Ayats Found (8)
Surah 9 : Ayat 114
وَمَا كَانَ ٱسْتِغْفَارُ إِبْرَٲهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَآ إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُۥٓ أَنَّهُۥ عَدُوٌّ لِّلَّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُۚ إِنَّ إِبْرَٲهِيمَ لَأَوَّٲهٌ حَلِيمٌ
ابراہیمؑ نے اپنے باپ کے لیے جو دعائے مغفرت کی تھی وہ تو اُس وعدے کی وجہ سے تھی جو اس نے اپنے باپ سے کیا تھا1، مگر جب اس پر یہ بات کھل گئی کہ اس کا باپ خدا کا دشمن ہے تو وہ اس سے بیزار ہو گیا، حق یہ ہے کہ ابراہیمؑ بڑا رقیق القلب و خداترس اور بردبار آدمی تھا2
2 | متن میں اَوَّاہٌ اور حَلِیْمٌ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اَوَّاہٌ کے معنی ہیں بہت آہیں بھرنے والا، زاری کرنے والا، ڈرنے والا، حسرت کرنے والا۔ اور حلیم اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنے مزاج پر قابو رکھتا ہو، نہ غصّے اور دشمنی اور مخالفت میں آپے سے باہر ہو، نہ محبت اور دوستی اور تعلقِ خاطر میں حد اعتدال سے تجاوز کر جائے۔ یہ دونو ں لفظ اس مقا م پر دوہرے معنی دے رہے ہیں۔ حضرت ابراہیم نے اپنے باپ کے لیے دعائے مغفرت کی کیونکہ وہ نہایت رقیق القلب آدمی تھے، اس خیال سے کانپ اٹھے تھے کہ میرا یہ باپ جہنم کا ایندھن بن جائے گا ۔ اور حلیم تھے ، اُس ظلم و ستم کے باوجود جو ان کے باپ نے اسلام سے ان کوروکنے کے لیے ان پر ڈھایا تھا ۔ ان کی زبان اس کے حق میں دعا ہی کے لیے کھلی۔ پھر انہوں نے یہ دیکھ کر کہ ان کا باپ خدا کا دشمن ہے اس سے تبّری کی، کیونکہ وہ خدا سے ڈرنے والے انسان تھے اور کسی کی محبت میں حد سے تجاوز کر نے والے نہ تھے |
1 | اشارہ ہے اُس بات کی طرف جو اپنے مشرک باپ سے تعلقات منقطع کرتے ہوئے حضرت ابراہیم ؑ نے کہی تھی کہ سَلَامٌ عَلَیْکَ سَاَ سْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّیْ اِنَّہٗ کَانَ بِیْ حَفِیًّاo (مریم ۔ آیت ۴۷)”آپ کو سلام ہے ، میں آپ کے لیے اپنے ربّ سے دعا کروں گا کہ آپ کو معاف کر دے، وہ میرے اوپر نہایت مہربان ہے“۔ اور لَاَ سْتَغْفِرَ نَّ لَکَ وَمَا اَمْلِکُ لَکَ مِنَ اللہِ مِنْ شَیْ ءٍ (الممتحنہ آیت ۴)” میں آپ کے لیے معافی ضرور چاہوں گا، اور میرے اختیار میں کچھ نہیں ہے کہ آپ کو اللہ کی پکڑ سے بچوا لوں“۔ چنانچہ اسی وعدے کی بنا پر آنجناب نے اپنے باپ کے لیے یہ دُعا مانگی تھی کہ : وَاغْفِرْ لِاَ بِیْ اِنَّہٗ کَانَ مِنَ الضَّآلِّیْنَo وَلَا تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ o یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ o اِلَّا مَنْ اَتَی اللہ َ بَقَلْبٍ سَلِیْمٍ o (الشعراء آیات ۸۶ تا ۸۹) ”اور میرے باپ کو معاف کر دے، بے شک وہ گمراہ لوگوں میں سے تھا، اور اس دن مجھے رسوا نہ کر جبکہ سب انسان اٹھائے جائیں گے، جبکہ نہ مال کسی کے کچھ کام آئے گا نہ اولاد، نجات صرف وہ پائے گا جو اپنے خدا کے حضور بغاوت سے پاک دل لے کر حاضر ہوا ہو“۔ یہ دعا اوّل تو خود انتہائی محتاط لہجے میں تھی۔ مگر اس کے بعد جب حضرت ابراہیم کی نظر اس طرف گئی کہ میں جس شخص کے لیے دعا کر رہا ہوں وہ تو خدا کا کھلم کھلا باغی تھا، اور اس کے دین سے سخت دشمنی رکھتا تھا ، تو وہ اس سے بھی باز آگئے اور ایک سچے وفادار مومن کی طرح انہوں نے باغی کی ہمدردی سے صاف صاف تبرّی کر دی، اگرچہ وہ باغی ان کا باپ تھا جس نے کبھی محبت سے ان کو پالا پوسا تھا |
Surah 19 : Ayat 47
قَالَ سَلَـٰمٌ عَلَيْكَۖ سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّىٓۖ إِنَّهُۥ كَانَ بِى حَفِيًّا
ابراہیمؑ نے کہا "سلام ہے آپ کو میں اپنے رب سے دُعا کروں گا کہ آپ کو معاف کر دے، میرا رب مجھ پر بڑا ہی مہربان ہے
Surah 26 : Ayat 86
وَٱغْفِرْ لِأَبِىٓ إِنَّهُۥ كَانَ مِنَ ٱلضَّآلِّينَ
اور میرے باپ کو معاف کر دے کہ بے شک وہ گمراہ لوگوں میں سے ہے1
1 | بعض مفسرین نے حضرت ابراہیمؑ کی اس دعائے مغفرت کی یہ توجیہ بیان کی ہے کہ مغفرت بہر حال اسلام کے ساتھ مشروط ہے اس لیے آں جناب کا اپنے والد کی مغفرت کے لیے دعا کرنا گویا اس بات کی دعا کرنا تھا کہ اللہ تعالیٰ اسے اسلام لانے کی توفیق عطا فرمائے۔ لیکن قرآن مجید میں اس کے متعلق مختلف مقامات پر جو تصریحات ملتی ہیں وہ اس توجیہ سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ حضرت ابراہیمؑ اپنے والد کے ظلم سے تنگ آ کر جب گھر سے نکلنے لگے تو انہوں نے رخصت ہوتے وقت فرمایا : سَلٰمٌ عَلَیْکَ سَاَ سْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّیٓ اِنَّہٗ کَانَ بِیْ حَفِیًّا (مریم، آیت 47 ) ’’ آپ کو سلام ہے ، میں آپ کے لیے اپنے رب سے بخشش کی دعا کروں گا، وہ میرے اوپر نہایت مہربان ہے ‘‘۔ اسی وعدے کی بنا پر انہوں نے یہ دعائے مغفرت نہ صرف اپنے باپ کے لیے کی بلکہ ایک دوسرے مقام پر بیان ہوا ہے کہ ماں اور باپ دونوں کے لیے کی : رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ (ابرہیم۔ آیت 41 )۔ لیکن بعد میں انہیں خود یہ احساس ہو گیا کہ ایک دشمن حق، چاہے وہ ایک مومن کا باپ ہی کیوں نہ ہو، دعائے مغفرت کا مستحق نہیں ہے۔ وَمَا کَانَ ابْتِغْفَا رُ اِبْرٰھِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّ عَدَھَآ اِیَّا ہُ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ اَنَّہٗ عَدُ وٌّ لِلہِ تَبَرَّأ مِنْہُ (التوبہ۔ آیت 114) ’’ ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے دعائے مغفرت کرنا محض اس وعدے کی وجہ سے تھا جو اس نے اس سے کیا تھا۔ مگر جب یہ بات اس پر کھل گئی کہ وہ خدا کا دشمن ہے تو اس نے اس سے اظہار بیزاری کر دیا‘‘ |
Surah 60 : Ayat 4
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِىٓ إِبْرَٲهِيمَ وَٱلَّذِينَ مَعَهُۥٓ إِذْ قَالُواْ لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَءَٲٓؤُاْ مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ ٱلْعَدَٲوَةُ وَٱلْبَغْضَآءُ أَبَدًا حَتَّىٰ تُؤْمِنُواْ بِٱللَّهِ وَحْدَهُۥٓ إِلَّا قَوْلَ إِبْرَٲهِيمَ لِأَبِيهِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَآ أَمْلِكُ لَكَ مِنَ ٱللَّهِ مِن شَىْءٍۖ رَّبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ أَنَبْنَا وَإِلَيْكَ ٱلْمَصِيرُ
تم لوگوں کے لیے ابراہیمؑ اور اُس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے کہ اُنہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا 1"ہم تم سے اور تمہارے اِن معبودوں سے جن کو تم خدا کو چھوڑ کر پوجتے ہو قطعی بیزار ہیں، ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت ہو گئی اور بیر پڑ گیا جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لاؤ" مگر ابراہیمؑ کا اپنے باپ سے یہ کہنا (اِس سے مستثنیٰ ہے) کہ "میں آپ کے لیے مغفرت کی درخواست ضرور کروں گا، اور اللہ سے آپ کے لیے کچھ حاصل کر لینا میرے بس میں نہیں ہے" (اور ابراہیمؑ و اصحاب ابراہیمؑ کی دعا یہ تھی کہ) "اے ہمارے رب، تیرے ہی اوپر ہم نے بھروسا کیا اور تیری ہی طرف ہم نے رجوع کر لیا اور تیرے ہی حضور ہمیں پلٹنا ہے
1 | دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے لیے حضرت ابراہیم کی یہ بات تو قابل تقلید ہے کہ انہوں نے اپنی کافر و مشرک قوم سے صاف صاف بیزاری اور قطع تعلق کا اعلان کر دیا، مگر ان کی یہ بات تقلید کے قابل بہیں ہے کہ انہوں نے اپنے مشرک باپ کے لیے مغفرت کی دعا کرنے کا وعدہ کیا اور عملاً اس کے حق میں دعا کی۔ اس لیے کہ کافروں کے ساتھ محبت اور ہمدردی کا اتنا تعلق بھی اہل ایمان کو نہ رکھنا چاہیے۔ سورہ توبہ (آیت 113) میں اللہ تعالیٰ کا صاف صاف ارشاد ہے : مَا کَا نَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوآ اَنْ یَّسْتَغْفِرُ وْ ا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَ لَوْ کَانُوْا اُولِیْ قُرْبیٰ۔ ’’ نبی کا یہ کام نہیں ہے اور نہ ان لوگوں کو یہ زیبا ہے جو ایمان لاۓ ہیں کہ مُشرکوں کے لیے دعاۓ مغفرت کریں، خواہ وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں ‘‘۔ پس کوئی مسلمان اس دلیل سے اپنے کافر عزیزوں کے حق میں دعاۓ مغفرت کرنے کا مجاز نہیں ہے کہ یہ کام حضرت ابراہیمؑ نے کیا تھا۔ رہا سوال کہ خود حضرت ابراہیمؑ نے یہ کام کیسے کیا؟ اور کیا وہ اس پر قائم بھی رہے؟ اس کا جواب قرآن مجید میں ہم کو پوری تفصیل کے ساتھ ملتا ہے۔ ان کے باپ نے جب ان کو گھر سے نکال دیا تو چلتے وقت انہوں نے کہا تھا سَلَامٌ عَلَیْکَ سَاَسْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّیْ، ’’ آپ کو سلام ہے، میں اپنے رب سے آپ کے لیے مغفرت کی دعا کروں گا‘‘ (مریم، 147۔ اسی وعدے کی بنا پر انہوں نے دو مرتبہ اس کے حق میں دعا کی۔ ایک دعا کا ذکر سورہ ابراہیم(آیت 41) میں ہے : رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَ لِوَلِدَیَّ وَ لِلْمُؤْ مِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الحِسَابْ۔ ’’اے ہمارے پروردگار، مجھے اور میرے والدین کو اور سب مومنوں کو اس روز معاف کر دیجیو جب حساب لیا جانا ہے ‘‘۔ اور دوسری دعا سورہ شعَراء (آیت 86) میں ہے : وَاغْفِرْلِاَبِیْ اِنَّہٗ کَانَمَنَالضَّآ لِّیْنَ وَلَا تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ۔ ’’ میرے باپ کو معاف فرما دے کہ وہ گمراہوں میں سے تھا اور مجھے اس دن رسوا نہ کر جب سب لوگ زندہ کر کے اٹھاۓ جائیں گے ‘‘۔ لیکن بعد میں جب ان کو یہ احساس ہو گیا کہ اپنے جس باپ کی مغفرت کے لیے وہ دعا کر رہے ہیں وہ تو اللہ کا دشمن تھا، تو انہوں نے اس سے تبرّی کی اور اس کے ساتھ ہمدردی و محبت کا یہ تعلق بھی توڑ لیا: وَمَا کَانَ اسْتِغْفَا رُ اِبْرَاھِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْ عِدَۃٍ وَّ عَدَھَا اِیَّاہُ، فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ اَنَّہٗ عَدُوٌّ لِّلّٰہِ تَبَرَّ أ مِنْہُ، اِنَّ اَبْرَھِیْمَلَاَوَّ اہٌ حَلِیْمٌ o (التوبہ 114) اور ابراہیمؑ کا اپنے باپ کے لیے مغفرت کی دعا کرنا اس کے سوا کسی وجہ سے نہ تھا کہ ایک وعدہ تھا جو اس نے اپنے باپ سے کر لیا تھا۔ پھر جب اس پر یہ بات واضح ہو گئی کہ وہ الہہ کا دشمن تھا تو اس نے اس سے بیزاری کا اظہار کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ابراہیم ایک رقیق القلب اور نرم خو آدمی تھا۔ ان آیات پر غور کرنے سے یہ اصولی حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ انبیاء کا صرف وہی عمل قابل تقلید ہے جس پر وہ آخر وقت تک قائم رہے ہوں۔ رہے ان کے وہ اعمال جن کو انہوں نے بعد میں خود چھوڑ دیا ہو، یا جن پر اللہ تعالیٰ نے انہیں قائم نہ رہنے دیا ہو، یا جن کی ممانعت اللہ کی شریعت میں وارد ہو چکی ہو، وہ قابل تقلید نہیں ہیں اور کوئی شخص اس حجت سے ان کے ایسے اعمال کی پیروی نہیں کر سکتا کہ یہ فلاں نبی کا عمل ہے۔ یہاں ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے جو آدمی ذہن میں کھٹک پیدا کر سکتا ہے۔ آیت زیر بحث میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کے جس قول کو قابل تقلید نمونہ ہونے سے مستثنیٰ قرار دیا ہے اس کے دو حصے ہیں ایک حصہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے باپ سے کہا ’’ میں آپ کے لیے مغفرت کی دعا کروں گا‘‘۔ اور دوسرا حصہ یہ کہ ’’ میرے بس میں کچھ نہیں ہے کہ اللہ سے آپ کو معافی دلوا دوں ‘‘۔ ان میں سے پہلی بات کا قابل تقلید نہ ہونا تو سمجھ میں آتا ہے، مگر دوسری بات میں کیا خرابی ہے کہ اسے بھی نمونہ قابل تقلید ہونے سے مستثنیٰ کر دیا گیا؟ حالانکہ وہ بجاۓ خود حق بات ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کا یہ قول استثناء میں اس وجہ سے داخل ہوا ہے کہ جب کوئی شخص کسی سے ایک کام کا وعدہ کرنے کے بعد یہ کہتا ہے کہ اس سے زیادہ تیرے لیے کچھ کرنا میرے بس میں نہیں ہے تو اس سے خود بخود یہ مطلب نکلتا ہے کہ اگر اس سے زیادہ کچھ کرنا اس کے بس میں ہوتا تو وہ شخص اس کی خاطر وہ بھی کرتا۔ یہ بات اس آدمی کے ساتھ اس شخص کے ہمدردانہ تعلق کو اور بھی زیادہ شدت کے ساتھ ظاہر کرتی ہے۔ اسی بنا پر حضرت ابراہیمؑ کا یہ دوسرا قول بھی استثناء میں شامل کیے جانے کا مستحق تھا، اگرچہ اس کا یہ مضمون بجاۓ خود برحق تھا کہ اللہ سے کسی کی مغفرت کروا دینا ایک نبی تم کے اختیار سے باہر ہے۔ علامہ آلوسی نے بھی روح المعانی میں اس سوال کا یہی جواب دیا ہے |
Surah 37 : Ayat 100
رَبِّ هَبْ لِى مِنَ ٱلصَّـٰلِحِينَ
اے پروردگار، مجھے ایک بیٹا عطا کر جو صالحوں میں سے ہو1"
1 | اس دعا سے خود بخود یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت ابراہیمؑ اس وقت بے اولاد تھے۔قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر جو حالات بیان کیے گئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صرف ایک بیوی اور ایک بھتیجے (حضرت لوطؑ) کو لے کر ملک سے نکلے تھے۔اس وقت فطرۃً آپ کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اللہ کوئی صالح اولاد عطا فرمائے جو اس غریب الوطنی کی حالت میں آپ کا غم غلط کرے۔ |
Surah 60 : Ayat 4
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِىٓ إِبْرَٲهِيمَ وَٱلَّذِينَ مَعَهُۥٓ إِذْ قَالُواْ لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَءَٲٓؤُاْ مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ ٱلْعَدَٲوَةُ وَٱلْبَغْضَآءُ أَبَدًا حَتَّىٰ تُؤْمِنُواْ بِٱللَّهِ وَحْدَهُۥٓ إِلَّا قَوْلَ إِبْرَٲهِيمَ لِأَبِيهِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَآ أَمْلِكُ لَكَ مِنَ ٱللَّهِ مِن شَىْءٍۖ رَّبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ أَنَبْنَا وَإِلَيْكَ ٱلْمَصِيرُ
تم لوگوں کے لیے ابراہیمؑ اور اُس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے کہ اُنہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا 1"ہم تم سے اور تمہارے اِن معبودوں سے جن کو تم خدا کو چھوڑ کر پوجتے ہو قطعی بیزار ہیں، ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت ہو گئی اور بیر پڑ گیا جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لاؤ" مگر ابراہیمؑ کا اپنے باپ سے یہ کہنا (اِس سے مستثنیٰ ہے) کہ "میں آپ کے لیے مغفرت کی درخواست ضرور کروں گا، اور اللہ سے آپ کے لیے کچھ حاصل کر لینا میرے بس میں نہیں ہے" (اور ابراہیمؑ و اصحاب ابراہیمؑ کی دعا یہ تھی کہ) "اے ہمارے رب، تیرے ہی اوپر ہم نے بھروسا کیا اور تیری ہی طرف ہم نے رجوع کر لیا اور تیرے ہی حضور ہمیں پلٹنا ہے
1 | دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے لیے حضرت ابراہیم کی یہ بات تو قابل تقلید ہے کہ انہوں نے اپنی کافر و مشرک قوم سے صاف صاف بیزاری اور قطع تعلق کا اعلان کر دیا، مگر ان کی یہ بات تقلید کے قابل بہیں ہے کہ انہوں نے اپنے مشرک باپ کے لیے مغفرت کی دعا کرنے کا وعدہ کیا اور عملاً اس کے حق میں دعا کی۔ اس لیے کہ کافروں کے ساتھ محبت اور ہمدردی کا اتنا تعلق بھی اہل ایمان کو نہ رکھنا چاہیے۔ سورہ توبہ (آیت 113) میں اللہ تعالیٰ کا صاف صاف ارشاد ہے : مَا کَا نَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوآ اَنْ یَّسْتَغْفِرُ وْ ا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَ لَوْ کَانُوْا اُولِیْ قُرْبیٰ۔ ’’ نبی کا یہ کام نہیں ہے اور نہ ان لوگوں کو یہ زیبا ہے جو ایمان لاۓ ہیں کہ مُشرکوں کے لیے دعاۓ مغفرت کریں، خواہ وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں ‘‘۔ پس کوئی مسلمان اس دلیل سے اپنے کافر عزیزوں کے حق میں دعاۓ مغفرت کرنے کا مجاز نہیں ہے کہ یہ کام حضرت ابراہیمؑ نے کیا تھا۔ رہا سوال کہ خود حضرت ابراہیمؑ نے یہ کام کیسے کیا؟ اور کیا وہ اس پر قائم بھی رہے؟ اس کا جواب قرآن مجید میں ہم کو پوری تفصیل کے ساتھ ملتا ہے۔ ان کے باپ نے جب ان کو گھر سے نکال دیا تو چلتے وقت انہوں نے کہا تھا سَلَامٌ عَلَیْکَ سَاَسْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّیْ، ’’ آپ کو سلام ہے، میں اپنے رب سے آپ کے لیے مغفرت کی دعا کروں گا‘‘ (مریم، 147۔ اسی وعدے کی بنا پر انہوں نے دو مرتبہ اس کے حق میں دعا کی۔ ایک دعا کا ذکر سورہ ابراہیم(آیت 41) میں ہے : رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَ لِوَلِدَیَّ وَ لِلْمُؤْ مِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الحِسَابْ۔ ’’اے ہمارے پروردگار، مجھے اور میرے والدین کو اور سب مومنوں کو اس روز معاف کر دیجیو جب حساب لیا جانا ہے ‘‘۔ اور دوسری دعا سورہ شعَراء (آیت 86) میں ہے : وَاغْفِرْلِاَبِیْ اِنَّہٗ کَانَمَنَالضَّآ لِّیْنَ وَلَا تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ۔ ’’ میرے باپ کو معاف فرما دے کہ وہ گمراہوں میں سے تھا اور مجھے اس دن رسوا نہ کر جب سب لوگ زندہ کر کے اٹھاۓ جائیں گے ‘‘۔ لیکن بعد میں جب ان کو یہ احساس ہو گیا کہ اپنے جس باپ کی مغفرت کے لیے وہ دعا کر رہے ہیں وہ تو اللہ کا دشمن تھا، تو انہوں نے اس سے تبرّی کی اور اس کے ساتھ ہمدردی و محبت کا یہ تعلق بھی توڑ لیا: وَمَا کَانَ اسْتِغْفَا رُ اِبْرَاھِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْ عِدَۃٍ وَّ عَدَھَا اِیَّاہُ، فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ اَنَّہٗ عَدُوٌّ لِّلّٰہِ تَبَرَّ أ مِنْہُ، اِنَّ اَبْرَھِیْمَلَاَوَّ اہٌ حَلِیْمٌ o (التوبہ 114) اور ابراہیمؑ کا اپنے باپ کے لیے مغفرت کی دعا کرنا اس کے سوا کسی وجہ سے نہ تھا کہ ایک وعدہ تھا جو اس نے اپنے باپ سے کر لیا تھا۔ پھر جب اس پر یہ بات واضح ہو گئی کہ وہ الہہ کا دشمن تھا تو اس نے اس سے بیزاری کا اظہار کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ابراہیم ایک رقیق القلب اور نرم خو آدمی تھا۔ ان آیات پر غور کرنے سے یہ اصولی حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ انبیاء کا صرف وہی عمل قابل تقلید ہے جس پر وہ آخر وقت تک قائم رہے ہوں۔ رہے ان کے وہ اعمال جن کو انہوں نے بعد میں خود چھوڑ دیا ہو، یا جن پر اللہ تعالیٰ نے انہیں قائم نہ رہنے دیا ہو، یا جن کی ممانعت اللہ کی شریعت میں وارد ہو چکی ہو، وہ قابل تقلید نہیں ہیں اور کوئی شخص اس حجت سے ان کے ایسے اعمال کی پیروی نہیں کر سکتا کہ یہ فلاں نبی کا عمل ہے۔ یہاں ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے جو آدمی ذہن میں کھٹک پیدا کر سکتا ہے۔ آیت زیر بحث میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کے جس قول کو قابل تقلید نمونہ ہونے سے مستثنیٰ قرار دیا ہے اس کے دو حصے ہیں ایک حصہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے باپ سے کہا ’’ میں آپ کے لیے مغفرت کی دعا کروں گا‘‘۔ اور دوسرا حصہ یہ کہ ’’ میرے بس میں کچھ نہیں ہے کہ اللہ سے آپ کو معافی دلوا دوں ‘‘۔ ان میں سے پہلی بات کا قابل تقلید نہ ہونا تو سمجھ میں آتا ہے، مگر دوسری بات میں کیا خرابی ہے کہ اسے بھی نمونہ قابل تقلید ہونے سے مستثنیٰ کر دیا گیا؟ حالانکہ وہ بجاۓ خود حق بات ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کا یہ قول استثناء میں اس وجہ سے داخل ہوا ہے کہ جب کوئی شخص کسی سے ایک کام کا وعدہ کرنے کے بعد یہ کہتا ہے کہ اس سے زیادہ تیرے لیے کچھ کرنا میرے بس میں نہیں ہے تو اس سے خود بخود یہ مطلب نکلتا ہے کہ اگر اس سے زیادہ کچھ کرنا اس کے بس میں ہوتا تو وہ شخص اس کی خاطر وہ بھی کرتا۔ یہ بات اس آدمی کے ساتھ اس شخص کے ہمدردانہ تعلق کو اور بھی زیادہ شدت کے ساتھ ظاہر کرتی ہے۔ اسی بنا پر حضرت ابراہیمؑ کا یہ دوسرا قول بھی استثناء میں شامل کیے جانے کا مستحق تھا، اگرچہ اس کا یہ مضمون بجاۓ خود برحق تھا کہ اللہ سے کسی کی مغفرت کروا دینا ایک نبی تم کے اختیار سے باہر ہے۔ علامہ آلوسی نے بھی روح المعانی میں اس سوال کا یہی جواب دیا ہے |
Surah 60 : Ayat 5
رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلَّذِينَ كَفَرُواْ وَٱغْفِرْ لَنَا رَبَّنَآۖ إِنَّكَ أَنتَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ
اے ہمارے رب، ہمیں کافروں کے لیے فتنہ نہ بنا دے اور اے ہمارے رب، ہمارے قصوروں سے درگزر فرما، بے شک تو ہی زبردست اور دانا ہے"
1 | کافروں کے لیے اہل ایمان کے فتنہ بننے کی متعدد صورتیں ہو سکتی ہیں جن سے ہر مومن کو خدا کی پناہ مانگنی چاہیے۔ مثال کے طور پر اس کی ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ کافر ان پر غالب آ جائیں اور اپنے غلبہ کو اس بات کی دلیل قرار دیں کہ ہم حق پر ہیں اور اہل ایمان برسر باطل، ورنہ کیسے ہو سکتا تھا کہ ان لوگوں کو خدا کی رضا حاصل ہوتی اور پھر بھی ہمیں ان پر غلبہ حاصل ہوتا۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اہل ایمان پر کافروں کا ظلم و ستم ان کی حد برداشت سے بڑھ جاۓ اور آخر کار وہ ان سے دب کر اپنے دین و اخلاق کا سودا کرنے پر اتر آئیں۔ یہ چیز دنیا بھر میں مومنوں کی جگ ہنسائی کی موجب ہوگی اور کافروں کو اس سے دین اور اہل دین کی تذلیل کا موقع ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ دین حق کی نمائندگی کے مقام بلند پر فائز ہونے کے باوجود اہل ایمان اس اخلاقی فضیلت سے محروم رہیں جو اس مقام کے شایان شان ہے، اور دنیا کو ان کی سیرت و کردار میں بھی وہی عیوب نظر آئیں جو جاہلیت کے معاشرے میں عام طور پر پھیلے ہوۓ ہوں۔ اس سے کافروں کو یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ اس دین میں آخر وہ کیا خوبی ہے جو اسے ہمارے کفر پر شرف عطا کرتی ہو؟ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، یونس، حاشیہ 83 ) |
Surah 37 : Ayat 101
فَبَشَّرْنَـٰهُ بِغُلَـٰمٍ حَلِيمٍ
(اس دعا کے جواب میں) ہم نے اس کو ایک حلیم (بردبار) لڑکے کی بشارت دی1
1 | اس سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ دعا کرتے ہی یہ بشارت دے دی گئی۔قرآن مجید ہی میں ایک دوسرے مقام پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ وَھَبَ لِیْ عَلَی ا لْکِبَرِ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ ’’شکر ہے اس خدا کا جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق عطا فرمائے‘‘ (سورہ ابراہیم ، آیت 39)۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور اس بشارت کے درمیان سالہا سال کا فصل تھا۔بائیبل کا بیان ہے کہ حضرت اسماعیلؑ کی پیدائش کے وقت حضرت ابراہیمؑ کی عمر 86 برس کی تھی (پیدائش 16:16)، اور حضرت اسحاق کی پیدائش کے وقت سو برس کی (61:5)۔ |