Ayats Found (3)
Surah 21 : Ayat 85
وَإِسْمَـٰعِيلَ وَإِدْرِيسَ وَذَا ٱلْكِفْلِۖ كُلٌّ مِّنَ ٱلصَّـٰبِرِينَ
اور یہی نعمت اسماعیلؑ اور ادریسؑ 1اور ذوالکفلؑ 2کو دی کہ یہ سب صابر لوگ تھے
2 | ذولکفل کا لفظی ترجمہ ہے ’’صاحب نصیب‘‘ ، اور مراد ہے اخلاقی بزرگی اور ثواب آخرت کے لحاظ سے صاحب نصیب، نہ کہ دنیوی فوائد و منافع کے لحاظ سے ۔ یہ ان بزرگ کا نام نہیں بلکہ لقب ہے ۔ قرآن مجید میں دو جگہ ان کا ذکر آیا ہے اور دونوں جگہ ان کو اسی لقب سے یاد کیا گیا ہے ، نام نہیں لیا گیا۔ مفسرین کے اقوال اس معاملہ میں بہت مضطرب ہیں کہ یہ بزرگ کون ہیں ، کس ملک اور قوم سے تعلق رکھتے ہیں ، اور کس زمانے میں گزرے ہیں ۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ حضرت زکریاؑ کا دوسرا نام ہے (حالانکہ یہ صریحاً غلط ہے ، کیونکہ ان کا ذکر ابھی آگے آرہا ہے ۔) کوئی کہتا ہے کہ یہ حضرت الیاس ہیں ، کوئی یوشع بن نون کا نام لیتا ہے ، کوئی کہتا ہے یہ الیسع ہیں ، (حالانکہ یہ بھی غلط ہے ، سورہ ص میں ان کا ذکر الگ کیا گیا ہے ور ذولکفل کا الگ) ، کوئی انہیں حضرت الیسع کا خلیفہ بتاتا ہے ، اور کسی کا قول ہے کہ یہ حضرت ایوب کے بیٹے تھے جو ان کے بعد نبی ہوۓ اور ان کا اصلی نام بِشْر تھا ۔ آلوسی نے روح المعانی میں لکھا ہے کہ ’’ یہودیوں کا دعوی ہے کہ یہ حزقیال (حِزْقیِ اِیل) نبی ہیں جو بنی اسرائیل کی اسیری (597 ق۔م ) کے زمانے میں نبوت پر سرفراز ہوئے اور نہر خابور کے کنارے ایک بستی میں فرائض نبوت انجام دیتے رہے ‘‘۔ ان مختلف اقوال کی موجودگی میں یقین و اعتماد کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ فی الواقع یہ کون سے نبی ہیں ۔ موجودہ زمانے کے مفسرین نے اپنا میلان حزقی ایل نبی کی طرف ظاہر کیا ہے ، لیکن ہمیں کوئی معقول دلیل ایسی نہیں ملی جس کی بنا پر یہ رائے قائم کی جا سکے ۔ تاہم اگر اس کے لیے کوئی دلیل مل سکے تو یہ رائے قابل ترجیح ہو سکتی ہے ، کیونکہ بائیبل کے صحیفہ حزقی ایل کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فی الواقع وہ اس تعریف کے مستحق ہیں جو اس آیت میں کی گئی ہے ، یعنی صابر اور صالح ۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو یروشلم کی آخری تباہی سے پہلے بخت نصر کے ہاتھوں گرفتار ہو چکے تھے ۔ بخت نصر نے عراق میں اسرائیلی قیدیوں کی ایک نو آبادی دریائے خابور کے کنارے قائم کر دی تھی جس کا نام تَل اَبیب تھا۔ اسی مقام پر 594 ق۔ م ، میں حضرت حزقی اہل نبوت کے منصب پر سرفراز ہوئے ، جبکہ ان کی عمر 30 سال تھی، اور مسلسل 22 سال ایک طرف گرفتار بال اسرائیلیوں کو اور دوسری طرف یروشلم کے غافل و سرشار باشندوں اور حکمرانوں کو چونگا نے کی خدمت انجام دیتے رہے ۔ اس کار عظیم میں ان کے انہماک کا جو حال تھا اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ نبوت کے نویں سال ان کی بیوی ، جنہیں وہ خود ’’ منظور نظر ‘‘ کہتے ہیں ، انتقال کر جاتی ہیں ، لوگ ان کی تعزیت کے لیے جمع ہوتے ہیں ۔ اور یہ اپنا دکھڑا چھوڑ کر اپنی ملت کو خد کے اس عذاب سے ڈرانا شروع کر دیتے ہیں جو اس کے سرپر تلا کھڑا تھا (باب 24 ۔ آیات 15 ۔ 27 )۔ بائیبل کا صحیفہ حزقی ایل ان صحیفوں میں سے ہے جنہیں پڑھ کر واقعی یہ محسوس ہو گا ہے کہ یہ الہامی کلام ہے |
1 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم تفسیر سورہ مریم، حاشیہ 33 |
Surah 21 : Ayat 86
وَأَدْخَلْنَـٰهُمْ فِى رَحْمَتِنَآۖ إِنَّهُم مِّنَ ٱلصَّـٰلِحِينَ
اور ان کو ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا کہ وہ صالحوں میں سے تھے
Surah 38 : Ayat 48
وَٱذْكُرْ إِسْمَـٰعِيلَ وَٱلْيَسَعَ وَذَا ٱلْكِفْلِۖ وَكُلٌّ مِّنَ ٱلْأَخْيَارِ
اور اسماعیلؑ اور الیسع1 اور ذوالکفلؑ 2کا ذکر کرو، یہ سب نیک لوگوں میں سے تھے
2 | حضرت ذولکفل کا ذکر بھی قرآن مجید میں دو ہی جگہ آیا ہے ۔ ایک سورہ انبیاء۔ دوسرے یہ مقام۔ ان کے متعلق ہم اپنی تحقیق سورہ انبیاء میں بیان کر چکے ہیں ۔ (تفہیم القرآن : جلد سوم، ص 181، 182) |
1 | قرآن مجید میں ان کا ذکر صرف دو جگہ آیا ہے۔ایک سورہ انعام آیت 86 میں۔دوسرے اس جگہ۔اور دونوں مقامات پر کوئی تفصیل نہیں ہے بلکہ صرف انبیائے کرام کے سلسلے میں ان کا نام لیا گیا ہے۔ وہ بنی اسرائیل کے اکابر انبیاء میں سے تھے۔دریائے اُردُن کے کنارے ایک مقام ایبل محولہ (Abel Meholah)کے رہنے والے تھے۔یہودی اور عیسائی ان کو اِلِیشَع (Elisha ) کے نام سے یاد کرتے ہیں۔حضرت الیاس علیہ السلام جس زمانے میں جزیرہ نمائے سینا میں پناہ گزیں تھے،ان کو چند اہم کاموں کے لیے شام و فلسطین کی طرف واپس آنے کا حکم دیا گیا،جن میں سے ایک کام یہ تھا یہ حضرت الیسع کو اپنی جانشینی کے لیے تیار کریں۔اس فرمان کے مطابق جب حضرت الیاس ان کی بستی پر پہنچے تو دیکھا کہ یہ بارہ جوڑی بیل آگے لیے زمین جوت رہے ہیں اور خود بارہویں جوڑی کے ساتھ ہیں۔انہوں نے ان کے پاس سے گزرتے ہوئے ان پر اپنی چادر ڈال دی اور یہ کھیتی باڑی چھوڑ کر ساتھ ہولیے (سلاطین، باب 19، فقرات 15۔تا۔ 21)۔تقریباً دس بارہ سال یہ ان کے زیر تربیت رہے پھر جب اللہ تعالٰی نے ان کو اٹھا لیا تو یہ انکی جگہ مقرر ہوئے۔(2 سلاطین، باب 2)۔ بائیبل کی کتاب 2 سلاطین میں باب 2 سے 13 تک ان کا تذکرہ بڑی تفصیل کے ساتھ درج ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شمالی فلسطین کی اسرائیلی سلطنت جب شرک و بت پرستی اور اخلاقی نجاستوں میں غرق ہوتی چلی گئی تو آخرکارانہوں نے یاہو بن یہوسفط بن مسّی کو اس خانوادہ شاہی کے خلاف کھڑا کیا جس کے کرتوتوں سے اسرائیل میں یہ برائیاں پھیلی تھیں،اور اس نے نہ صرف بعل پرستی کا خاتمہ کیا، بلکہ اس بدکردار خاندان کے بچے بچے کو قتل کر دیا۔ لیکن اس اصلاحی انقلاب سے بھی وہ برائیاں پوری طرح نہ مٹ سکیں جو اسرائیل کی ر گ رگ میں اُتر چکی تھیں، اور حضرت الیسع کی وفات کے بعد تو انہوں نے طوفانی شکل اختیار کر لی، یہاں تک کہ سامریہ پر اشوریوں کے پے در پے حملے شروع ہو گئے (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، ص 597۔ اور تفسیر سورہ صافات، حاشیہ نمبر 70۔71)۔ |