Ayats Found (21)
Surah 7 : Ayat 84
وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِم مَّطَرًاۖ فَٱنظُرْ كَيْفَ كَانَ عَـٰقِبَةُ ٱلْمُجْرِمِينَ
بچا کر نکال دیا اور اس قوم پر برسائی ایک بارش1، پھر دیکھو کہ اُن مجرموں کا کیا انجام ہوا2
2 | یہاں اور دوسرے مقامات پر قرآن مجید میں صرف یہ بتایا گیا ہے کہ عمل قوم لوط ایک بد ترین گناہ ہے جس پر ایک قوم اللہ تعالیٰ کے غضب میں گرفتا ہوئی ۔ اس کے بعد یہ بات ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی سے معلوم ہوئی کہ یہ ایک ایسا جرم ہے جس سے معاشرے کو پاک رکھنے کی کوشش کرنا حکومت ِ اسلامی کے فرائض میں سے ہے اور یہ کہ اس جرم کے مرتکبین کوسخت سزا دی جانی چاہیے۔ حدیث میں مختلف روایات جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے ان میں سے کسی میں ہم کو یہ الفاظ ملتے ہیں کہ اقتلو ا الفاعل و المفعول بِہٖ(فاعل اور مفعول کو قتل کر دو)۔ کسی میں اس حکم پر اتنا اضافہ اور ہے کہ احصنا اولم یحصنا (شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ)۔ اور کسی میں ہے فارجموا الا علی و الاسفل(اُوپر اور نیچے والا، دونوں سنگسار کیے جائیں)۔ لیکن چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایسا کوئی مقدمہ پیش نہیں ہوا اس لیے قطعی طور پر یہ بات متعین نہ ہو سکی کہ اس کی سزا کس طرح دی جائے۔ صحابہ کرام میں سے حضرت علی ؓ کی رائے یہ ہے کہ مجرم تلوار سے قتل کیا جائے اور دفن کرنے کی بجائے اس کی لاش جلائی جائے۔ اسی رائے سے حضرت ابوبکر ؓ نے اتفاق فرمایا ہے۔ حضرت عمر اور حضرت عثمان کی رائے یہ ہے کہ کسی بوسیدہ عمارت کے نیچے کھڑا کر کے وہ عمارت آپ پر ڈھا دی جائے۔ ابن عباس کا فتویٰ یہ ہے کہ بستی کی سب سے اُونچی پر سے ان کو سر کے بل پھینک دیا جائے اور اوپر سے پتھر برسائے جائیں۔ فقہاء میں سے امام شافعی کہتے ہیں کہ فاعل و مفعول واجب القتل ہیں خواہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ ۔ شعبی، زُہری، مالک اور احمد رحمہم اللہ کہتے ہیں کہ ان کی سزا رجم ہے۔ سعید بن مُسَیَّب، عطاء، حسن بصری،ابراہیم نخعی، سفیان ثوری اور اوزاعی رحمہم اللہ کی رائے میں اس جرم پر وہی سزا دی جائے گی جو زنا کی سزا ہے، یعنی غیر شادی شدہ کو سو کوڑے مارے جائیں گے اور جلا وطن کر دیا جائے گا، اور شادی شدہ کو رجم کیا جائے گا۔ امام ابو حنیفہ کی رائے میں اس پر کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ یہ فعل تعزیر کا مستحق ہے، جیسے حالات و ضروریات ہوں ان کے لحاظ سے کوئی عبرت ناک سزا اس پر دی جاسکتی ہے ۔ ایک قول امام شافعی سے بھی اسی کی تائید میں منقول ہے۔ معلوم رہے کہ آدمی کے لیے یہ بات قطعی حرام ہے کہ وہ خود اپنی بیوی کے ساتھ عمل قوم لوط کرے۔ ابو داؤد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مروی ہے کہ ملعون من اتی المرٲ تہ فی دبرھا (اللہ اُس مرد کی طرف ہر گز نظر رحمت سے نہ دیکھے گا جو عورت سےاس فعل کا ارتکاب کرے)۔ ترمذی میں آپ کا یہ فرمان ہے کہ من اتی حائضا او امرٲ ة فی دبرھا او کاھنا فصدّ قہ فقد کفر بما انزل علیٰ محمّدؐ (جس نے حائضہ عورت سے مجا معت کی ، یا عورت کے ساتھ عمل قوم لوط کا ارتکا ب کیا ، یا کاہن کے پاس گیا اور اس کی پیشن گوئیوں کی تصدیق کی اُس نے اس تعلیم سے کفر کیا جو محمد ؐ پر نازل ہوئی ہے) |
1 | بارش سے مراد یہاں پانی کی بارش نہیں بلکہ پتھروں کی بارش ہے جیسا کہ دوسرے مقامات پر قرآن مجید میں بیان ہوا ہے۔ نیز یہ بھی قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ اُن کی بستیاں اُلٹ دی گئیں اور انہیں تلپٹ کر دیا گیا |
Surah 11 : Ayat 82
فَلَمَّا جَآءَ أَمْرُنَا جَعَلْنَا عَـٰلِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةً مِّن سِجِّيلٍ مَّنضُودٍ
پھر جب ہمارے فیصلے کا وقت آ پہنچا تو ہم نے اس بستی کو تل پٹ کر دیا اور اس پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر تابڑ توڑ برسائے1
1 | غالبََا یہ عذاب ایک سخت زلزلے اور آتش فشانی انفجار کی شکل میں آیا تھا زلزلے نے ان کی بستیوں کو تل پٹ کیا اور آتش فشاں مادے کے پھٹنے سے ان کے اوپر زور کا پتھراؤ ہوا پکی ہوئی مٹی کے پتھروں سے مراد شاید مُتحّجر مٹی ہے جو آتش فشاں علاقے میں زیر زمین حرارت اور لادے کے اثرسے پتھر کی شکل اختیار کر لیتی ہے آج تک بھر لوط کے جنوب اور مشرق کے علاقے میں اس انفجار کے آثار ہر طرف نمایاں ہیں |
Surah 11 : Ayat 83
مُّسَوَّمَةً عِندَ رَبِّكَۖ وَمَا هِىَ مِنَ ٱلظَّـٰلِمِينَ بِبَعِيدٍ
جن میں سے ہر پتھر تیرے رب کے ہاں نشان زدہ تھا1 اور ظالموں سے یہ سزا کچھ دور نہیں ہے2
2 | یعنی آج جو لوگ ظلم کی اس روش پر چل رہے ہیں وہ بھی اس عذاب کو اپنے سے دور نہ سمجھیں۔عذاب اگر قوم لوطؑ پر آسکتا تھا تو ان پر بھی آ سکتا ہے۔خدا کو نہ لوطؑکی قوم عاجز کر سکتی تھی نہ یہ کر سکتے ہیں |
1 | یعنی ہر ہر پتھر خدا کی طرف سے نامزد کیا ہوا تھا کہ اسے تباہ کاری کیا کیا کام کرنا ہے اور کس پتھر کو کس مجرم پر پڑنا ہے |
Surah 15 : Ayat 73
فَأَخَذَتْهُمُ ٱلصَّيْحَةُ مُشْرِقِينَ
آخرکار پو پھٹتے ہی اُن کو ایک زبردست دھماکے نے آ لیا
Surah 15 : Ayat 77
إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَأَيَةً لِّلْمُؤْمِنِينَ
اُس میں سامان عبرت ہے اُن لوگوں کے لیے جو صاحب ایمان ہیں
Surah 25 : Ayat 40
وَلَقَدْ أَتَوْاْ عَلَى ٱلْقَرْيَةِ ٱلَّتِىٓ أُمْطِرَتْ مَطَرَ ٱلسَّوْءِۚ أَفَلَمْ يَكُونُواْ يَرَوْنَهَاۚ بَلْ كَانُواْ لَا يَرْجُونَ نُشُورًا
اور اُس بستی پر تو اِن کا گزر ہو چکا ہے جس پر بدترین بارش برسائی گئی تھی 1کیا انہوں نے اس کا حال دیکھا نہ ہو گا؟ مگر یہ موت کے بعد دوسری زندگی کی توقع ہی نہیں رکھتے2
2 | یعنی چونکہ یہ آخرت کے قائل نہیں ہیں اس لیے ان آثار قدیمہ کا مشاہدہ انہوں نے محض ایک تماشائی کی حیثیت سے کیا، ان سے کوئی عبرت حاصل نہ کی ۔ اس سے معلوم ہوا کہ آخرت کے قائل کی نگاہ اور اس کے منکر کی نگاہ میں کتنا بڑا فرق ہوتا ہے ۔ ایک تماشا دیکھتا ہے ، یا زیادہ سے زیادہ یہ کہ تاریخ مرتب کرتا ہے ۔ دوسرا انہی چیزوں سے اخلاقی سبق لیتا ہے اور زندگی سے ماوراء حقیقتوں تک رسائی حاصل کرتا ہے |
1 | یعنی قوم لوط کی بستی۔ بدترین بارش سے مراد پتھروں کی بارش ہے جس کا ذکر کئی جگہ قرآن مجید میں آیا ہ۔ اہل حجاز کے قافلے فلسطین و شام جاتے ہوئے اس علاقے سے گزرتے تھے اور نہ صرف تباہی کے آثار دیکھتے تھے بلکہ آس پاس کے باشندوں سے قوم لوط کی عبرت ناک داستانیں بھی سنتے رہتے تھے |
Surah 26 : Ayat 172
ثُمَّ دَمَّرْنَا ٱلْأَخَرِينَ
پھر باقی ماندہ لوگوں کو ہم نے تباہ کر دیا
Surah 26 : Ayat 175
وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلرَّحِيمُ
اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب زبردست بھی ہے اور رحیم بھی
Surah 29 : Ayat 31
وَلَمَّا جَآءَتْ رُسُلُنَآ إِبْرَٲهِيمَ بِٱلْبُشْرَىٰ قَالُوٓاْ إِنَّا مُهْلِكُوٓاْ أَهْلِ هَـٰذِهِ ٱلْقَرْيَةِۖ إِنَّ أَهْلَهَا كَانُواْ ظَـٰلِمِينَ
اور جب ہمارے فرستادے ابراہیمؑ کے پاس بشارت لے کر پہنچے1 تو انہوں نے اُس سے کہا 2"ہم اِس بستی کے لوگوں کو ہلاک کرنے والے ہیں، اس کے لوگ سخت ظالم ہو چکے ہیں"
2 | ’’اِس بستی‘‘کااشارہ قومِ لوؑط کےعلاقے کی طرف ہے۔حضرت ابراہیمؑ اس وقت فلسطین کےشہرحَبْرون(موجودہ الخلیل)میں رہتےتھے۔اس شہرکےجنوب مشرق میں چند میل کےفاصلے پربحیرہ مردار(Dead Sea)کاوہ حصّہ واقع ہےجہاں پہلےقومِ لوط آباد تھی اوراب جس پربحیرہ کاپانی پھیلاہُواہے۔یہ علاقہ نشیب میں واقع ہےاورحبرون کی بلندپہاڑیوں پرسےصاف نظرآتاہے۔اسی لیےفرشتوں نےاس کی طرف اشارہ کرکےحضرت ابراہیمؑ سےعرض کیاکہ’’ہم اِس بستی کوہلاک کرنے والے ہیں‘‘۔(ملاحظہ ہوسورہٴشعراء حاشیہ ۱۱۴)۔ |
1 | سورہٴ ہود اورسورہٴ حجِرمیں اس کی تفصیل یہ بیان ہوئی ہےکہ جوفرشتےقوم لُوطؑ پرعذاب نازل کرنے کےلیےبھیجے گئےتھےوہ پہلےحضرت ابراہیمؑ کےپاس حاضرہوئےاورانہوں نے آنجناب کوحضرت اسحاقؑ کی اوران کےبعد حضرت یعقوبؑ کی پیدائش کی بشارت دی،پھریہ بتایاکہ ہمیں قوم لُوط کوتباہ کرنے کےلیےبھیجا گیاہے۔ |
Surah 29 : Ayat 34
إِنَّا مُنزِلُونَ عَلَىٰٓ أَهْلِ هَـٰذِهِ ٱلْقَرْيَةِ رِجْزًا مِّنَ ٱلسَّمَآءِ بِمَا كَانُواْ يَفْسُقُونَ
ہم اس بستی کے لوگوں پر آسمان سے عذاب نازل کرنے والے ہیں اُس فسق کی بدولت جو یہ کرتے رہے ہیں"