Ayats Found (19)
Surah 2 : Ayat 32
قَالُواْ سُبْحَـٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَآ إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَآۖ إِنَّكَ أَنتَ ٱلْعَلِيمُ ٱلْحَكِيمُ
انہوں نے عرض کیا: 1"نقص سے پاک تو آپ ہی کی ذات ہے، ہم تو بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں، جتنا آپ نے ہم کو دے دیا ہے حقیقت میں سب کچھ جاننے اور سمجھنے والا آپ کے سوا کوئی نہیں"
1 | ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہر فرشتے اور فرشتوں کی ہر صنف کا علم صرف اسی شعبے تک محدُود ہے جس سے اس کا تعلق ہے۔ مثلاً ہوا کے انتظام سے جو فرشتے متعلق ہیں ، وہ ہوا کے متعلق سب کچھ جانتے ہیں، مگر پانی کے متعلق کچھ نہیں جانتے۔ یہی حال دُوسرے شعبوں کے فرشتوں کا ہے۔ انسان کو ان کے برعکس جامع عِلم دیا گیا ہے۔ ایک ایک شعبے کے متعلق چاہے وہ اُس شعبے کے فرشتوں سے کم جانتا ہو، مگر مجموعی حیثیت سے جو جامعیّت انسان کے علم کو بخشی گئی ہے، وہ فرشتوں کو میسّر نہیں ہے |
Surah 12 : Ayat 83
قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْرًاۖ فَصَبْرٌ جَمِيلٌۖ عَسَى ٱللَّهُ أَن يَأْتِيَنِى بِهِمْ جَمِيعًاۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلْعَلِيمُ ٱلْحَكِيمُ
باپ نے یہ داستان سن کر کہا 1"دراصل تمہارے نفس نے تمہارے لیے ایک اور بڑی بات کو سہل بنا دیا اچھا اس پر بھی صبر کروں گا اور بخوبی کروں گا کیا بعید ہے کہ اللہ ان سب کو مجھ سے لا ملا ئے، وہ سب کچھ جانتا ہے اور اس کے سب کام حکمت پر مبنی ہیں"
1 | یعنی تمہارے نزدیک یہ باور کر لینا بہت آسان ہے کہ میرا بیٹا، جس کے حسن سیرت سے میں خوب واقف ہوں، ایک پیالے کی چوری کا مرتکب ہو سکتا ہے۔ پہلے تمہارے لیے اپنے بھائی کو جان بوجھ کر گم کر دینا اور اس کے قمیض پر جھوٹا خون کگا کر لے آنا بہت آسان کام ہو گیا تھا۔ اب ایک دوسرے بھائی کو واقعی چور مان لینا اور مجھے آ کر اس کی خبر دینا بھی ویسا ہی آسان ہو گیا۔ |
Surah 12 : Ayat 100
وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى ٱلْعَرْشِ وَخَرُّواْ لَهُۥ سُجَّدًاۖ وَقَالَ يَـٰٓأَبَتِ هَـٰذَا تَأْوِيلُ رُءْيَـٰىَ مِن قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّى حَقًّاۖ وَقَدْ أَحْسَنَ بِىٓ إِذْ أَخْرَجَنِى مِنَ ٱلسِّجْنِ وَجَآءَ بِكُم مِّنَ ٱلْبَدْوِ مِنۢ بَعْدِ أَن نَّزَغَ ٱلشَّيْطَـٰنُ بَيْنِى وَبَيْنَ إِخْوَتِىٓۚ إِنَّ رَبِّى لَطِيفٌ لِّمَا يَشَآءُۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلْعَلِيمُ ٱلْحَكِيمُ
(شہر میں داخل ہونے کے بعد) اس نے اپنے والدین کو اٹھا کر اپنے پاس تخت پر بٹھایا اور سب اس کے آگے بے اختیار سجدے میں جھک گئے1 یوسفؑ نے کہا "ابا جان، یہ تعبیر ہے میرے اُس خواب کی جو میں نے پہلے دیکھا تھا، میرے رب نے اسے حقیقت بنا دیا اس کا احسان ہے کہ اُس نے مجھے قید خانے سے نکالا، اور آپ لوگوں کو صحرا سے لا کر مجھ سے ملایا حالانکہ شیطان میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد ڈال چکا تھا واقعہ یہ ہے کہ میرا رب غیر محسوس تدبیروں سے اپنی مشیت پوری کرتا ہے، بے شک و ہ علیم اور حکیم ہے
1 | اس لفظ سجدہ سے بکثرت لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ حتی کہ ایک گروہ تو اسی سے استدلال کرکے بادشا ہوں اور پیروں کے لیے سجدہ تحتیہ اور سجدہ تعظیمی کا جو از نکال لیا۔ دوسرے لوگوں کو اس قباحت سے بچنے کے لیے اس کی یہ توجیہ کرنی پڑی کہ اگلی شریعتوں میں ضرف سجدہ عبادت غیر اللہ کے لیے حرام تھا، باقی رہا وہ سجدہ جو عبادت کے جذبہ سے خالی ہوتو وہ خدا کے سوا دوسروں کو بھی کیا جاسکتا تھا، البتہ شریعت محمدیﷺ میں ہر قسم کا سجدہ غیر اللہ کے لیے حرام کر دیا گیا۔ لیکن ساری غلط فہمیاں دراصل اس وجہ سے پیدا ہوئی ہیں کہ لفظ سجدہ، کو موجودہ اسلامی اصطلاح کا ہم معنی سمجھ لیا گیا یعنی ہاتھ گھٹنے اور پیشانی زمین پر ٹکانا۔ حلانکہ سجدہ کے اصل معنی محض جھکنے کے ہیں اور یہاں یہ لفظ اسی مفہوم میں استعمال ہُوا ہے۔ قدیم تہذیب میں یہ عام طریقہ تھا (اور آج بھی بعض ملکوں میں اس کا رواج ہے) کہ کسی کا شکریہ ادا کرنے کے لیے، یا کسی کا استقبال کرنے کے لیے، یا محض سلام کرنے کے لیے سینے پر ہاتھ رکھ کر کسی حد تک آگے کی طرف جھکتے تھے۔ اسی جھکاؤ کے لیے عربی میں سجود اور انگریزی میں (Bow) کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ بائیبل میں اس کی بکثرت مثالیں ہم ملتی ہیں کہ قدیم زمانے میں یہ آداب تہذیب میں شامل تھا۔ چنانچہ حضرت ابراہیم کے متعلق ایک جگہ لکھا ہے کہ انہوں نے اپنے خیمہ کی طرف تین آدمیوں کو آتے دیکھا تو وہ ان کے استقبال کے لیے دوڑے اور زمین تک جھکے۔ عربی بائیبل میں اس موقع پرجو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں وہ یہ ہیں: فلما نظر رکض لاستقبالہم من باب الخیمۃ و سجدالی الارض (تکوین: ۱۸۔۳) پھر جس موقع پر یہ ولر آتا ہے کہ بنی حت نے حضرت سارہ کے دفن ککے لیےزمین مفت دی وہاں ارُعد بائیبل کے الفاظ یہ ہیں ابرھام نے اُٹھ کر اور بنی حت کے آگے جو اس ملک کے لوگ ہیں آداب بجالا کر ان سے یوں گفتگو کی، اور جب ان لوگوں نے قبر کی زمین ہی نہیں بلکہ ایک پورا کھیت اور ایک غارندر میں پیش کر دیا تب ابرھام اس ملک کے لوگوں کے سامنے جھکا مگر عربی ترجمعہ میں ان دونوں مواقع پر آداب بجا لانے اور جھکنے کے لیے سجدہ کرنے ہی کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں مقام ابراہیم و سجد الشطب الارض لبنی حتِ (تکوین ۷:۲۳) فسجد ابراہیم امامر شعیب الارض (۱۲:۲۳)۔ انگریزی بائیبل میں ان مواقع پر جو الفاظ آئے ہیں وہ یہ یہں Bowed himself toward the ground Bowed himself to the people of the land and Abraham bowed اس مضمون کی مثالیں بڑی کثرت سے بائیبل میں ملتی ہیں اور ان سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اس سجدے کا مفہوم وہ ہے ہی نہیں جواب اسلامی اصطلاح کے لفظ سجدہ سے سمجھا جاتا ہے۔ جن لوگوں نے معاملہ کی اس حقیقت کو جانے بیغر اس کی تاعیل میں سرسری طور پر یہ لکھ دیا ہے کہ اگلی شریعتوں میں غیر اللہ کو تفظیمی سجدہ کرنا یا سجدہ تحیتہ بجالانا جائز تھا انہوں نے محض ایک بے اصل بات کہی ہے اگر سجدے سے مراد وہ چیز ہو جسے اسلامی اصطلاح میں سجدہ کہا جاتا ہے تو وہ خدا کی بھیجی ہوئی کسی شریعت میں کبھی کسی غیر اللہ کے لیے جائز نہیں رہا ہے۔ بائیبل میں ذکر آتا ہے کہ بابل کی اسیری کے زمانے میں جب اخسویرس بادشاہ نے ہامان کو اپنا امیر الامر اینایا اور حکم دیا کہ سب لاگ اس کو سجدہ تغظیمی بجالایا کریں تو مرد نے جو بنی اسرائیل کے اولیا میں سے تھے یہ حکم ماننے سے انکار کر دیا (آستر۱:۳۔۲) تلمود میں اس واقعہ کی شرح کرتے ہوئے اس کی جو تفصیل دی گئی ہے وہ پڑھنے کے لائق ہے: بادشاہ کے ملازموں نے کہا آخر تو کیوں ہامان کو سجدہ کرنے سے انکار کرتا ہے؟ ہم بھی آدمی ہیں مگر شاہی حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ اس نے جواب دیا تم لوگ نادان ہع۔ کیا ایک فانی انسان جو خاک میں مل جانے والا ہے، اس قابل ہوسکتا ہے اس کے بڑائی مانی جائے: کیا میں اُس کو سجدہ کروں جو ایک عورت کے پیٹ سے پیدا ہُوا کل بچہ تھا آج جوان ہے کا بوڑھا ہو گا اور پرسوں مرجائے گا؟ نہیں میں تو اس اشلی دابدی خدا ہی کے آگے جھکوں گا جو حی و قیوم ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ جو کانئات کا خالق اور حاکم ہے، میں تو بس اسی کی تغظیم بجالاؤں گا، اور کسی کی نہیں، یہ تقریر نزدل قرآن سے تقریبا ایک ہزار برس پہلے ایک اسرائیلی مومن کی زبان سے ادا ہوئی ہے اور اس میں کوئی شائبہ تک اس تخیل کا نہیں پایا جاتا کہ غیر اللہ کو کسی معنی میں بھی سجدہ کرنا جاہز ہے۔ |
Surah 66 : Ayat 2
قَدْ فَرَضَ ٱللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَـٰنِكُمْۚ وَٱللَّهُ مَوْلَـٰكُمْۖ وَهُوَ ٱلْعَلِيمُ ٱلْحَكِيمُ
اللہ نے تم لوگوں کے لیے اپنی قسموں کی پابندی سے نکلنے کا طریقہ مقرر کر دیا ہے1 اللہ تمہارا مولیٰ ہے، اور وہی علیم و حکیم ہے2
2 | یعنی اللہ تمہارا آقا اور تمہارے معاملات کا متولی ہے۔ وہ زیادہ بہترجانتا ہے کہ تمہاری بھلائی کس چیز میں ہے اور جو احکام بھی اس نےدیے ہیں سراسر حکمت کی بنا پر دیے ہیں۔ پہلی بات ارشاد فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ تم خودمختار نہیں ہو بلکہ اللہ کے بندے ہو اور وہ تمہارا آقا ہے، اس لیے اس کے مقرر کیے ہوئے طریقوں میں رد و بدل کرنے کا اختیار تم میں سے کسی کو حاصل نہیں ہے۔ تمہارے لیے حق یہی ہے کہ اپنے معاملات اس کے حوالے کر کے بس اس کی اطاعت کرتے رہو۔ دوسری بات ارشاد فرماتے سے یہ حقیقت ذہن نشین کرائی گئی ہے کہ اللہ نے جو طریقے اور قوانین مقرر کیے ہیں وہ سب علم و حکمت پر مبنی ہیں۔ جس چیز کوحلال کیا ہے علم حکمت کی بنا پرحلال کیا ہے اور جسے حرام قرار دیا ہے اسے بھی علم و حکمت کی بنا پر حرام قرار دیا ہے۔ یہ کوئی الل ٹپ کام نہیں ہے کہ جسے چاہا حلال کر دیا اور جسے چاہا حرام ٹھہرا دیا۔ لہذاجو لوگ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ علیم و حکیم ہم نہیں ہیں بلکہ اللہ ہے اورہماری بھلائی اسی میں ہے کہ ہم اس کے دیے ہوئے احکام کی پیروی کریں |
1 | مطلب یہ ہے کہ کفارہ دے کر قسموں کی پابندی سے نکلنے کا جو طریقہ اللہ تعالٰی نے سورۃ مائدہ،آیت 89 میں مقرر دیا ہے اس کے مطابق عمل کر کے آپ اس عہد کو توڑ دیں جو آپؐ نے ایک حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کرنے کے لیے کیا ہے۔ یہاں ایک اہم فقہی سوال پیدا ہوتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ آیا یہ حکم اس صورت کے لیے ہے جبکہ آدمی نے قسم کھا کر حلال کو حرام کر لیا ہو، یا بجائے خود تحریم ہی قسم کی ہم معنی ہے خواہ قسم کے الفاظ استعمال کیے گئے ہوں یا نہ کیے گئے ہوں؟ اس سلسلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ محض تحریم قسم نہیں ہے۔ اگر آدمی نے کسی چیز کو، خواہ وہ بیوی ہو یا کوئی دوسری حلال چیز، قسم کھائے بغیر اپنے اوپر حرام کرو تو یہ ایک لغو بات ہے جس سے کوئی کفارہ لازم نہیں آتا، بلکہ آدمی کفارے کے بغیر ہی وہ چیز استعمال کر سکتا ہے جسے اس نے حرام کیا ہے۔ یہ رائے مسروق ،شعبی، ربیعہ اور ابو سلمہ کی ہے اور اسی کو ابن جریر اور تمام ظاہریوں نے اختیار کیا ہے۔ ان کے نزدیک تحریم صرف اس صورت میں قسم ہے جبکہ کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرتے ہوئے قسم کے الفاظ استعمال کیے جائیں۔ اس سلسلے میں ان کا استدلال یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چونکہ حلال چیز کو اپنے لیے حرام کرنے کے ساتھ قسم بھی کھائی تھی، جیسا کہ متعدد روایات میں بیان ہوا ہے، اس لیے اللہ تعالٰی نے حضورؐ سے فرمایا کہ ہم نے قسموں کی پابندی سے نکلنے کا جو طریقہ مقرر کر دیا ہے اس پر آپ عمل کریں۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ قسم کے الفاظ استعمال کیے بغیر کسی چیز کو حرام کر لینا بجائے خود قسم تو نہیں ہے، مگر بیوی کا معاملہ اس سے مستثنیٰ ہے۔ دوسری اشیاء مثلا کسی کپڑے یا کھانے کو آدمی نے اپنے اوپر حرام کر لیا ہو تو یہ لغو ہے، کوئی کفارہ دیے بغیر آدمی اس کو استعمال کر سکتا ہے ۔ لیکن اگر بیوی یا لونڈی کے لیے اس نے کہا ہوکہ اس سے مباشرت میرے اوپر حرام ہے، تو وہ حرام نہ ہو گی، مگر اس کے پاس جانے سے پہلے کفارہ یمین لازم آئے گا۔ یہ رائے شافعیہ کی ہے (معنی المحتاج) ۔ اور اسی سے ملتی جلتی رائے مالکیہ کی بھی ہے(احکام القرآن لابن العربی) تیسرا گروہ کہتا ہے کہ تحریم بجائے خود قسم ہے خواہ قسم کے الفاظ استعمال نہ کیے گئے ہوں۔ یہ رائے حضرت ابو بکر صدیق ؓ ، حضرت عائشہؓ ، حضرت عمر ؓ ، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ ، حضر زید بن ثابتؓ اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ رضی اللہ عنہم کی ہے۔ اگرچہ ابن عباس سے ایک دوسری رائے بخاری میں یہ نقل ہوئی ہے کہ اذا حرم امراتہ فلیس بشیء (اگر آدمی نے اپنی بیوی کو حرام کیا ہو تو یہ کچھ نہیں ہے)، مگر اس کی توجیہ یہ کی گئی ہے کہ ان کے نزدیک یہ طلاق نہیں بلکہ کفارہ ہے، کیونکہ بخاری، مسلم، اور ابن ماجہ میں ابن عباس کا یہ قول نقل ہوا ہے کہ حرام قرار دینے کی صورت میں کفارہ ہے اور نسائی میں روایت ہے کہ ابن عباس سے جب یہ مسئلہ پوچھا گیا تو انہوں نے کہا ’’وہ تیرے اوپر حرام تو نہیں ہے مگر تجھ پر کفارہ لازم ہے‘‘ اور ابن جریر کی روایت میں ان عباس کے الفاظ یہ ہیں: ’’اگر لوگوں نے اپنے اوپر کسی چیز کو حرام کیا ہو جسےاللہ نے حلال کیا تو ان پر لازم ہے کہ اپنی قسموں کاکفارہ اداکریں‘‘۔ یہی رائے حسن بصری ،عطاء، طاؤس، سلیمان بن یسار، ابن جبیر اور قتادہ کی ہے، اور اسی رائے کو حنفیہ نے اختیار کیا ہے۔ امام ابو بکرحصاص کہتےہیں کہ ’’آیت لم تحرم ما احل اللہ لک کے ظاہر الفاظ اس بات پر دلالت نہیں کرتے کہ رسول اللہ ﷺ نے تحریم کے ساتھ ساتھ قسم بھی کھائی تھی، اس لیے یہ ماننا پڑے گا کہ تحریم ہی قسم، کیونکہ اس کے بعد اللہ تعالٰی نے اسی تحریم کے معاملہ میں قسم ک اکفارہ واجب فرمایا‘‘۔ آگے چل کر پھر کہتے ہیں ’’ہمارے اصحاب (یعنی حنفیہ) نے تحریم کو اس صورت میں قسم قرار دیا ہے جبکہ اس کے ساتھ طلاق کی نیت نہ ہو۔ اگرکسی شخص نے بیوی کو حرام کہا تو گویا اس نے یہ کہا کہ خدا کی قسم میں تیرے قریب نہیں آؤں گا، اس لیے وہ ایلاء کا مرتکب ہوا۔ اور اگر اس نے کسی کھانے پینے کی چیز وغیرہ کو اپنے لیے حرام قرار دیا تو گویا اس نے یہ کہاکہ خدا کی قسم میں وہ چیز استعمال نہ کروں گا۔ کیونکہ اللہ تعالٰی نے پہلے یہ فرمایا کہ آپ اس چیز کوکیوں حرام کرتے ہیں جسے اللہ نے آپ کے لیے حلال کیا ہے،اور پھر فرمایا کہ اللہ نے تم لوگوں کے لیے قسموں کی پابندی سے نکلنے کا طریقہ مقرر کر دیا ہے۔ اس طرح اللہ تعالٰی نے تحریم کو قسم قرار دیا اور تحریم کا لفظ اپنے مفہوم اور حکم شرعی میں قسم کا ہم معنی ہو گیا‘‘۔ اس مقام پر فائدہ عام کے لیے یہ بتا دینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بیوی کو اپنے اوپر حرام کرنے، اور بیوی کے سوا دوسری چیزوں کو حرام کر لینے کے معاملہ میں فقہاء کے نزدیک شرعی حکم کیا ہے۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ اگر طلاق کی نیت کے بغیر کسی شخص نے بیوی کوا پنے لیے حرام کیا ہو، یا قسم کھائی ہو کہ اس سے مقاربت نہ کرے گا، تو یہ ایلاء ہے اور اس صورت میں مقاربت سے پہلے اسے قسم کا کفارہ دینا ہوگا لیکن اگر اس نے طلاق کی نیت سے کہا ہوتومیرے اوپر حرام ہے تو معلوم کیاجائے گا کہ اس کی نیت کیا تھی۔ اگر تین طلاق کی نیت تھی توتین واقع ہوں گی اور اگر اس سے کم کی نیت تھی، خواہ ایک کی نیت ہو یا دو کی، تودونوں صورتوں میں ایک ہی طلاق وارد ہو گی۔ اور اگر کوئی یہ کہے کہ جو کچھ میرے لیے حلال تھا وہ حرام ہو گیا ، تو اس کا اطلاق بیوی پر اس وقت تک ہو گا جب تک اس نے بیوی کو حرام کرنے کی نیت سے یہ الفاظ نہ کہے ہوں۔ بیوی کے سوا دوسری کسی چیز کو حرام کرنے کی صورت میں آدمی اس وقت تک وہ چیز استعمال نہیں کر سکتا جب تک قسم کا کفارہ ادنا نہ کر دے (بدائع الصنائع،ہدایہ، فتح القدیر،احکام القرآن للجصاص)۔ شافعیہ کہتے ہیں کہ بیوی کو اگر طلاق یا ظہارکی نیت سے حرام کیا جائے تو جس چیز کی نیت ہو گی وہ واقع ہوجائے گی۔ رجعی طلاق کی نیت ہو تو رجعی، بائن کی نیت ہو تو بائن، اور ظہار کی نیت ہو تو ظہار۔ اور اگر کسی نے طلاق و ظہار دونوں کی نیت سے تحریم کے الفاظ استعمال کیجے ہوں تو اس سے کہاجائے گا کہ دونوں میں سے کسی ایک چیز کو اختیار کر لے۔ کیونکہ طلاق و ظہار، دونوں بیک وقت ثابت نہیں ہو سکتے۔ طلاق سے نکاح زائل ہوتا ہے،اور ظہار کی صورت میں وہ باقی رہتا ہے۔ اور اگر کسی نیت کے بغیر مطلقاً بیوی کو حرام قرار دیا گیا ہو تو وہ حرام نہ ہو گی مگر قسم کا کفارہ لازم آئے گا اور اگر بیوی کے سوا کسی اور چیز کو حرام قرار دیا ہوتویہ لغو ہے، اس پر کوئی کفارہ نہیں ہے (مغنی المحتاج)۔ مالکیہ کہتے ہیں کہ بیوی کے سوا دوسری کسی چیزکو آدمی اپنے اوپر حرام کرے تو نہ وہ حرام ہوتی ہے اور نہ ا سے استعمال کرنے سے پہلے کوئی کفارہ لازم آتا ہے۔ لیکن اگر بیوی کو کہہ دے کہ تو حرام ہے، یا میرے لیے حرام ہے، یا میں تیرے لیے حرام ہوں، تو خواہ مدخولہ سے یہ بات کہے یا غیر مدخولہ سے، ہر صورت میں یہ طلاق ہیں، الایہ کہ اس نے تین سے کم کی نیت کی ہو۔ اصبغ کا قول ہے کہ اگر کوئی یوں کہے کہ جوکچھ مجھ پر حلال تھا وہ حرام ہے توجب تک وہ بیوی کو مستثنیٰ نہ کرے،اس سے بیوی کی تحریم بھی لازم آ جائے گی۔ المدونہ میں مدخولہ اور غیر مدخولہ کے درمیان فرق کیا گیا ہے۔ مدخولہ کو حرام کہہ دینے سےتین ہی طلاقیں پڑیں گی، اور کسی خاص تعداد کی نیت نہ ہوتو پھر یہ تین طلاقیں ہو گی (حاشیۃ الدسوقی)۔ قاضی ابن العربی نے احکام القرآن میں اس مسئلے کے متعلق امام مالکؒ کے تین قول نقل کیے ہیں۔ ایک یہ کہ بیوی کی تحریم ایک طلاق بائن ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ تین طلاق ہیں۔ تیسرا یہ کہ مدخولہ کے معاملہ میں تو یہ بہرحال تین طلاقیں ہیں البتہ غیر مدخولہ کے معاملہ میں ایک کی نیت ہو توایک ہی طلاق پڑے گی۔ پھر کہتے ہیں کہ ’’صحیح یہ ہے کہ بیوی کی تحریم ایک ہی طلاق ہے کیونکہ اگرآدمی حرام کہنے کے بجائے طلاق کا لفظ استعمال کرے اور کسی تعداد کا تعین نہ کرے تو ایک ہی طلاق واقع ہو گی‘‘۔ امام احمد بن حملؒ سے اس مسئلے میں تین مختلف اقوال منقول ہوئے ہیں۔ ایک یہ کہ بیوی کی تحریم، یا حلال کو مطلقاً اپنے لیے حرام قرار دینا ظہار ہے خواہ ظہار کی نیت ہو یا نہ ہو۔ دوسرا یہ کہ صریح کنایہ ہے اور اس سےتین طلاق واقع ہو جاتی ہیں خواہ نیت ایک ہی کی ہو۔ اور تیسرا قول یہ ہے کہ یہ قسم ہے، الا یہ کہ آدمی نے طلاق یا ظہار میں سے کسی کی نیت کی ہو، اور اس صورت میں جو نیت بھی کی گئی ہو وہی واقع ہو گی۔ ان میں سے پہلا قول ہی مذہب حنبلی میں مشہور ترین ہے (الانصاف) |
Surah 4 : Ayat 26
يُرِيدُ ٱللَّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ وَيَهْدِيَكُمْ سُنَنَ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ وَيَتُوبَ عَلَيْكُمْۗ وَٱللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
اللہ چاہتا ہے کہ تم پر اُن طریقوں کو واضح کرے اور اُنہی طریقوں پر تمہیں چلائے جن کی پیروی تم سے پہلے گزرے ہوئے صلحا٫ کرتے تھے وہ اپنی رحمت کے ساتھ تمہاری طرف متوجہ ہونے کا ارادہ رکھتا ہے، اور وہ علیم بھی ہے اور دانا بھی1
1 | سُورہ کے آغاز سے یہاں تک جو ہدایات دی گئی ہیں ، اور اس سُورہ کے نزول سے پہلے سُورہٴ بقرہ میں مسائل تمدّن و معاشرت کے متعلق جو ہدایات دی جا چکی تھیں، ان سب کی طرف بحیثیتِ مجمُوعی اشارہ کرتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ یہ معاشرت ، اخلاق اور تمدّن کے وہ قوانین ہیں جن پر قدیم ترین زمانہ سے ہر دَور کے انبیاء اور اُن کے صالح پَیرو عمل کرتے چلے آئے ہیں، اور یہ اللہ کی عنایت و مہربانی ہے کہ وہ تم کو جاہلیت کی حالت سے نکال کر صالحین کے طریقہ ٴ زندگی کی طرف تمہاری رہنمائی کر رہا ہے |
Surah 8 : Ayat 71
وَإِن يُرِيدُواْ خِيَانَتَكَ فَقَدْ خَانُواْ ٱللَّهَ مِن قَبْلُ فَأَمْكَنَ مِنْهُمْۗ وَٱللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
لیکن اگر وہ تیرے ساتھ خیانت کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس سے پہلے وہ اللہ کے ساتھ خیانت کر چکے ہیں، چنانچہ اسی کی سزا اللہ نے انہیں دی کہ وہ تیرے قابو میں آ گئے، اللہ سب کچھ جانتا اور حکیم ہے
Surah 9 : Ayat 15
وَيُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوبِهِمْۗ وَيَتُوبُ ٱللَّهُ عَلَىٰ مَن يَشَآءُۗ وَٱللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
اور ان کے قلوب کی جلن مٹا دے گا، اور جسے چاہے گا توبہ کی توفیق بھی دے گا1 اللہ سب کچھ جاننے والا اور دانا ہے
1 | یہ ایک ہلکا سا اشارہ ہے اُس امکان کی طرف جو آگے چل کر واقعہ کی صورت میں نمودار ہوا۔ مسلمان جو یہ سمجھ رہے تھے کہ بس اس اعلان کے ساتھ ہی ملک میں خون کی ندیاں بہ جائیں گی ، ان کی اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے اشارۃً انہیں بتایا گیا ہے کہ یہ پالیسی اختیار کرنے میں جہاں اس کا امکان ہے کہ ہنگامۂ جنگ برپا ہو گا وہاں اس کا بھی امکان ہے کہ لوگوں کو توبہ کی توفیق نصیب ہو جائے گی۔ لیکن اس اشارہ کو زیادہ نمایاں اس لیے نہیں کیا گیا کہ ایسا کرنے سے ایک طرف تو مسلمانوں کی تیاریِ جنگ ہلکی پڑجاتی اور دوسری طرف مشرکین کے لیے اُس دھمکی کا پہلو بھی خفیف ہو جاتا جس نے انہیں پوری سنجدیگی کے ساتھ اپنی پوزیشن کی نزاکت پر غور کرنے اور بالآخر نظام اسلامی میں جذب ہوجانے پر آمادہ کیا |
Surah 9 : Ayat 60
۞ إِنَّمَا ٱلصَّدَقَـٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَٱلْمَسَـٰكِينِ وَٱلْعَـٰمِلِينَ عَلَيْهَا وَٱلْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِى ٱلرِّقَابِ وَٱلْغَـٰرِمِينَ وَفِى سَبِيلِ ٱللَّهِ وَٱبْنِ ٱلسَّبِيلِۖ فَرِيضَةً مِّنَ ٱللَّهِۗ وَٱللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
یہ صدقات تو دراصل فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہیں اور اُن لوگوں کے لیے جو صدقات کے کام پر مامور ہوں3، اور اُن کے لیے جن کی تالیف قلب مطلوب ہو4 نیز یہ گردنوں کے چھڑانے5 اور قرض داروں کی مدد کرنے میں6 اور راہ خدا میں1 اور مسافر نوازی میں 2استعمال کرنے کے لیے ہیں ایک فریضہ ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور دانا و بینا ہے
6 | یعنی ایسے قرض دار جو اگر اپنے مال سے اپنا پورا قرض چکا دیں تو ان کے پاس قدر نصاب سے کم مال بچ سکتا ہو۔ وہ خواہ کمانے والے ہوں یا بے روزگار اور خواہ عرفِ عام میں فقیر سمجھے جاتے ہوں یا غنی ، دونوں صورتوں میں ان کی اعانت زکوٰۃ کی مدد سے کی جاسکتی ہے ۔ مگر متعدد فقہا کی رائے یہ ہے کہ جس شخص نے بد اعمالیوں اور فضول خرچیوں میں اپنا مال اڑا کر اپنے آپ کو قرضدار ی میں مبتلا کیا ہو اس کی مدد نہ کی جائے جب تک وہ توبہ نہ کر لے |
5 | گردنیں چھڑانے سے مراد یہ ہے کہ غلاموں کی آزادی میں زکوٰۃ کا مال صرف کیا جائے۔ اس کی دوصورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ جس غلام نے اپنے مالک سے یہ معاہدہ کیا ہو کہ اگر میں اتنی رقم تمہیں ادا کردوں تو تم مجھے آزاد کر دو، اسے آزادی کی قیمت ادا کرنے میں مدد دی جائے۔ دوسرے یہ کہ خود زکوٰۃ کی مدد سے غلام خرید کر آزاد کیے جائیں۔ ان میں سے پہلی صورت پر تو سب فقہا متفق ہیں لیکن دوسری صورت کو حضرت علیؓ، سعید بن جُبَیر، لَیث، ثَوری، ابراہیم نَخَعی، شَعبی، محمد بن سیرین، حنفیہ اور شافعیہ ناجائز کہتے ہیں اور ابن عباس ، حسن بصری، مالک، احمد اور ابو ثَور جائز قرار دیتے ہیں |
4 | تالیف قلب کے معنی ہیں دل موہنا۔ اس حکم سے مقصود یہ ہےکہ جو لوگ اسلام کی مخالفت میں سرگرم ہوں اور مال دے کر ان کے جوش عداوت کو ٹھنڈا کیا جا سکتا ہو ، یا جو لوگ کفار کے کیمپ میں ایسے ہوں کہ اگر مال سے انہیں توڑا جائے تو ٹوٹ کر مسلمانوں کے مدد گار بن سکتے ہوں ، یا جو لوگ نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے ہوں اور ان کی سابقہ عداوت یا ان کی کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے اندیشہ ہو کہ اگر مال سے ان کی استمالت نہ کی گئی تو پھر کفر کی طرف پلٹ جائیں گے، ایسے لوگوں کو مستقل وظائف یا وقتی عطیے دے کر اسلام کا حامی و مددگار ، یا مطیع و فرماں بردار ، یا کم از کم بے ضر ر دشمن بنالیا جائے۔ اس مدد پر غنائم اور دوسرے ذرائع آمدنی سے بھی مال خرچ کیا جا سکتا ہے اور اگر ضرورت ہو تو زکوٰۃ کی مدد سے بھی۔ اور ایسے لوگوں کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ وہ فقیر و مسکین یا مسافر ہوں تب ہی ان کی مدد زکوٰۃ سے کی جا سکتی ہے، بلکہ وہ مالدار اور رئیس ہونے پر بھی زکوٰۃ دیے جانے کے مستحق ہیں۔ یہ امر تو متفق علیہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بہت سے لوگوں کو تالیفِ قلب کے لیے وظیفے اور عطیے دیئے جاتے تھے لیکن اس امر میں اختلاف ہو گیا ہے کہ آیا آپؐ کے بعد بھی یہ مد باقی رہی یا نہیں۔ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کی رائے یہ ہے کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے زمانے سے یہ مدد ساقط ہوگئی ہے اور اب مؤلفۃ القلوب کو کچھ دینا جائز نہیں ہے۔ امام شافعی کی رائے یہ ہے کہ فاسق مسلمانوں کو تالیف قلب کے لیے زکوٰۃ کی مد سے دیا جا سکتا ہے مگر کفار کو نہیں۔ اور بعض دوسرے فقہا کے نزدیک مؤلفۃالقلوب کا حصّہ اب بھی باقی ہے اگر اس کی ضرورت ہو۔ حنفیہ کا استدلال اِس واقعہ سے ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد عُیَینَہ بن حِصن اور اَقرَع بن حابِس حضرت ابوبکر ؓ کا پاس آئے اور انہوں نے ایک زمین آپ سے طلب کی ۔ آپ نے ان کو عطیہ کا فرمان لکھ دیا۔ انہوں نے چاہا کہ مزید پختگی کے لیے دوسرے اعیانِ صحابہ بھی اس فرمان پر گواہیاں ثبت کریں۔ چنانچہ گواہیاں بھی ہوگئیں۔ مگر جب یہ لوگ حضرت عمر ؓ کے پاس گواہی لینے گئے تو انہوں نے فرمان کو پڑھ کر اسے ان کی آنکھوں کے سامنے چاک کر دیا اور ان سے کہا کہ بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم لوگوں کی تالیف قلب کے لیے تمہیں دیا کر تے تھے مگر وہ اسلام کی کمزوری کا زمانہ تھا ۔ اب اللہ نے اسلام کو تم جیسے لوگوں سے بے نیاز کر دیا ہے۔ اس پر وہ حضرت ابوبکر ؓ کے پاس شکایت لے کر آئے اور اپ کو طعنہ بھی دیا کہ خلیفہ آپ ہیں یا عمرؓ؟ لیکن نہ تو حضرت ابو بکر ؓ ہی نے اس پر کوئی نوٹس لیا اور نہ دوسرے صحابہ میں سے ہی کسی نے حضرت عمر ؓ کی اس رائے سے اختلاف کیا۔ اس سے حنفیہ یہ دلیل لاتے ہیں کہ جب مسلمان کثیر التعداد ہوگئے اور ان کو یہ طاقت حاصل ہو گئی کہ اپنے بل بوتے پر کھڑے ہو سکیں تو وہ سبب باقی نہیں رہا جس کی وجہ سے ابتداءً مؤلفۃ القلوب کا حصہ رکھا گیا تھا۔ اس لیے با جماع صحابہ یہ حصہ ہمیشہ کے لیے ساقط ہو گیا۔ امام شافعی ؒ کا استدلال یہ ہے کہ تالیف قلب کے لیے کفار کو مال زکوٰۃ دینا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے ثابت نہیں ہے۔ جتنے واقعات حدیث میں ہم کو ملتے ہیں ان سب سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے کفار کو تالیف قلب کے لیے جو کچھ دیا وہ مال ِ غنیمت سے دیا نہ کہ مال زکوٰۃ سے۔ ہمارے نزدیک حق یہ ہے کہ مؤلفۃالقلوب کا حصہ قیامت تک کے لیے ساقط ہو جانے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ بلاشبہہ حضرت عمرؓ نے جو کچھ کہا وہ بالکل صحیح تھا۔ اگر اسلامی حکوت تالیف قلب کے لیے مال صرف کرنے کی ضرورت نہ سمجھتی ہو تو کسی نے اس پر فرض نہیں کیا ہے کہ ضرور ہی اس مدد میں کچھ نہ کچھ صرف کرے۔ لیکن اگر کسی وقت اس کی ضرورت محسوس ہو تو اللہ نے اس کے لیے جو گنجائش رکھی ہے اسے باقی رہنا چاہیے ۔ حضرت عمرؓ اور صحابۂ کرام کا اجماع حس امر پر ہوا تھا وہ صرف یہ تھا کہ ان کے زمانہ میں جو حالات تھے ان میں تالیف قلب کے لیے کسی کو کچھ دینے کی وہ حضرات ضرورت محسُوس نہ کرتے تھے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ صحابہؓ کے اجماع نے اُس مدد کو قیامت تک کے لیے ساقط کر دیا جو قرآن میں بعض اہم مصالح دینی کے لیے رکھی گئی تھی۔ رہی امام شافعی کی رائے تو وہ اس حد تک تو صحیح معلوم ہوتی ہے کہ جب حکومت کے پاس دوسری مداتِ آمدنی سے کافی مال موجود ہو تو اسے تالیف قلب کی مد پر زکوٰۃ کا مال صرف نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن جب زکوٰۃ کے مال سے اس کام میں مدد لینے کی ضرورت پیش آجائے تو پھر یہ تفریق کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ فاسقوں پر اسے صرف کیا جائے اور کافروں پر نہ کیا جائے۔ اس لیے کہ قرآن میں مؤلفۃ القلوب کا جو حصہ رکھا گیا ہے وہ ان کے دعوائے ایمان کی بنا پر نہیں ہے بلکہ اس بنا پر ہے کہ اسلام کو اپنے مصالح کے لیے ان کی تالیف قلب مطلوب ہے اور وہ اس قسم کے لو گ ہیں کہ ان کی تالیف قلب صرف مال ہی کے ذریعہ سے ہو سکتی ہے۔ یہ حاجت اور یہ صفت جہاں بھی متحقق ہو وہاں امام مسلمین بشرط ضرورت زکوٰۃ کا مال صرف کرنے کا ازروئے قرآن مجاز ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر اس مدد سے کفار کو کچھ نہیں دیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کے پاس دوسری مدات کا مال موجود تھا۔ ورنہ اگر آپؐ کے نزدیک کفار پر اس مد کا مال صرف کرنا جائز نہ ہوتا تو آپؐ اس کی تشریح فرماتے |
3 | یعنی وہ لوگ جو صدقات وصول کرنے اور وصول شدہ مال کی حفاظت کرنے اور ان کا حساب کتاب لکھنے اور انہیں تقسیم کرنے میں حکومت کی طرف سے استعمال کیے جائیں۔ ایسے لوگ خواہ فقیر و مسکین نہ ہوں ، اُن کی تنخواہیں بہر حال صدقات ہی کی مدد سے دی جائیں گی۔ یہ الفاظ اور اسی سورۃ کی آیت ۱۰۳ کے الفاظ خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ زکوٰۃ کی تحصیل و تقسیم اسلامی حکوت کے فرائض میں سے ہے۔ اس سلسلہ میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات اور اپنے خاندان (یعنی بنی ہاشم) پر زکوٰۃ کا مال حرام قرار دیا تھا ، چنانچہ آپ نے خود بھی صدقات کی تحصیل کا کام ہمیشہ بلامعاوضہ کیا اور دوسرے بنی ہاشم کے لیے بھی یہ قاعدہ مقرر کر دیا کہ اگر وہ اس خدمت کو بلا معاوضہ انجام دیں تو جائز ہے ، لیکن معاوضہ لے کر اس شعبے کی کوئی خدمت کرنا ان کے لیے جائز نہیں ہے ۔ آپ کے خاندان کے لوگ اگر صاحب ِ نصاب ہوں تو زکوٰۃ دینا ان پر فرض ہے ، لیکن اگر وہ غریب و محتاج یا قرض دار یا مسافر ہوں تو زکوٰۃ لینا ان کے لیے حرام ہے ۔ البتہ اس امر میں اختلاف ہے کہ خود بنی ہاشم کی زکوٰۃ بھی بنی ہاشم لے سکتے ہیں یا نہیں۔ امام ابو یوسف کی رائے یہ ہے کہ لے سکتے ہیں۔ لیکن اکثر فقہاء اس کو بھی جائز نہیں رکھتے |
2 | مسافر خواہ اپنے گھر میں غنی ہو، لیکن حالت سفر میں اگر وہ مدد کا محتاج ہو جائے تو اس کی مدد زکوۃ کی مدد سے کی جائیگی یہاں بعض فقہا نے یہ شرط لگائی ہے کہ جس شخص کاسفر معصیت کےلیے نہ ہو صرف وہی اس آیت کی رو سے مدد کا مستحق ہے۔ مگر قرآن و حدیث میں ایسی کوئی شرط موجود نہیں ہے، اور دین کی اصولی تعلیمات سے ہم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص مدد کا محتاج ہو اس کی دست گیری کرنے میں اس کی گناہ گاری مانع نہیں ہونی چاہیے۔ بلکہ فی الواقع گناہ گاروں اور اخلاقی پستی میں گرے ہوئے لوگوں کی اصلاح کا بہت بڑا ذریعہ یہ ہے کہ مصیبت کے وقت ان کو سہارا دیا جائے اور حسنِ سلوک سے ان کے نفس کو پاک کرنے کی کوشش کی جائے۔ |
1 | راہ خدا کا لفظ عام ہے۔ تمام وہ نیکی کے کام جن میں اللہ کی رضا ہو، اس لفظ کے مفہوم میں داخل ہیں۔ اسی وجہ سے بعض لوگوں نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس حکم کی رو سے زکوۃ کا مال ہر قسم کے نیک کاموں میں صرف کیا جا سکتا ہے۔ لیکن حق یہ ہے اور ائمہ سلف کی بڑی اکثریت اسی کی قائل ہے کہ یہاں فی سبیل اللہ ہے یعنی وہ جدوجہد جس سے مقصود نظام کفر کو ہٹانا اور اس کی جگہ نظام اسلامی کو قائم کرتا ہو۔ اس جدوجہد میں جو لوگ کام کریں ان کو کام کے لیے سواری کے لیے آلات و اسلحہ اور سروسامان کی فراہمی کے لیے زکوۃ سے مدد دی جا سکتی ہے خواہ وہ بجائے خود کھاتے پیتے لوگ ہوں اور اپنی ذاتی ضروریات کے لیے ان کو مدد کی ضرورت نہ ہو۔ اسی طرح جو لوگ رضا کارانہ اپنی تمام خدمات اور اپنا تمام وقت عارضی طور پر یا مستقل طور پراس کام کے لیے دے دیں ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی زکوۃ سے وقتی یا استمراری اعانتیں دی جاسکتی ہیں۔ یہاں یہ بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ ائمہ سلف کے کلام میں بالعموم اس موقع پر غزو کا لفظ استعمال ہوا ہے جو قتال کا ہم معنی ہے اس لیے لوگ یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ زکوۃ کے مصارف میں فی سبیل اللہ کی جو مدد رکھی گئی ہے وہ صرف قتال کے لیے مخصوص ہے۔ لیکن درحقیقت جہاد فی سبیل اللہ قتال سے وسیع تر چیز کا نام ہے اور اس کا اطلاق ان تمام کوششوں پر ہوتا ہے جو کلمہ کفر کو پست اور کلمہ خدا کو بلند کرنے اور اللہ کے دین کو ایک نظامِ زندگی کی حثییت سے قائم کرنے کے لیے کی جائیں خواہ وہ دعوت و تبلیغ کے ابتدائی مرحلے میں ہوں یا قتال کے آخری مرحلے میں۔ |
Surah 9 : Ayat 97
ٱلْأَعْرَابُ أَشَدُّ كُفْرًا وَنِفَاقًا وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُواْ حُدُودَ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِۦۗ وَٱللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
یہ بدوی عرب کفر و نفاق میں زیادہ سخت ہیں اور ان کے معاملہ میں اس امر کے امکانات زیادہ ہیں کہ اس دین کے حدود سے نا واقف رہیں جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کیا ہے1 اللہ سب کچھ جانتا ہے اور حکیم و دانا ہے
1 | “جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں یہاں بدوی عربوں سے مراد وہ دیہاتی و صحرائی عرب ہیں جو مدینہ کے اطراف میں آباد تھے۔ یہ لوگ مدینہ میں ایک مضبوط اور منظم طاقت کو اُٹھتے دیکھ کہ پہلے تو مرعوب ہوئے۔ پھر اسلام اور کفر کی آویزشوں کے دوران میں ایک مدت تک موقع شناسی و ابن الوقتی کی روش پر چلتے رہے۔ پھر جب اسلامی حکومت کا اقتدار حجاز و نجد کے ایک بڑے حصّے پر چھا گیا اور مخالف قبیلوں کا زور اس کے مقابلہ میں ٹوٹنے لگا تو ان لوگوں نے مصلحتِ وقت اسی میں دیکھی کہ دائرۂ اسلام میں داخل ہو جائیں۔ لیکن ان میں کم لوگ ایسے تھے جو اِس دین کو دینِ حق سمجھ کر سچے دل سے ایمان لائے ہوں اور مخلصانہ طریقہ سے اس کے تقاضوں کو پورا کرنے پر آمادہ ہوں۔ بیشتر بدویوں کے لیے قبول ِ اسلام کی حیثیت ایمان و اعتقاد کی نہیں بلکہ محض مصلحت اور پالیسی کی تھی۔ ان کی خواہش یہ تھی کہ ان کے حصہ میں صرف وہ فوائد آجائیں جو برسر اقتدار جماعت کی رکنیت اختیار کرنے سے حاصل ہوا کرتے ہیں۔ مگر وہ اخلاقی بندشیں جو اسلام ان پر عائد کرتا تھا ، وہ نماز روزے کی پابندیاں جو اس دین کو قبول کرتے ہی ان پر لگ جاتی تھیں، وہ زکوٰۃ جو باقاعدہ تحصیل داروں کے ذریعہ سے ان کے نخلستانوں اور ان کے گلّوں سے وصول کی جاتی تھی، وہ ضبط و نظم جس کے شکنجے میں وہ اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسے گئے تھے، وہ جان و مال کی قربانیاں جو لوٹ مار کی لڑائیوں میں نہیں بلکہ خالص راہِ خدا کے جہاد میں آئے دن ان سے طلب کی جارہی تھیں، یہ ساری چیزیں ان کو شدت کے ساتھ ناگوار تھیں اور وہ ان سے پیچھا چھڑانے کے لیے ہر طرح کی چالبازیاں اور بہانہ سازیاں کرتے رہتے تھے۔ ان کو اس سے کچھ بحث نہ تھی کہ حق کیا ہے اور ان کی اور تمام انسانوں کی حقیقی فلاح کس چیز میں ہے۔ انہیں جو کچھ بھی دلچسپی تھی وہ اپنے معاشی مفاد، اپنی آسائش، اپنی زمینوں ، اپنے اونٹوں اور بکریوں اور اپنے خیمے کے آس پاس کی محدود دنیا سے تھی۔ اس سے بالاتر کسی چیز کے ساتھ وہ اُس طرح کی عقیدت تو رکھ سکتے تھے جیسی پیروں اور فقیروں سےرکھی جاتی ہے کہ یہ ان کے آگے نذر و نیاز پیش کریں اور وہ اس کے عوض ترقی روزگار اور آفات سے تحفظ اور ایسی ہی دوسری اغراض کے لیے ان کو تعویذ گنڈے دیں اور ان کے لیے دعائیں کریں۔ لیکن ایسے ایمان و اعتقاد کے لیے وہ تیار نہ تھے جو ان کی پوری تمدنی، معاشی اور معاشرتی زندگی کو اخلاق اور قانون کے ضابطہ میں کس دے اور مزید برآں ایک عالمگیر اصلاحی مشن کے لیے اُن سے جان و مال کی قربانیوں کا بھی مطالبہ کرے۔ ان کی اسی حالت کو یہاں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ شہریوں کی بہ نسبت یہ دیہاتی و صحرائی لوگ زیادہ منافقانہ رویہ رکھتے تھے اور حق سے انکار کی کیفیت ان کے اندر زیادہ پائی جاتی ہے ۔ پھر اس کی وجہ بھی بتا دی گئی ہے کہ شہری لوگ تو اہلِ علم اور اہلِ حق کی صحبیت سے مستفید ہو کر کچھ دین کو اور اس کی حدود کو جان بھی لیتے ہیں مگر یہ بدوی چونکہ ساری ساری عمر بالکل ایک معاشی حیوان کی طرح شب و روز رزق کے پھیر ہی میں پڑے رہتے ہیں اور حیوانی زندگی کی ضروریات سے بلند تر کسی چیز کی طرف توجہ کرنے کا انہیں موقع ہی نہیں ملتا۔ اس لیے دین اور اس کے حدود سے ان کے ناواقف رہنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ یہاں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کر دینا غیر موزوں نہ ہوگا کہ ان آیات کے نزول سے تقریبًا دو سال بعد حضرت ابوبکر ؓ کی خلافت کے ابتدائی عہد میں ارتداد اور منعِ زکوٰۃ کا جو طوفان برپا ہوا تھا اس کے اسباب میں ایک بڑا سبب یہی تھا جس کا ذکر ان آیات میں کیا گیا ہے |
Surah 9 : Ayat 106
وَءَاخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ ٱللَّهِ إِمَّا يُعَذِّبُهُمْ وَإِمَّا يَتُوبُ عَلَيْهِمْۗ وَٱللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
کچھ دوسر ے لوگ ہیں جن کا معاملہ ابھی خدا کے حکم پر ٹھیرا ہوا ہے، چاہے انہیں سزا دے اور چاہے اُن پر از سر نو مہربان ہو جائے اللہ سب کچھ جانتا ہے اور حکیم و دانا ہے1
1 | یہ لوگ ایسے تھے جن کا معاملہ مشکوک تھا۔ نہ ان کے منافق ہونے کا فیصلہ کیا جا سکتا تھا نہ گناہ گار مومن ہونے کا ان دونوں چیزوں کی علامات ابھی پوری طرح نہ ابھری تھیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے معاملہ کو ملتوی رکھا۔ نہ اس معنی میں کہ فی الواقع خدا کے سامنے معاملہ مشکوک تھا ، بلکہ اس معنی میں کہ مسلمانوں کو کسی شخص یا گروہ کے معاملہ میں اپنا طرزِ عمل اس وقت تک متعین نہیں کرنا چاہیے کہ جب تک اس کی پوشزیشن ایسی علامات سے واضح نہ ہو جائے جو علم غیب سے نہیں بلکہ حس اور عقل سے جانچی جا سکتی ہوں |