Ayats Found (1)
Surah 47 : Ayat 15
مَّثَلُ ٱلْجَنَّةِ ٱلَّتِى وُعِدَ ٱلْمُتَّقُونَۖ فِيهَآ أَنْهَـٰرٌ مِّن مَّآءٍ غَيْرِ ءَاسِنٍ وَأَنْهَـٰرٌ مِّن لَّبَنٍ لَّمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُهُۥ وَأَنْهَـٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشَّـٰرِبِينَ وَأَنْهَـٰرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّىۖ وَلَهُمْ فِيهَا مِن كُلِّ ٱلثَّمَرَٲتِ وَمَغْفِرَةٌ مِّن رَّبِّهِمْۖ كَمَنْ هُوَ خَـٰلِدٌ فِى ٱلنَّارِ وَسُقُواْ مَآءً حَمِيمًا فَقَطَّعَ أَمْعَآءَهُمْ
پرہیز گاروں کے لیے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان تو یہ ہے کہ اس میں نہریں بہہ رہی ہوں گی نتھرے ہوئے پانی کی1، نہریں بہہ رہی ہوں گی ایسے دودھ کی جس کے مزے میں ذرا فرق نہ آیا ہو گا2، نہریں بہہ رہی ہوں گی ایسی شراب کی جو پینے والوں کے لیے لذیذ ہوگی3، نہریں بہہ رہی ہوں گی صاف شفاف شہد کی4 اُس میں اُن کے لیے ہر طرح کے پھل ہوں گے اور اُن کے رب کی طرف سے بخشش5 (کیا وہ شخص جس کے حصہ میں یہ جنت آنے والی ہے) اُن لوگوں کی طرح ہو سکتا ہے جو جہنم میں ہمیشہ رہیں گے اور جنہیں ایسا گرم پانی پلایا جائے گا جو ان کی آنتیں تک کاٹ دے گا؟
5 | جنت کی ان نعمتوں کے بعد اللہ کی طرف سے مغفرت کا ذکر کرنے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ان ساری نعمتوں سے بڑھ کر یہ نعمت ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرما دے گا۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں جو کوتاہیاں ان سے ہوئی تھیں ان کا ذکر تک جنت میں کبھی ان کے سامنے نہ آۓ گا بلکہ اللہ تعالیٰ ان پر ہمیشہ کے لیے پردہ ڈال دے گا تا کہ جنت میں وہ شرمندہ نہ ہوں |
4 | حدیث مرفوع میں اس کی تشریح یہ آئی ہے کہ ’’وہ مکھیوں کے پیٹ سے نکلا ہوا شہد نہ ہوگا۔ یعنی وہ بھی چشموں سے نکلے گا اور نہروں میں بہے گا۔ اسی لیے اس کے اندر موم اور چھتے کے ٹکڑے اور مری ہوئی مکھیوں کی ٹانگیں ملی ہوئی نہ ہوں گی، بلکہ ہو خالص شہد ہو گا |
3 | حدیث مرفوع میں اس کی تشریح یہ آئی ہے کہ اس شراب کو انسانوں نے اپنے قدموں سے روند کر نہ نچوڑا ہو گا۔ یعنی وہ دنیا کی شرابوں کی طرح پھلوں کو سڑا کر اور قدموں سے روند کر کشید کی ہوئی نہ ہو گی، بلکہ اللہ تعالیٰ اسے بھی چشموں کی شکل میں پیدا کرے گا اور نہروں کی شکل میں بہا دے گا۔ پھر اس کی تعریف یہ بیان کی گئی ہے کہ ’’وہ پینے والوں کے لیے لذیذ ہو گی‘‘، یعنی دنیا کی شرابوں کی طرح وہ تلخ اور بو دار نہ ہوگی جسے کوئی بڑے سے بڑا شراب کا رسیا بھی کچھ نہ کچھ منہ بناۓ بغیر نہیں پی سکتا۔ سورہ صافات میں اس کی مزید تعریف یہ کی گئی ہے کہ اس کے پینے سے نہ جسم کو کوئی ضرر ہو گا نہ عقل خراب ہوگی (آیت 47)، اور سورہ واقعہ میں فرمایا گیا ہے کہ اس سے نہ دوران سر لاحق ہو گا نہ آدمی بہکے گا(آیت 19)۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ شراب نشہ آور نہ ہو گی بلکہ محض لذت و سرور بخشنے والی ہو گی |
2 | حدیث مرفوع میں اس کی تشریح یہ آئی ہے کہ وہ جانوروں کے تھنوں سے نکلا ہوا دودھ نہ ہوگا۔ یعنی اللہ تعالیٰ یہ دودھ چشموں کی شکل میں زمین سے نکالے گا اور نہروں کی شکل میں سے بہا دے گا۔ ایسا نہ ہوگا کہ جانوروں کے تھنوں سے اس کو نچوڑا جاۓ اور پھر جنت کی نہروں میں ڈال دیا جاۓ۔ اس قدرتی دودھ کی تعریف میں بیان کیا گیا ہے کہ ’’اس کے مزے میں ذرا فرق نہ آیا ہوگا،‘‘ یعنی اس کے اندر وہ ذرا سی بِساند بھی نہ ہوگی جو جانور کے تھن سے نکلے ہوۓ ہر دودھ میں ہوتی ہے |
1 | اصل الفاظ ہیں مَاءٍ غیر اٰسنٍ۔ آسِن اس پانی کو کہتے ہیں جس کا مزا اور رنگ بدلا ہوا ہو، یا جس میں کسی طرح کی بو پیدا ہو گئی ہو۔ دنیا میں دریاؤں اور نہروں کے پانی عموماً گدلے ہوتے ہیں ان کے ساتھ ریت، مٹی اور بسا اوقات طرح طرح کی نباتات کے مل جانے سے ان کا رنگ اور مزا بدل جاتا ہے۔ اور کچھ نہ کچھ بو بھی ان میں پائی جاتی ہے۔ اس لیے جنت کے دریاؤں اور نہروں کے پانی کی یہ تعریف بیان کی گئی ہے کہ وہ غیر آسن ہوگا۔ یعنی وہ خلاص، صاف ستھرا پانی ہوگا کسی قسم کی آمیزش اس میں ہوگی |