Ayats Found (6)
Surah 2 : Ayat 125
وَإِذْ جَعَلْنَا ٱلْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْنًا وَٱتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَٲهِــۧمَ مُصَلًّىۖ وَعَهِدْنَآ إِلَىٰٓ إِبْرَٲهِــۧمَ وَإِسْمَـٰعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِىَ لِلطَّآئِفِينَ وَٱلْعَـٰكِفِينَ وَٱلرُّكَّعِ ٱلسُّجُودِ
اور یہ کہ ہم نے اس گھر (کعبے) کو لوگوں کے لیے مرکز اور امن کی جگہ قرار دیا تھا اور لوگوں کو حکم دیا تھا کہ ابراہیمؑ جہاں عبادت کے لیے کھڑا ہوتا ہے اس مقام کو مستقل جائے نماز بنا لو اور ابراہیمؑ اور ا سماعیل کو تاکید کی تھی کہ میرے گھر کو طواف اور اعتکاف اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو1
1 | پاک رکھنے سے مراد صرف یہی نہیں ہے کہ کُوڑے کرکٹ سے اُسے پاک رکھا جائے ۔ خدا کے گھر کی اصل پاکی یہ ہے کہ اس میں خدا کے سوا کسی کا نام بلند نہ ہو۔ جس نے خانہء خدا میں خدا کے سوا کسی دُوسرے کو مالک ، معبُود، حاجت روا اور فریاد رس کی حیثیت سے پکارا، اس نے حقیقت میں اُسے گندا کر دیا۔ یہ آیت ایک نہایت لطیف طریقے سے مشرکینِ قریش کے جُرم کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ یہ ظالم لوگ ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ کے وارث ہونے پر فخر تو کرتے ہیں ، مگر وراثت کا حق ادا کرنے کے بجائے اُلٹا اس حق کو پامال کر رہے ہیں۔ لہٰذا جو وعدہ ابراہیم ؑ سے کیا گیا تھا، اس سے جس طرح بنی اسرائیل مستثنیٰ ہوگئے ہیں، اسی طرح یہ مشرک بنی اسمٰعیل بھی اس سے مستثنٰی ہیں |
Surah 2 : Ayat 129
رَبَّنَا وَٱبْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْهُمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ ءَايَـٰتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ ٱلْكِتَـٰبَ وَٱلْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْۚ إِنَّكَ أَنتَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ
اور اے رب، ان لوگوں میں خود انہیں کی قوم سے ایک ایسا رسول اٹھا ئیو، جو انہیں تیری آیات سنائے، ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے1 تو بڑا مقتدر اور حکیم ہے2"
2 | اس سے یہ بتانا مقصُود ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہُور دراصل حضرت ابراہیم ؑ کی دُعا کا جواب ہے |
1 | زندگی سنوارنے میں خیالات، اخلاق ، عادات، معاشرت، تمدّن، سیاست، غرض ہر چیز کو سنوارنا شامل ہے |
Surah 14 : Ayat 35
وَإِذْ قَالَ إِبْرَٲهِيمُ رَبِّ ٱجْعَلْ هَـٰذَا ٱلْبَلَدَ ءَامِنًا وَٱجْنُبْنِى وَبَنِىَّ أَن نَّعْبُدَ ٱلْأَصْنَامَ
یاد کرو وہ وقت جب ابراہیمؑ نے دعا کی تھی1 کہ 2"پروردگار، اِس شہر کو امن کا شہر بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا
1 | عام احسانات کا ذکر کرنے کے بعد اب اُن خاص احسانات کا ذکر کیا جا رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے قریش پر کیے تھے اور اس کے ساتھ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ تمہارے باپ ابراہیمؑ نے یہاں لا کر کن تمناؤں کے ساتھ تمہیں بسایا تھا ، اُس کی دعاؤں کے جواب میں کیسے کیسے احسانات ہم نے تم پر کیے، اور اب تم اپنے باپ کی تمناؤں اور اپنے رب کے احسانات کا جواب کن گمراہیوں اور بداعمالیوں سے دے رہے ہو |
Surah 14 : Ayat 38
رَبَّنَآ إِنَّكَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِى وَمَا نُعْلِنُۗ وَمَا يَخْفَىٰ عَلَى ٱللَّهِ مِن شَىْءٍ فِى ٱلْأَرْضِ وَلَا فِى ٱلسَّمَآءِ
پروردگار، تو جانتا ہے جو کچھ ہم چھپاتے ہیں اور 2جو کچھ ظاہر کرتے ہیں" اور 2واقعی اللہ سے کچھ بھی چھپا ہوا نہیں ہے، نہ زمین میں نہ آسمانوں میں
2 | یہ جملہ معتر ضہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کے قول کی تصدیق میں فرمایا ہے |
1 | یعنی خدا یا جو کچھ میں زبان سے کہہ رہا ہوں وُہ بھی تُو سُن رہا ہے اور جو جذبات میرے دل میں چھُپے ہوئے ہیں اُن سے بھی تُو واقف ہے |
Surah 22 : Ayat 26
وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَٲهِيمَ مَكَانَ ٱلْبَيْتِ أَن لَّا تُشْرِكْ بِى شَيْــًٔا وَطَهِّرْ بَيْتِىَ لِلطَّآئِفِينَ وَٱلْقَآئِمِينَ وَٱلرُّكَّعِ ٱلسُّجُودِ
یاد کرو وہ وقت جب ہم نے ابراہیمؑ کے لیے اِس گھر (خانہ کعبہ) کی جگہ تجویز کی تھی (اِس ہدایت کے ساتھ) کہ 1"میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو، اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام و رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھو
1 | بعض مفسرین نے ’’ پاک رکھو‘‘ پر اس فرمان کو ختم کر دیا ہے جو حضرت ابراہیم کو دیا گیا تھا ، اور ’’ حج کے لیے اذن عام دے دو‘‘ کا خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف مانا ہے۔ لیکن انداز کلام صاف بتا رہا ہے کہ یہ خطاب بھی حضرت ابراہیم ہی کی طرف ہے اور اسی حکم کا ایک حصہ ہے جو ان کو خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت دیا گیا تھا۔ علاوہ بریں مقصود کلام بھی یہاں یہی بتانا ہے کہ اول روز ہی سے یہ گھر خدائے واحد کی بندگی کے لیے تعمیر کیا گیا تھا اور تمام خدا پرستوں کو یہاں حج کے لیے آنے کا اذن عام تھا |
Surah 22 : Ayat 28
لِّيَشْهَدُواْ مَنَـٰفِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُواْ ٱسْمَ ٱللَّهِ فِىٓ أَيَّامٍ مَّعْلُومَـٰتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّنۢ بَهِيمَةِ ٱلْأَنْعَـٰمِۖ فَكُلُواْ مِنْهَا وَأَطْعِمُواْ ٱلْبَآئِسَ ٱلْفَقِيرَ
تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو یہاں اُن کے لیے رکھے گئے ہیں1 اور چند مقرر دنوں میں اُن جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اُس نے انہیں بخشے ہیں2، خود بھی کھائیں اور تنگ دست محتاج کو بھی دیں3
3 | بعض لوگوں نے اس ارشاد کا یہ مطلب لیا ہے کہ کھانا اور کھلانا دونوں واجب ہیں ، کیونکہ حکم بصیغہ امر دیا گیا ہے۔ دوسرا گروہ اس طرف گیا ہے کہ کھانا مستحب ہے اور کھلانا واجب۔ یہ رائے امام شافعیؒ اور امام مالکؒ کی ہے۔ تیسرا گروہ کہتا ہے کہ کھانا اور کھلانا دونوں مستحب ہیں۔ کھانا اس لیے مستحب ہے کہ جاہلیت کے زمانے میں لوگ اپنی قربانی کا گوشت خود کھانا ممنوع سمجھتے تھے ، اور کھلانا اس لیے پسندیدہ کہ اس میں غریبوں کی امداد اعانت ہے۔ یہ امام ابو حنیفہؒ کا قول ہے۔ ابن جریر نے حسن بصری ، عطاء ، مجاہد اور ابراہیم نخعی کے یہ اقوال نقل کیے ہیں کہ : فَکُلُوْ ا مِنْھَا۔ میں صیغۂ امر کے استعمال سے کھانے کا وجوب ثابت نہیں ہوتا۔ یہ امر ویسا ہی ہے جیسے فرمایا: و اِذَ ا حَلَلْتُمْ فَصْطَا دُوْا ، ’’ جب تم حالت احرام سے نکل آؤ تو پھر شکار کرو‘‘ (المائدہ۔ آیت 2 ) اور : فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلوٰۃُ فَانْتَشِرُوْ ا فِی الْاَرْضِ ، ’’ پھر جب نماز ختم ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ‘‘ (الجمعہ۔ آیت 10 )۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ احرام سے نکل کر شکار کرنا اور نماز جمعہ کے بعد زمین میں پھیل جانا واجب ہے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ پھر ایسا کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ اسی طرح یہاں بھی چونکہ لوگ اپنی قربانی کا گوشت خود کھانے کو ممنوع سمجھتے تھے اس لیے فرمایا گیا کہ نہیں ، اسے کھاؤ ، یعنی اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔ تنگ دست فقیر کو کھلانے کے متعلق جو فرمایا گیا ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ غنی کو نہیں کھلایا جا سکتا ، دوست، ہمساۓ ، رشتہ دار ، خواہ محتاج نہ ہوں ، پھر بھی انہیں قربانی کے گوشت میں سے دینا جائز ہے۔ یہ بات صحابہ کرام کے عمل سے ثابت ہے۔ عَلْقمہ کا بیان ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے میرے ہاتھ قربانی کے جانور بھیجے اور ہدایت فرمائی کہ یوم النحر کو انہیں ذبح کرنا ، خود بھی کھانا ، مساکین کو بھی دینا ، اور میرے بھائی کے گھر بھی بھیجنا۔ ابن عمر کا بھی یہی قول ہے کہ ایک حصہ کھاؤ ، ایک حصہ ہمسایوں کو دو ، اور ایک حصہ مساکین میں تقسیم کرو |
2 | جانوروں سے مراد مویشی جانور ہیں ، یعنی اونٹ ، گائے، بھیڑ ، بکری، جیسا کہ سور انعام 142۔ 144 میں بصراحت بیان ہوا ہے۔ ان پر اللہ کا نام لینے سے مراد اللہ کے نام پر اور اس کا نام لے کر انہیں ذبح کرنا ہے ، جیسا کہ بعد کا فقرہ خود بتا رہا ہے۔ قرآن مجید میں قربانی کے لیے بالعموم ’’جانور پر اللہ کا نام لینے ‘‘ کا استعارہ استعمال کیا گیا ہے ، اور ہر جگہ اس سے مراد اللہ کے نام پر جانور کو ذبح کرنا ہی ہے۔ اس طرح گویا اس حقیقت پر متنبہ کیا گیا ہے کہ اللہ کا نام لیے بغیر ، یا اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر جانور کو ذبح کرنا کفار و مشرکین کا طریقہ ہے۔ مسلمان جب کبھی جانور کو ذبح کرے گا اللہ کا نام لے کر کرے گا ، اور جب کبھی قربانی کرے گا اللہ کے لیے کرے گا۔ ایام معلومات (چند مقرر دنوں ) سے مراد کون سے دن ہیں ؟ اس میں اختلاف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ ان سے مراد ذی الحجہ کے پہلے دس دن ہیں۔ ابن عباسؓ ، حسن بصری، ابراہیم نَخعی، قتادہ اور متعدد دوسرے صحابہ و تابعین سے یہ قول منقول ہے۔ امام ابو حنیفہؒ بھی اسی طرف گۓ ہیں۔ امام شافعیؒ اور امام احمدؒ کا بھی ایک قول اسی کی تائید میں ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد یوم النحر (یعنی، 10 ذی الحجہ) اور اس کے بعد کے تین دن ہیں۔ اس کی تائید میں ابن عباسؒ ، اب عمرؓ ، ابراہیم نخعی، حسن اور عطاء کے اقوال پیش کیے جاتے ہیں ، اور امام شافعیؒ و احمدؒ سے بھی ایک ایک قول اس کے حق میں منقول ہوا ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد تین دن ہیں ، یوم النحر اور دو دن اس کے بعد۔ اس کی تائید میں حضرات عمر، علی، ابن عمر ، ابن عباس، انس بن مالک ، ابو ہریرہ ، سعید بن مُسیّب اور سعید بن حبیر رضی اللہ عنہم کے اقوال منقول ہوئے ہیں۔ فقہا میں سے سفیانؒ ثوری ، امام مالکؒ ، امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ نے یہی قول اختیار کیا ہے اور مذہب حنفی و مالکی میں اسی پر فتویٰ ہے۔ باقی کچھ شاذ اقوال بھی ہیں ، مثلاً کسی نے یکم محرم تک قربانی کے ایام کو دراز کیا ہے ، کسی نے صرف یوم النحر تک اسے محدود کر دیا ہے ، اور کسی نے یوم النحر کے بعد صرف ایک دن مزید قربانی کا مانا ہے۔ لیکن یہ کمزور اقوال ہیں جن کی دلیل مضبوط نہیں ہے |
1 | اس سے مراد صرف سینی فائدے ہی نہیں ہیں بلکہ دنیوی فائدے بھی ہیں۔ یہ اسی خانہ کعبہ اور اس کے حج کی برکت تھی کہ حضرت ابراہیم کے زمانہ سے لے کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے تک ڈھائی ہزار برس کی مدت میں عربوں کو ایک مرکز وحدت حاصل رہا جس نے ان کی عربیت کو قبائلیت میں بالکل گم ہو جانے سے بچائے رکھا۔ اس کے مرکز سے وابستہ ہونے اور حج کے لیے ہر سال ملک کے تمام حصوں سے آتے رہنے کی بدولت ان کی زبان ایک رہی، ان کی تہذیب ایک رہی، ان کے اندر عرب ہونے کا احساس باقی رہا، اور ان کو خیالات ، معلومات اور تمدنی طریقوں کی اشاعت کے مواقع ملتے رہے۔ پھر یہ بھی اسی حج کی برکت تھی کہ عرب کی اس عام بد امنی میں کم از کم چار مہینے ایسے امن کے میسر آ جاتے تھے جن میں ملک کے ہر حصے کا آدمی سفر کر سکتا تھا اور تجارتی قافلے بھی بخیریت گزر سکتے تھے۔ اس لیے عرب کی معاشی زندگی کے لیے بھی حج ایک رحمت تھا۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، آل عمران ، حواشی، 80۔ 81۔ المائدہ ، حاشیہ 113۔ اسلام کے بعد حج کے دینی فائدوں کے ساتھ اس کے دنیوی فائدے بھی کئی گنے زیادہ ہو گۓ۔ پہلے وہ صرف عرب کے لیے رحمت تھا۔ اب وہ ساری دنیا کے اہل توحید کے لیے رحمت ہو گیا |