’ اللہ نے ان کو عذاب دوزخ سے بچا لیا‘‘ در اصل اشارہ ہے اس حقیقت کی طرف کہ آدمی کا دوزخ سے بچ جاتا اللہ کے فضل و کرم ہی سے ممکن ہے ، ورنہ بشری کمزوریاں ہر شخص کے عمل میں ایسی ایسی خامیاں پیدا کر دیتی ہیں کہ اگر اللہ اپنی فیاضی سے ان کو نظر انداز نہ فرماۓ اور سخت محاسبے پر اتر آۓ تو کوئی بھی گرفت سے نہیں چھوٹ سکتا۔ اسی لیے جنت میں داخل ہونا اللہ کی جتنی بڑی نعمت ہے اس سے کچھ کم نعمت یہ نہیں ہے کہ آدمی دوزخ سے بچا لیا جاۓ |
Surah 52 : Ayat 22
وَأَمْدَدْنَـٰهُم بِفَـٰكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِّمَّا يَشْتَهُونَ
ہم اُن کو ہر طرح کے پھل اور گوشت1، جس چیز کو بھی ان کا جی چاہے گا، خوب دیے چلے جائیں گے
1 | اس آیت میں اہل جنت کو مطلقاً ہر قسم کا گوشت دیے جانے کا ذکر ہے ، اور سورہ واقعہ آیت 21 میں فرمایا گیا ہے کہ پرندوں کے گوشت سے ان کی تواضع کی جاۓ گی۔ اس گوشت کی نوعیت ہمیں ٹھیک ٹھیک معلوم نہیں ہے ۔ مگر جس طرح قرآن کی بعض تصریحات اور بعض احادیث میں جنت کے دودھ کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ جانوروں کے تھنوں سے نکلا ہوا نہ ہوگا،اور جنت کے شہد کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ مکھیوں کا بنایا ہوا نہ ہوگا، اور جنت کی شراب کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ پھلوں کو سڑا کر کشید کی ہوئی نہ ہوگی، بلکہ اللہ کی قدرت سے یہ چیزیں چشموں سے نکلیں گی اور نہروں میں بہیں گی، اس سے یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ جنت کا گوشت بھی جانوروں کا ذبیحہ نہ ہوگا بلکہ یہ بھی قدرتی طور پر پیدا ہوگا۔ جو خدا زمین کے مادوں سے براہ راست دودھ اور شہد اور شراب پیدا کر سکتا ہے اس کی قدرت سے یہ بعید نہیں ہے کہ ان ہی مادوں سے ہر طرح کا لذیذ ترین گوشت پیدا کر دے جو جانوروں کے گوشت سے بھی اپنی لذت میں بڑھ کو ہو (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ صافات، حاشیہ 25۔ جلد پنجم، تفسیر سورہ محمد حواشی 21 تا 23۔ |
Surah 55 : Ayat 52
فِيهِمَا مِن كُلِّ فَـٰكِهَةٍ زَوْجَانِ
دونوں باغوں میں ہر پھل کی دو قسمیں1
1 | اس کا ایک مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ دونوں باغوں کے پھلوں کی شان نرالی ہو گی۔ ایک باغ میں جاۓ گا تو ایک شان کے پھل اس کی ڈالیوں میں لدے ہوۓ ہوں گے۔ دوسرے باغ میں جاۓ گا تو اس کے پھلوں کی شان کچھ اور ہی ہوگی۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان میں سے ہر باغ میں ایک قسم کے پھر معروف ہوں گے جن سے وہ دنیا میں بھی آشنا تھا، خواہ مزے میں وہ دنیا کے پھلوں سے کتنے ہی فائق ہوں، اور دوسری قسم کے پھر نادر ہونگے جو دنیا میں کبھی اس کے خواب و خیال میں بھی نہ آۓ تھے |
Surah 55 : Ayat 68
فِيهِمَا فَـٰكِهَةٌ وَنَخْلٌ وَرُمَّانٌ
اُن میں بکثرت پھل اور کھجوریں اور انار