Ayats Found (1)
Surah 29 : Ayat 26
۞ فَـَٔـامَنَ لَهُۥ لُوطٌۘ وَقَالَ إِنِّى مُهَاجِرٌ إِلَىٰ رَبِّىٓۖ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ
اُس وقت لوطؑ نے اُس کو مانا1 اور ابراہیمؑ نے کہا میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرتا ہوں2، وہ زبردست ہے اور حکیم ہے3
3 | یعنی وہ میری حمایت وحفاظت پرقادرہےاورمیرے حق میں اس کاجوفیصلہ بھی ہوگاحکمت پرمبنی ہوگا۔ |
2 | یعنی اپنے رب کی خاطرملک چھوڑکرنکلتاہوں،اب جہاں میرارب لےجائےگاوہاں چلاجاؤں گا۔ |
1 | ترتیب کلام سے ظاہرہوتاہےکہ جب حضرت ابراہیمؑ آگ سے نکل آئے اورانہوں نے اوپر کےفقرے ارشاد فرمائےاس وقت سارے مجمع میں صرف ایک حضرت لوطؑ تھے جنہوں نے آگےبڑھ کراُن کوماننےاوراُن کی پیروی اختیارکرنے کااعلان کیا۔ہوسکتاہے کہ اس موقع پردوسرےبہت سےلوگ بھی اپنے دل میں حضرت ابراہیمؑ کی صداقت کےقائل ہوگئےہوں۔لیکن پوری قوم اورسلطنت کی طرف سےدین ابراہیمؑ کےخلاف جس غضب ناک جذبے کااظہاراُس وقت سب کی آنکھوں کےسامنے ہُواتھااُسےدیکھتےہوئےکوئی دوسراشخص ایسےخطرناک حق کوماننےاوراس کاساتھ دینے کی جراٴت نہ کرسکا۔یہ سعادت صرف ایک آدمی کےحصّےمیں آئی اوروہ حضرت ابراہیمؑ کےبھتیجے حضرت لوطؑ تھےجنہوں نےآخرکارہجرت میں بھی اپنے چچااورچچی (حضرت سارہ)کاساتھ دیا۔یہاں ایک شبہ پیداہوتاہےجسےرفع کردیناضروری ہے۔ایک شخص سوال کرسکتاہےکہ کیااس واقعہ سےپہلےحضرت لوطؑ کافرومشرک تھے اورآگ سےحضرت ابراہیمؑ کےبسلامت نکل آنے کامعجزہ دیکھنے کےبعد انہیں نعمتِ ایمان میسرآئی؟اگریہ بات ہےتوکیانبوت کےمنصب پرکوئی ایساشخص بھی سرفراز ہوسکتا ہےجوپہلےمشرک رہ چکاہو؟اس کاجواب یہ ہےکہ قرآن نےیہاں فَاٰمَنَ لَہُ لُوطُ کےالفاظ استعمال کیےہیں جن سےیہ لازم نہیں آتاکہ اس سےپہلےحضرت لوطؑ خداوندِعالم کونہ مانتےہوں،یااس کےساتھ دوسرےمعبودوں کوشریک کرتے ہوں،بلکہ ان سےصرف یہ ظاہر ہوتاہےکہ اس واقعہ کےبعد انہوں نےحضرت ابراہیمؑ کی رسالت کی تصدیق کی اوران کی پیروی اختیار کرلی۔ایمان کےساتھ جب لام کاصلہ آتاہےتواس کےمعنی کسی شخص کی بات ماننےاوراس کی اطاعت کرنے کےہوتےہیں۔ممکن ہےکہ حضرت لُوؑط اس وقت ایک نوعمرلڑکےہی ہوں اوراپنے ہوش میں ان کوپہلی مرتبہ اس موقع پرہی اپنےچچاکی تعلیم سےواقف ہونےاوران کی شانِ رسالت سےآگاہ ہونےکاموقع ملاہو۔ |