Ayats Found (10)
Surah 7 : Ayat 80
وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِۦٓ أَتَأْتُونَ ٱلْفَـٰحِشَةَ مَا سَبَقَكُم بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِّنَ ٱلْعَـٰلَمِينَ
اور لوطؑ کو ہم نے پیغمبر بنا کر بھیجا، پھر یاد کرو جب اُس نے اپنی قوم سے کہا1 "کیا تم ایسے بے حیا ہو گئے ہو، کہ وہ فحش کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا؟
1 | یہ قوم اس علاقہ میں رہتی تھی جسے آج کل شرق اردن(Trans Jordan ) کہا جاتا ہے اور عراق و فلسطین کے درمیان واقع ہے۔ بائیبل میں اس قوم کے صدر مقام کا نام”سدوم“ بتا یا گیا ہے جو یا تو بحیرہ مردار کے قریب کسی جگہ واقع تھا یا اب بحیرہ مردار میں غرق ہو چکاہے۔ تَلمود میں لکھا ہے کہ سدوم کے علاوہ ان کے چار بڑے بڑے شہر اور بھی تھے اور ان شہروں کے درمیان کا علاقہ ایسا گلزار بنا ہوا تھا کہ میلوں تک بس ایک باغ ہی باغ تھا جس کے جمان کو دیکھ کر انسان پر مستی طاری ہو نے لگتی تھی۔ مگر آج اس قوم کا نام و نشان دنیا سے بالکل نا پید ہو چکا ہے اور یہ بھی متعین نہیں ہے کہ اس کی بستیاں ٹھیک کس مقام پر واقع تھیں ۔ اب صرف بحیرہ مردار ہی اس کی ایک یادگا باقی رہ گیا ہے جسے آج تک بحِر لوط کہا جاتا ہے۔ حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابرہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے۔ اپنے چچا کے ساتھ عراق سے نکلے اور کچھ مدت تک شام و فلسطین و مصر میں گشت لگا کر دعوت تبلیغ کا تجربہ حاصل کرتے رہے۔ پھر مستقل پیغمبری کے منصب پر سرفراز ہو کر اس بگڑی ہوئی قوم کی اصلاح پر مامور ہوئے۔ اہل سدوم کو ان کی قوم اس لحاظ سے کہا گیا ہے کہ شاید ان کیا رشتہ داری کا تعلق اس قوم سے ہوگا۔ یہودیوں کی تحریف کردہ بائیبل میں حضرت لوط کی سیرت پر جہاں اور بہت سے سیاہ دھبے لگائے گئے ہیں وہاں ایک دھبہ یہ بھی ہے کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے لڑ کر سدوم کے علاقے میں چلے گئے تھے(پیدائش، باب ١۳۔آیت١۔١۲)۔ مگر قرآن اس غلط بیانی کی تردید کر تا ہے۔ اس کا بیان یہ ہے کہ اللہ نے انہیں رسول بنا کر اس قوم کی طرف بھیجا تھا |
Surah 7 : Ayat 81
إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ ٱلرِّجَالَ شَهْوَةً مِّن دُونِ ٱلنِّسَآءِۚ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُونَ
تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہو1 حقیقت یہ ہے کہ تم بالکل ہی حد سے گزر جانے والے لوگ ہو"
1 | دوسرے مقامات پر اس قوم کے بعض اور اخلاقی جرائم کا بھی ذکر آیا ہے، مگر یہاں اس کے سب سے بڑے جرم کے بیان پر اکتفا کیا گیا ہے جس کی وجہ سے خدا کا عذاب اس پر نازل ہوا۔ یہ قابل نفرت فعل جس کی بدولت اس قوم نے شہرت دوام حاصل کی ہے، اس کے ارتکاب سے تو بد کردار انسان کبھی باز نہیں آئے، لیکن یہ فخر صرف یونان کو حاصل ہے کہ اس کے فلاسفہ نے اس گھناؤنے جرم کو اخلاقی خوبی کے مرتبے تک اٹھا نے کی کوشش کی اور اس کے بعد جو کسر باقی رہ گئی تھی اسے جدید مغربی تہذیب نے پورا کیا کہ علانیہ اس کے حق میں زبر دست پروپیگنڈا کیا گیا، یہاں تک کہ بعض ملکوں کی مجالسِ قانون سازنے اسے باقاعدہ جائزٹھہرا دیا۔ حالانکہ یہ بالکل ایک صریح حقیقت ہے کہ مبا شرتِ ہم جنس قطعی طور پر وضِع فطرت کےخلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام ذی حیات انواع میں نرومادہ کا فرق محض تناسُل اور بقائے نوع کے لیے رکھا ہے اور نوع انسانی کے اندر اس کی مزید غرض یہ بھی ہے کہ دونوں صنفوں کے افراد مل کر ایک خاندان وجود میں لائیں اور اُس سے تمدن کی بنیاد پڑے۔ اسی مقصد کے لیے مرد اور عورت کی دو الگ صنفیں بنا ئی گئی ہیں، ان میں ایک دوسرے کے لیے صنفی کشش پیدا کی گئی ہے، ان کی جسمانی سباخت اور نفسیاتی ترکیب ایک دوسرے کے جواب میں مقاصد زوجیت کے لیے عین مناسب بنائی گئی ہے اور ان کے جذب و انجذاب میں وہ لذت رکھی گئی ہے جو فطرت کے منشاء کو پورا کرنے کے لیے بیک وقت داعی ومحرک بھی ہے اور اس خدمت کا صلہ بھی ۔ مگر جو شخص فطرت کی اس اسکیم کے خلاف عمل کر کے اپنے ہم جنس سے شہوانی لذت حاصل کرتا ہے وہ ایک ہی وقت میں متعدد جرائم کا مرتکب ہوتا ہے۔ اوّلاً وہ اپنی اور اپنے معمول کی طبعی ساخت اور نفسیاتی ترکیب سے جنگ کرتا ہے اور اس میں خللِ عظیم بر پا کردیتا ہے جس سے دونوں کے جسم ،نفس اور اخلاق پر نہایت بُرے اثرات مترتب ہوتے ہیں۔ ۲ ثانیاً وہ فطرت کے ساتھ غداری و خیانت کا ارتکا ب کرتا ہے، کیونکہ فطرت نے جس لذت کو نوع اور تمدن کی خدمت کا صلہ بنایا تھا اور جس کے حصول کو فرائض اور زمہ داریوں اور حقوق کے ساتھ وابستہ کیا تھا وہ اسے کسی خدمت کی بجاآوری اور کسی فرض اور حق کی ادائیگی اور کسی ذمہ داری کے الزام کے بغیر چُرا لیتا ہے۔ ۳ ثالثاً وہ انسانی اجتماع کے ساتھ کھلی بد دیا نتی کرتا ہے کہ جماعت کے قائم کیے ہوئے تمدنی اداروں سے فائدہ تو اُٹھا لیتا ہے مگر جب اس کی اپنی باری آتی ہے تو حقوق اور فرائض اور ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کے بجائے اپنی قوتوں کو پوری خود غرضی کے ساتھ ایسے طریقہ پر استعمال کرتا ہے جو اجتماعی تمدن و اخلاق کے لیے صرف غیر مفید ہی نہیں بلکہ ایجاباً مضرت رساں ہے ۔ وہ اپنے آپ کو نسل اور خاندان کی خدمت کے لیے نا اہل بنا تا ہے، اپنے ساتھ کم از کم ایک مرد کو غیر طبعی زنانہ پن میں مبتلا کرتا ہے، اور کم از کم دو عورتوں کے لیے بھی صنفی بے راہ روی اور اخلاقی پستی کا دروازہ کھول دیتا ہے |
Surah 11 : Ayat 78
وَجَآءَهُۥ قَوْمُهُۥ يُهْرَعُونَ إِلَيْهِ وَمِن قَبْلُ كَانُواْ يَعْمَلُونَ ٱلسَّيِّـَٔـاتِۚ قَالَ يَـٰقَوْمِ هَـٰٓؤُلَآءِ بَنَاتِى هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْۖ فَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ وَلَا تُخْزُونِ فِى ضَيْفِىٓۖ أَلَيْسَ مِنكُمْ رَجُلٌ رَّشِيدٌ
(ان مہمانوں کا آنا تھا کہ) اس کی قوم کے لوگ بے اختیار اس کے گھر کی طرف دوڑ پڑے پہلے سے وہ ایسی ہی بد کاریوں کے خوگر تھے لوطؑ نے ان سے کہا 1"بھائیو، یہ میری بیٹیاں موجود ہیں، یہ تمہارے لیے پاکیزہ تر ہیں کچھ خدا کا خوف کرو اور میرے مہمانوں کے معاملے میں مجھے ذلیل نہ کرو کیا تم میں کوئی بھلا آدمی نہیں؟"
1 | ہو سکتا ہے کہ حضرت لوطؑ کا اشارہ قوم کی لڑکیوں کی طرف ہو کیونکہ نبی اپنی قوم کے لیے بمنزلہ باپ ہوتا ہے اور قوم کی لڑکیاں اس کی نگاہ میں اپنی بیٹیوں کی طرح ہوتی ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کا اشارہ خود اپنی صاحبزادیوں کی طرف ہو۔بہرحال دونوں صورتوں میں یہ گمان کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ حضرت لوطؑ نے ان سے زنا کرنے کے لیے کہا ہو گا ’’یہ تمہارے لیے پاکیزہ ترہیں‘‘کا فقرہ ایسا غلط مفہوم لینے کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا حضرت لوطؑ کا منشا صاف طور پر یہ تھا کہ اپنی شہوت نفس کو اس فطری اور جائز طریقے سے پورا کرو جو اللہ نے مقرر کیا ہے اور اس کے لیے عورتوں کی کمی نہیں ہے |
Surah 26 : Ayat 160
كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوطٍ ٱلْمُرْسَلِينَ
لوطؑ کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا1
1 | تقابل کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف، آیات 80 تا 84۔ ہود، 74 تا 83۔ الحجر 57 تا 77۔ الانبیاء 71 تا 75 النمل 54 تا 58۔ العنکبوت 28۔35۔ الصافات 133 تا 138۔ القمر 33 تا 39 |
Surah 26 : Ayat 166
وَتَذَرُونَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُم مِّنْ أَزْوَٲجِكُمۚ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ عَادُونَ
اور تمہاری بیویوں میں تمہارے رب نے تمہارے لیے جو کچھ پیدا کیا ہے اسے چھوڑ دیتے ہو؟1 بلکہ تم لوگ تو حد سے ہی گزر گئے ہو2"
2 | یعنی تمہارا صرف یہی ایک جرم نہیں ہے۔ تمہاری زندگی کا تو سارا ہنجار ہی حد سے زیادہ بگڑ چکا ہے۔ قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر ان کے اس عام بگاڑ کی کیفیت اس طرح بیان کی گئی ہے : اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَۃَ وَاَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ O (النمل آیت 54)۔ ’’ کیا تمہارا یہ حال ہو گیا ہے کہ کھلم کھلا دیکھنے والوں کی نگاہوں کے سامنے فحش کام کرتے ہو؟’’ اَئِنَّکُمْ لَتَاْ تُوْنَ الرِّ جَالَ وَتَقْطَعُوْنَ السَّبِیْلَ وَتَاْتُوْ نَ فِیْ نَا دِیْکُمُ الْمُنْکَرَ (العنکبوت آیت 29) ’’ کیا تم ایسے بگڑے گئے ہو کہ مردوں سے مباشرت کرتے ہو، راستوں پر ڈاکے مارتے ہو، اور اپنی مجلسوں میں علانیہ برے کام کرتے ہو؟‘‘(مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، الحجر، حاشیہ 39) |
1 | اس کے بھی دو مطلب ہو سکتے ہیں : ایک یہ کہ اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے جو بیویاں خدا نے پیدا کی تھیں انہیں چھوڑ کر تم غیر فطری ذریعے یعنی مردوں کا اس غرض کے لیے استعمال کرتے ہو۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خود ان بیویوں کے اندر خدا نے اس خواہش کی تکمیل کا جو فطری راستہ رکھا تھا اسے چھوڑ کر تم غیر فطری راستہ اختیار کرتے ہو۔ اس دوسرے مطلب میں یہ اشارہ نکلتا ہے کہ وہ ظالم لوگ اپنی عورتوں سے بھی خلاف وضع فطری فعل کا ارتکاب کرتے تھے۔ بعید نہیں کہ وہ یہ حرکت خاندانی منصوبہ بندی کی خاطر کرتے ہوں |
Surah 27 : Ayat 54
وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِۦٓ أَتَأْتُونَ ٱلْفَـٰحِشَةَ وَأَنتُمْ تُبْصِرُونَ
اور لوطؑ کو ہم نے بھیجا یاد کرو وہ وقت جب اس نے اپنی قوم سے کہا "کیا تم آنکھوں دیکھتے بدکاری کرتے ہو؟1
1 | اس ارشاد کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں اورغالباََ وہ سب ہی مراد ہیں۔ ایک یہ کہ تم اس فعل کے فحش اور کاربد ہونے سے ناواقف نہیں ہو، بلکہ جانتے بوجھتے اس کاارتکاب کرتے ہو۔ دوسرے یہ کہ تم اس بات سے ناواقف نہیں ہوکہ مرد کی خواہش نفس کےلیے مرد نہیں پیدا کیاگیا بلکہ عورت پیداکی گئی ہے، اورمرد عورت کا فرق بھی ایسا نہیں ہے کہ تمہاری آنکھوں کو نظر نہ آتا ہو، مگر کھلی آنکھوں کے ساتھ یہ جیتی مکھی نگلتے ہو۔ تیسرے یہ کہ تم علانیہ یہ بےحیائی کا کام کرتے ہو جب کہ دیکھنے والی آنکھیں تمہیں دیکھ رہی ہوتی ہیں، جیسا کہ آگے سورہ عنکبوت میں آرہا ہے: وتاتون می نادیکم المنکر’’اورتم اپنی مجلسوں میں براکام کرتے ہو‘‘(آیت۲۹) |
Surah 27 : Ayat 55
أَئِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ ٱلرِّجَالَ شَهْوَةً مِّن دُونِ ٱلنِّسَآءِۚ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ
کیا تمہارا یہی چلن ہے کہ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس شہوت رانی کے لیے جاتے ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ تم لوگ سخت جہالت کا کام کرتے ہو1"
1 | جہالت کا لفظ یہاں اورسفاہت کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اُردو زبان میں بھی ہم گالی گلوچ اوربیہودہ حرکات کرنے والے کوکہتے ہین کہ وہ جہالت پر اُتر آیاہے۔ اسی معنی میں یہ لفظ عربی زبان میں بھی استعمال ہوت ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے واداخاطبھم الجاھلون قالواسلما، (الفرقان،آیت ۶۳) لیکن اگر اس لفظ کو بے علمی ہی کے معنی میں لیاجائے تواس کا مطلب یہ ہوگا کہ تم اپنی حرکات کے بُرے انجام کو نہیں جانتے۔ تم یہ جانتے ہو کہ یہ ایک لذت نفس ہے جو تم حاصل کررہے ہو۔ مگر تمہیںیہ معلوم نہیں ہے کہ اس انتہائی مجرمانہ اور گھناؤنی لذت چشتی کاکیسا سخت خمیازہ تمہیں عنقریب بھگتنا پڑے گا۔ خداکا عذاب تم پرٹوٹ پڑنے کےلیے تیار کھڑا ہے اور تم ہوکہ انجان سے بخبر اپنے اس گندے کھیل میںمنہمک ہو۔ |
Surah 29 : Ayat 28
وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِۦٓ إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ ٱلْفَـٰحِشَةَ مَا سَبَقَكُم بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِّنَ ٱلْعَـٰلَمِينَ
اور ہم نے لوطؑ کو بھیجا1 جبکہ اُس نے اپنی قوم سے کہا "تم تو وہ فحش کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا والوں میں سے کسی نے نہیں کیا ہے
1 | تقابل کےلیےملاحظہ ہوالاعراف،رکوع ۱۰۔ہود، ۷۔الحجر،۴۔۵۔الانبیاء،۵۔الشعراء،۹۔النمل،۴۔الصافات،۴۔القمر،۶۔ |
Surah 29 : Ayat 30
قَالَ رَبِّ ٱنصُرْنِى عَلَى ٱلْقَوْمِ ٱلْمُفْسِدِينَ
لوطؑ نے کہا "اے میرے رب، اِن مفسد لوگوں کے مقابلے میں میری مدد فرما"
Surah 54 : Ayat 36
وَلَقَدْ أَنذَرَهُم بَطْشَتَنَا فَتَمَارَوْاْ بِٱلنُّذُرِ
لوطؑ نے اپنی قوم کے لوگوں کو ہماری پکڑ سے خبردار کیا مگر وہ ساری تنبیہات کو مشکوک سمجھ کر باتوں میں اڑاتے رہے