Ayats Found (3)
Surah 31 : Ayat 34
إِنَّ ٱللَّهَ عِندَهُۥ عِلْمُ ٱلسَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ ٱلْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِى ٱلْأَرْحَامِۖ وَمَا تَدْرِى نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًاۖ وَمَا تَدْرِى نَفْسُۢ بِأَىِّ أَرْضٍ تَمُوتُۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرُۢ
اُس گھڑی کا علم اللہ ہی کے پاس ہے، وہی بارش برساتا ہے، وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے پیٹوں میں کیا پرورش پا رہا ہے، کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرنے والا ہے اور نہ کسی شخص کو یہ خبر ہے کہ کس سرزمین میں اس کی موت آنی ہے، اللہ ہی سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے1
1 | یہ آیت دراصل اس سوال کا جواب ہے جو قیامت کا ذکراورآخرت کا وعدہ سن کر کفارِ مکہ بار بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کرتے تھے کہ آخر وہ گھڑی کب آئے گی۔ قرآن مجید میں کہیں ان کے اس سوال کو نقل کر کے اس کا جواب دیا گیا ہے، اور کہیں نقل کیے بغیر جواب دے دیا گیا ہے، کیوں کہ مخاطبین کے ذہن میں وہ موجود تھا۔ یہ آیت بھی انہی آیات میں سے ہے جن میں سوال کا ذکر کیے بغیر اس کا جواب دیا گیا ہے۔ پہلا فقرہ:’’ اُس کھڑی کا علم اللہ ہی کے پاس ہے۔‘‘ یہ اصل سوال کا جواب ہے۔ اس کے بعد کے چاروں فقرے اس کے لیے دلیل کے طور پر ارشاد ہوئے ہیں۔ دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ جن معاملات سے انسان کی قریب ترین دلچسپیاں وابستہ ہیں، انسان ان کے متعلق بھی کوئی علم نہیں رکھتا، پھر بھلا یہ جاننا اس کے لیے کیسے ممکن ہے کہ ساری دُنیا کے انجام کا کب آئے گا ۔ تمہاری خوشحالی و بد حالی کا بڑا انحصار بارش پر ہے۔ مگر اس کا سررشتہ بالکل اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ جب، جہاں، جتنی چاہتا ہے برساتا ہے اورجب چاہتا ہے روک لیتا ہے۔ ہم قطعاً نہیں جانتے کہ کہاں، کس وقت کتنی بارش ہو گی اور کونسی زمین اس سے محروم رہ جائے گی، یا کس زمین پر بارش اُلٹی نقصان دہ ہو جائے گی۔ تمہاری اپنی بیویوں کے پیٹ میں تمہارے اپنے نطفے سے حمل قرار پاتا ہی جس سے تمہاری نسل کا مستقبل وابستہ ہوتا ہے۔ مگر تم نہیں جانتے کہ کیا چیز اس پیٹ میں پرورش پا رہی ہے اور کس شکل میں کن بھلائیوں یا بُرائیوں کو لیے ہوئے وہ برآمد ہو گی۔ تم کو یہ تک پتہ نہیں ہے کہ کل تمہارے ساتھ کیا کچھ پیش آنا ہے۔ ایک اچانک حادثہ تمہاری تقدیر بدل سکتا ہے، مگر ایک منٹ پہلے بھی تم کو اس کی خبر نہیں ہوتی، تم کو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ تمہاری اس زندگی کا خاتمہ آخر کار کہاں کس طرح ہو گا۔ یہ ساری معلومات اللہ نے اپنے ہی پاس رکھی ہیں اور ان میں سے کسی کا علم بھی تم کو نہیں دیا۔ ان میں سے ایک ایک چیز ایسی ہے جسے تم چاہتے ہو کہ پہلے سے تمہیں اس کا علم ہو جائے تو کچھ اس کے لیے پیش بندی کر سکو لیکن تمہارے لیے اس کے سوا چارہ نہیں ہے کہ ان معاملات میں اللہ ہی کی تدبیر اور اسی کی قضا پر بھروسہ کرو۔ اسی طرح دُنبے کے اختتام کی ساعت کے معاملے میں بھی اللہ کے فیصلے پر اعتماد کرنے کے سوا چارہ نہیں ہے۔ اِس کا علم بھی نہ کسی کو دیا گیا ہے نہ دیا جا سکتا ہے۔ یہاں ایک بات اور بھی اچھی طرح سمجھ لینی ضروری ہے، کہ اس آیت میں امورِ غیب کی کوئی فہرست نہیں دی گئی ہے جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے ۔ یہاں تو صرف سامنے کی چند چیزیں مثالاً پیش کی گئی ہیں جن سے انسان کی نہایت گہری اور قریبی دلچسپیاں وابستہ ہیں اور انسان اس سے بے خبر ہے ۔ اس سے نتیجہ نکالنا درست نہ ہو گا کہ صرف یہی پانچ امورغیب ہیں جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ حالاں کہ غیب نام ہی اُس چیز کا ہے جو مخلوقات سے پوشیدہ اور صرف اللہ پر روشن ہو، اور فی الحقیقت اِس غیب کی کوئی حد نہیں ہے۔ (اس مسئلے پر تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جِلد سوم، صفحات ۵۹۵ تا ۵۹۸) |
Surah 49 : Ayat 13
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَـٰكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَـٰكُمْ شُعُوبًا وَقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوٓاْۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ ٱللَّهِ أَتْقَـٰكُمْۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ
لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے1 یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے2
2 | یعنی یہ بات اللہ ہی جانتا ہے کہ کون فی الواقع ایک اعلیٰ درجہ کا انسان ہے اور کون اوصاف کے لحاظ سے ادنیٰ درجے کا ہے۔ لوگوں نے بطور خود اعلیٰ اور ادنیٰ کے جو معیار بنا رکھے ہیں یہ اللہ ہاں چلنے والے نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ جس کو دنیا میں بہت بلند مرتبے کا آدمی سمجھا گیا ہو وہ اللہ کے آخری فیصلے میں کم ترین خلائق قرار پاۓ، اور ہو سکتا ہے کہ جو یہاں بہت حقیر سمجھا گیا ہو، وہ وہاں بڑا اونچا مرتبہ پاۓ۔ اصل اہمیت دنیا کی عزت و ذلت کی نہیں بلکہ اس ذلت و عزت کی ہے جو خدا کے ہاں کسی کو نصیب ہو۔ اس لیے انسان کو ساری فکر اس امر کی ہونی چاہیے کہ وہ اپنے اندر وہ حقیقی اوصاف پیدا کرے جو اسے اللہ کی نگاہ میں عزت کے لائق بنا سکتے ہوں |
1 | پچھلی آیات میں اہل ایمان کو خطاب کر کے وہ ہدایات دی گئی تھیں جو مسلم معاشرے کو خرابیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔اب اس آیت میں پوری نوع انسانی کو خطاب کر کے اس عظیم گمراہی کی اصلاح کی گئی ہے جو دنیا میں ہمیشہ عالمگیر فساد کی موجب بنی رہی ہے، یعنی نسل، رنگ، زبان، وطن اور قومیت کا تعصب قدیم ترین زمانے سے آج تک ہر دور میں انسان بالعموم انسانیت کو نظر انداز کر کے اپنے گرد کچھ چھوٹے چھوٹے دائرے کھینچتا رہا ہے جن کے اندر پیدا ہونے والوں کو اس نے اپنا، اور باہر پیدا ہونے والوں کو غیر قرار دیا ہے۔ یہ دائرے کسی عقلی اور اخلاقی بنیاد پر نہیں بلکہ اتفاقی پیدائش کی بنیاد پر کھنچے گۓ ہیں۔ کہیں ان کی بنا ایک خاندان، قبیلے یا نسل میں پیدا ہونا ہے، اور کہیں ایک جغرافی خطے میں یا ایک خاص رنگ والی یا ایک خاص زبان بولنے والی قوم میں پیدا ہو جانا۔ پھر ان بنیادوں پر اپنے اور غیر کی جو تمیز قائم کی گئی ہے وہ صرف اس حد تک محدود نہیں رہی ہے کہ جنہیں اس لحاظ سے اپنا قرار دیا گیا ہو کہ ان کے ساتھ غیروں کی بہ نسبت زیادہ محبت اور زیادہ تعاون ہو، بلکہ اس تمیز نے نفرت، عداوت، تحقیر و تذلیل اور ظلم و ستم کی بد ترین شکلیں اختیار کی ہیں۔ اس کے لیے فلسفے گھڑے گۓ ہیں۔ مذہب ایجاد کیے گۓ ہیں۔ قوانین بناۓ گۓ ہیں۔ اخلاقی اصول وضع کیے گۓ ہیں۔ قوموں اور سلطنتوں نے اس کو اپنا مستقل مسلک بنا کر صدیوں اس پر عمل در آمد کیا ہے۔ یہودیوں نے اسی بنا پر بنی اسرائیلیوں سے فروتر رکھا۔ ہندوؤں کے ہاں ورن آشرم کو اسی تمیز نے جنم دیا جس کی رو سے برہمنوں کی بر تری قائم کی گئی، اونچی ذات والوں کے مقابلے میں تمام انسان نیچ اور ناپاک ٹھیراۓ گئے، اور شودروں کو انتہائی ذلت کے گڑھے میں پھینک دیا گی ۔ کالے اور گورے کی تمیز نے افریقہ اور امریکہ میں سیاہ فام لوگوں پر جو ظلم ڈھاۓ ان کو تاریخ کے صفحات میں تلاش کرنے کی ضرورت نہیں، آج اس بیسویں صدی ہی میں ہر شخص اپنی آنکھوں سے انہیں دیکھ سکتا ہے۔ یورپ کے لوگوں نے براعظم امریکہ میں گھس کر ریڈ انڈین نسل کے ساتھ جو سلوک کیا اور ایشیا اور افریقہ کی کمزور قوموں پر اپنا تسلط قائم کر کے جو برتاؤ ان کے ساتھ کیا اسکی تہ میں بھی یہی تصور کار فرما رہا کہ اپنے وطن اور اپنی قوم کے حدود سے باہر پیدا ہونے والوں کی جان، مال اور آبرو ان پر مباح ہے اور انہیں حق پہنچتا ہے کہ ان کو لُوٹیں، غلام بنائیں، اور ضرورت پڑے تو صفحۂ ہستی سے مٹا دیں۔ مغربی اقوام کی قوم پر ستی نے ایک قوم کو دوسری قوموں کے لیے جس طرح درندہ بنا کر رکھ دیا ہے اس کی بد ترین مثالیں زمانہ قریب کی لڑائیوں میں دیکھی جاچکی ہیں اور آج دیکھی جا رہی ہیں۔ خصوصیت کے ساتھ نازی جرمنی کا فلسفہ نسلیت اور نارڈک نسل کی برتری کا تصور پچھلی جنگ عظیم میں جو کرشمے دکھا چکا ہے انہیں نگاہ میں رکھا جاۓ تو آدمی بآسانی یہ اندازہ کر سکتا ہے کہ وہ کتنی عظیم تباہ کن گمراہی ہے جس کی اصلاح کے لیے قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ اس مختصر سی آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو مخاطب کر کے تین نہایت اہم اصولی حقیقتیں بیان فرمائی ہیں: ایک یہ کہ تم سب کی اصل ایک ہے، ایک ہی مرد اور ایک ہی عورت سے تمہاری پوری نوع وجود میں آئی ہے، اور آج تمہاری جتنی نسلیں بھی دنیا میں پائی جاتی ہیں وہ در حقیقت ایک ابتدائی نسل کی شاخیں ہیں جو ایک ماں اور ایک باپ سے شرع ہوئی تھی۔ اس سلسلہ تخلیق میں کسی جگہ بھی اس تفرقے اور اونچ نیچ کے لیے کوئی بنیاد موجود نہیں ہے جس کے زعم باطل میں تم مبتلا ہو۔ ایک ہی خدا تمہارا خالق ہے، ایسا نہیں ہے کہ مختلف انسانوں کو مختلف خداؤں نے پیدا کیا ہو۔ ایک ہی مادہ تخلیق سے تم بنے ہو، ایسا بھی نہیں ہے کہ کچھ انسان کسی پاک یا بڑھیا مادے سے بنے ہوں اور کچھ دوسرے انسان کسی ناپاک یا گھٹیا مادے سے بن گۓ ہوں۔ ایک ہی طریقے سے تم پیدا ہوۓ ہو، یہ بھی نہیں ہے کہ مختلف خطوں کی آبادیاں الگ الگ پیدا ہوئی ہوں۔ دوسرے یہ کہ اپنی اصل کے اعتبار سے ایک ہونے کے باوجود تمہارا قوموں اور قبیلوں میں تقسیم ہو جانا ایک فطری امر تھا۔ ظاہر ہے کہ پوری روۓ زمین پر سارے انسانوں کا ایک ہی خاندان تو نہیں ہو سکتا تھا۔ نسل بڑھنے کے ساتھ ناگزیر تھا کہ بے شمار خاندان بنیں اور پھر خاندانوں سے قبائل اور اقوام وجود میں آ جائیں۔ اسی طرح زمین کے مختلف خطوں میں آباد ہونے کے بعد رنگ، خد و خال، زبانیں، اور طرز بود و ماند بھی لا محالہ مختلف ہی ہو جانے تھے، اور ایک خطے کے رہنے والوں کو باہم قریب تر اور دور دراز خطوں کے رہنے والوں کو بعید تر ہی ہونا تھا۔ مگر اس فطری فرق و اختلاف کا تقاضا یہ ہر گز نہ تھا کہ اس کی بنیاد پر اونچ نیچ، شریف اور کمین، برتر اور کمتر کے امتیازات قائم کیے جائیں، ایک نسل دوسری نسل پر اپنی فضیلت جتاۓ، ایک رنگ کے لوگ دوسرے رنگ کے لوگوں کو ذلیل و حقیر جانیں، ایک قوم دوسری قوم پر اپنا تفوّق جماۓ، اور انسانی حقوق میں ایک ایک گروہ کو دوسرے گروہ پر ترجیح حاصل ہو۔ خالق نے جس وجہ سے انسانی گروہوں کو اقوام اور قبائل کی شکل میں مرتب کیا تھا وہ صرف یہ تھی کہ ان کے درمیان باہمی تعارف اور تعاون کی فطری صورت یہی تھی۔ اسی طریقے سے ایک خاندان، ایک برادری، ایک قبیلے اور ایک قوم کے لوگ مل کر مشترک بنا سکتے تھے اور زندگی کے معاملات میں ایک دوسرے کے مدد گار بن سکتے تھے۔ مگر یہ محض شیطانی جہالت تھی کہ جس چیز کو اللہ کی بنائی ہوئی فطرت نے تعارف کا ذریعہ بنایا تھا اسے تفاخُر اور تنافُر کا ذریعہ بنا لیا گیا اور پھر نوبت ظلم و عدو ان تک پہنچا دی گئی۔ تیسرے یہ کہ انسان اور انسان کے درمیان فضیلت اور برتری کی بنیاد اگر کوئی ہے اور ہو سکتی ہے تو وہ صرف اخلاقی فضیلت ہے۔ پیدائش کے اعتبار سے تمام انسان یکساں ہیں، کیونکہ ان کا پیدا کرنے والا ایک ہے، ان کا مدہ پیدائش اور طریق پیدائش ایک ہی ہے، اور ان سب کا نسب ایک ہی ماں باپ تک پہنچتا ہے۔ علاوہ بریں کسی شخص کا کسی خاص ملک قوم یا برادری میں پیدا ہونا ایک اتفاقی امر ہے جس میں اس کے اپنے ارادہ و انتخاب اور اس کی اپنی سعی و کوشش کا کوئی دخل نہیں ہے۔ کوئی معقول وجہ نہیں کہ اس لحاظ سے کیس کو کسی پر فضیلت حاصل ہو۔ اصل چیز جس کی بنا پر ایک شخص کو دوسروں پر فضیلت حاصل ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ دوسروں سے بڑھ کر خدا سے ڈرنے والا، برائیوں سے بچنے والا، اور نیکی و پاکیزگی کی راہ پر چلنے والا ہو۔ ایسا آدمی خواہ کسی نسل، کسی قوم اور کسی ملک سے تعلق رکھتا ہو، اپنی ذاتی خوبی کی بنا پر قابل قدر ہے۔ اور جس کا حال اس کے برعکس ہو وہ بہر حال ایک کمتر درجے کا انسان ہے چاہے وہ کالا ہو یا گورا، مشرق میں پیدا ہوا ہو یا مغرب میں۔ یہی حقائق جو قرآن کی ایک مختصر سی آیت میں بیان کیے گۓ ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو اپنے مختلف خطبات اور ارشادات میں زیادہ کھول کر بیان فرمایا ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر طواف کعبہ کے بعد آپ نے جو تقریر فرمائی تھی اس میں فرمایا: الحمد للہ الذی اذھب عنکم عیبۃ الجاھلیۃ و تکبر ھا۔ یا ایھالناس، الناس رجلان، برٌّ تقی کریمٌ علی اللہ، و فاجر شقی ھَیِّنٌ علی اللہ۔ الناس کلہم بنو اٰدم و خلق اللہ اٰدمَمن ترابٍ۔(بیہقی فی شعب العیمان۔ترمذی) شکر ہے اس خدا کا جس نے تم سے جاہلیت کا عیب اور اس کا تکبر دور کر دیا۔ لوگو، تمام انسان بس دوہی حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔ ایک، نیک اور پرہیز گار، جو اللہ کی نگاہ میں عزت والا ہے۔ دوسرا فاجر اور شقی، جو اللہ کی نگاہ میں ذلیل ہے۔ ورنہ سارے انسان آدم کی اولاد ہیں اور اللہ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا تھا۔ حجۃ الوداع کے موقع پر ایام تشریق کے وسط میں آپ نے ایک تقریر کی اور اس میں فرمایا: یا ایھا الناس، الا ان ربکم واحدٌ لا فضل لعربی علی ولالعجمی علیٰ عربی ولا سود علی احمر ولا لا حمر علی اسود الا بالتقویٰ، ان اکرمکم عند اللہ اتقٰکم۔ الا ھل بلغتُ؟ قالو ابلیٰ یا رسول اللہ، قال فیبلغ الشاھد الغایب۔ (بیہقی) لوگو، خبر دار رہو، تم سب کا خدا ایک ہے۔ کسی عرب کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عرب پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر فضیلت حاصل نہیں ہے مگر تقویٰ کے اعتبار سے۔ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو۔ بتاؤ، میں نے تمہیں بات پہنچا دی ہے؟ لوگوں نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ۔ فرمایا، اچھا تو جو موجود ہے وہ ان لوگوں تک یہ بات پہنچا دے جو موجود نہیں ہیں۔ ایک حدیث میں آپ کا رشاد ہے : کلکم بو اٰدم و اٰدم خلق من تراب ولینتھینَّ قوم یفخرون بایٰائِھم اولیکونن اھون علی اللہ من الجعلان۔ (بزار) تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کیے گۓ تھے۔ لوگ اپنے آباء و اجداد پر فخر کرنا چھوڑ دیں ورنہ وہ اللہ کی نگاہ میں ایک حقیر کڑے سے زیادہ ذلیل ہوں گے۔ ایک اور حدیث میں آپ نے فرمایا: ان اللہ لا یسئلکم عن احسابکم ولا عن انسابکم یوم القیٰمۃ، ان اکرمکم عنداللہ اتقٰکم۔(ابن جریر) ٓللہ قیامت کے روز تمہارا حسب نسب نہیں پوچھے گا۔ اللہ کے ہاں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو۔ ایک اور حدیث کے الفاظ یہ ہیں: انّ اللہ لا ینظر الیٰ صُرکم و امسالکم ولکن ینظر الیٰ قلوبکم و اعمالکم (مسلم۔ ابن ماجہ) اللہ تمہاری صورتیں اور تمہارے مال نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کی طرف دیکھتا ہے۔ یہ تعلیمات صرف الفاظ کی حد تک ہی محدود نہیں رہی ہیں بلکہ اسلام نے ان کے مطابق اہل ایمان کی ایک عالمگیر برادری عملاً قائم کر کے دکھا دی ہے جس میں رنگ، نسل،زبان، وطن اور قومیت کی کوئی تمیز نہیں جس میں اونچ نیچ اور چھوت چھات اور تفریق و تعصب کا کوئی تصور نہیں، جس میں شریک ہونے والے تمام انسان خواہ وہ کسی نسل و قوم اور ملک و وطن سے تعلق رکھتے ہوں بالکل مساویانہ حقوق کے ساتھ شریک ہو سکتے ہیں اور ہوۓ ہیں۔ اسلام کے مخالفین تک کو یہ تسلیم کرنا پڑا ہے کہ انسانی مساوات اور وحدت کے اصول کو جس کامیابی کے ساتھ مسلم معاشرے میں عملی شکل دی گئی ہے اس کی کوئی نظیر دنیا کے کسی دین اور کسی نظام میں نہیں پائی جاتی نہ کبھی پائی گئی ہے۔ صرف اسلام ہی وہ دین ہے جس نے روۓ زمین کے تمام گوشوں میں پھیلی ہوئی بے شمار نسلوں اور قوموں کو ملا کر ایک امت بنا دیا ہے۔ اس سلسلہ میں ایک غلط فہمی کو رفع کر دینا بھی ضروری ہے۔ شادی بیاہ کے معاملہ میں اسلامی قانون کفو کو جو اہمیت دیتا ہے اس کو بعض لوگ اس معنی میں لیتے ہیں کہ کچھ برادریاں شریف اور کچھ کمین ہیں اور ان کے درمیان مناکحت قابل اعتراض ہے۔ لیکن در اصل یہ ایک غلط خیال ہے۔ اسلامی قانون کی رو سے ہر مسلمان مرد کا ہر مسلمان عورت سے نکاح ہو سکتا ہے، مگر ازدواجی زندگی کی کامیابی کا انحصار اس پر ہے کہ زوجین کے درمیان عادات، خصائل، طرز زندگی، خاندانی روایات اور معاشی و معاشرتی حالات میں زیادہ سے زیادہ مطابقت ہوتا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ اچھی طرح نباہ کر سکیں۔ یہی کفاءت کا اصل مقصد ہے۔ جہاں مرد اور عورت کے درمیان اس لحاظ سے بہت زیادہ بُعد ہو وہاں عمر بھی کی رفاقت نبھ جانے کی کم ہی توقع ہو سکتی ہے، اس لیے اسلامی قانون ایسے جوڑ لگانے کو ناپسند کرتا ہے، نہ اس بنا پر کہ فریقین میں سے ایک شریف اور دوسرا کمین ہے، بلکہ اس بنا پر کہ حالات میں زیادہ بین فرق و اختلاف ہو تو شادی بیاہ کا تعلق کرنے میں ازدواجی زندگیوں کے ناکام ہو جانے کا زیادہ امکان ہوتا ہے |
Surah 66 : Ayat 3
وَإِذْ أَسَرَّ ٱلنَّبِىُّ إِلَىٰ بَعْضِ أَزْوَٲجِهِۦ حَدِيثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِۦ وَأَظْهَرَهُ ٱللَّهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُۥ وَأَعْرَضَ عَنۢ بَعْضٍۖ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِهِۦ قَالَتْ مَنْ أَنۢبَأَكَ هَـٰذَاۖ قَالَ نَبَّأَنِىَ ٱلْعَلِيمُ ٱلْخَبِيرُ
(اور یہ معاملہ بھی قابل توجہ ہے کہ) نبیؐ نے ایک بات اپنی ایک بیوی سے راز میں کہی تھی پھر جب اُس بیوی نے (کسی اور پر) وہ راز ظاہر کر دیا، اور اللہ نے نبیؐ کو اِس (افشائے راز) کی اطلاع دے دی، تو نبیؐ نے اس پر کسی حد تک (اُس بیوی کو) خبردار کیا اور کسی حد تک اس سے درگزر کیا پھر جب نبیؐ نے اُسے (افشائے راز کی) یہ بات بتائی تو اُس نے پوچھا آپ کو اِس کی کس نے خبر دی؟ نبیؐ نے کہا، 1"مجھے اُس نے خبر دی جو سب کچھ جانتا ہے اور خوب باخبر ہے"
1 | مختلف روایات میں مختلف باتوں کے متعلق یہ بیان کیا گیا ہے کہ فلاں بات تھی جو حضورؐ نے اپنی ایک بیوی سے راز میں کہی تھی اور ان بیوی نے ایک دوسری بیوی سے اس کا ذکر کر دیا۔ لیکن ہمارے نزدیک اول تو اس کا کھوج لگانا صحیح نہیں ہے، کیونکہ راز کے افشا کرنے پر ہی تو اللہ تعالٰی یہاں بیوی کو ٹوک رہا ہے، پھر ہمارے لیے کیسے صحیح ہو سکتا ہے کہ ہم اس کی ٹٹول کریں اور اسے کھولنے کی فکر میں لگ جائیں۔ دوسرے جس مقصد کے لیے یہ آیت نازل ہوئی ہے اس کے لحاظ سے یہ سوال سرے سے کوئی اہمیت نہیں رکھتا کہ وہ راز کی بات تھی کیا۔ مقصود کلام سے اس کا کوئی تعلق ہوتا تو اللہ تعالٰی اسے خود بیان فرما دیتا۔ اصل غرض جس کے لیے اس معاملے کو قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے، ازواج مطہرات میں سے ایک کو اس غلطی پر ٹوکنا ہے کہ ان کے عظیم المرتبہ شوہر نے جو بات راز میں ان سے فرمائی تھی اسے انہوں نے راز نہ ر کھا اور اس کا افشا کر دیا۔ یہ محض ایک نجی معاملہ ہوتا، جیسا دنیا کے عام میاں اور بیوی کے درمیان ہوا کرتا ہے، تو اس کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ اللہ تعالٰی براہ راست وحی کے ذریعہ سے حضورؐ کو اس کی خبر کر دیتا اور پھر محض خبر دینے ہی پر اکتفا نہ کرتا بلکہ اسے اپنی کتاب میں بھی درج کر دیتا جسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ساری دنیا کو پڑھنا ہے۔ لیکن اسے یہ اہمیت جس وجہ سے دی گئی وہ یہ تھی کہ وہ بیوی کسی معمولی شوہر کی نہ تھیں بلکہ اس عظیم ہستی کی بیوی تھیں جسے اللہ تعالٰی نے انتہائی اہم ذمہ داری کے منصب پر مامور فرمایا تھا، جسے ہر وقت کفار و مشرکین اور منافقین کے ساتھ ایک مسلسل جہاد سے سابقہ در پیش تھا جس کی قیادت میں کفر کی جگہ ا سلام کا نظام برپا کرنے کے لیے ایک زبردست جدوجہد ہو رہی تھی۔ ایسی ہستی کے گھر میں بے شمار ایسی باتیں ہو سکتی تھیں جو اگر راز نہ رہتیں اور قبل از وقت ظاہر ہو جاتیں تو اس کار عظیم کو نقصان پہنچ سکتا تھا جو وہ ہستی انجام دے رہی تھی۔ اس لیے جب اس گھر کی ایک خاتوں سے پہلی مرتبہ یہ کمزوری صادر ہوئی کہ اس نے ایک ا یسی بات کو جو راز میں اس سے کہی گئی تھی کسی اور پر ظاہر کر دیا (اگرچہ وہ کوئی غیر نہ تھا بلکہ اپنے ہی گھر کا ا یک فرد تھا) تو اس پر فوراً ٹوک دیا گیا، ا ور در پردہ نہیں بلکہ قرآن مجید میں برملا ٹوکا گیا تاکہ نہ صرف ازواج مطہرات کو،بلکہ مسلم معاشرے کے تمام ذمہ دار لوگوں کی بیویوں کو رازوں کی حفاظت کی تربیت دی جائے۔ آیت میں اس سوال کو قطعی نظر انداز کر دیا گیا ہے کہ جس راز کی بات کو ا فشا کیا گیا تھا وہ کوئی خاص اہمیت رکھتی تھی یا نہیں، اور اس کے افشا سے کسی نقصان کا خطرہ تھا یا نہیں۔ گرفت بجائے خود اس امر پر کی گئی ہے کہ راز کی بات کودوسرے سے بیان کر دیا گیا۔ اس لیے کہ کسی ذمہ دار ہستی کے گھر والوں میں اگر یہ کمزوری موجود ہو کہ وہ رازوں کی حفاظت میں تساہل برتیں تو آج ایک غیر اہم راز افشا ہوا ہے، کل کوئی اہم راز افشا ہو سکتا ہے۔ جس شخص کا منصب معاشرے میں جتنا زیادہ ذمہ دارانہ ہو گا اتنے ہی زیادہ اہم اور نازک معاملات اس کے گھر والوں کے علم میں آئیں گے۔ ان کے ذریعہ سے راز کی باتیں دوسروں تک پہنچ جائیں تو کسی وقت بھی یہ کمزوری بڑے خطرے کی موجب بن سکتی ہے |