Ayats Found (7)
Surah 37 : Ayat 112
وَبَشَّرْنَـٰهُ بِإِسْحَـٰقَ نَبِيًّا مِّنَ ٱلصَّـٰلِحِينَ
اور ہم نے اسے اسحاقؑ کی بشارت دی، ایک نبی صالحین میں سے
Surah 6 : Ayat 84
وَوَهَبْنَا لَهُۥٓ إِسْحَـٰقَ وَيَعْقُوبَۚ كُلاًّ هَدَيْنَاۚ وَنُوحًا هَدَيْنَا مِن قَبْلُۖ وَمِن ذُرِّيَّتِهِۦ دَاوُۥدَ وَسُلَيْمَـٰنَ وَأَيُّوبَ وَيُوسُفَ وَمُوسَىٰ وَهَـٰرُونَۚ وَكَذَٲلِكَ نَجْزِى ٱلْمُحْسِنِينَ
پھر ہم نے ابراہیمؑ کو اسحاقؑ اور یعقوبؑ جیسی اولاد دی اور ہر ایک کو راہ راست دکھائی (وہی راہ راست جو) اس سے پہلے نوحؑ کو دکھائی تھی اور اُسی کی نسل سے ہم نے داؤدؑ، سلیمانؑ، ایوبؑ، یوسفؑ، موسیٰؑ اور ہارونؑ کو (ہدایت بخشی) اِس طرح ہم نیکو کاروں کو ان کی نیکی کا بدلہ دیتے ہیں
Surah 14 : Ayat 39
ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ ٱلَّذِى وَهَبَ لِى عَلَى ٱلْكِبَرِ إِسْمَـٰعِيلَ وَإِسْحَـٰقَۚ إِنَّ رَبِّى لَسَمِيعُ ٱلدُّعَآءِ
"شکر ہے اُس خدا کا جس نے مجھے اِس بڑھاپے میں اسماعیلؑ اور اسحاقؑ جیسے بیٹے دیے، حقیقت یہ ہے کہ میرا رب ضرور دعا سنتا ہے
Surah 19 : Ayat 49
فَلَمَّا ٱعْتَزَلَهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ وَهَبْنَا لَهُۥٓ إِسْحَـٰقَ وَيَعْقُوبَۖ وَكُلاًّ جَعَلْنَا نَبِيًّا
پس جب وہ اُن لوگوں سے اور اُن کے معبُودانِ غیر اللہ سے جُدا ہو گیا تو ہم نے اُس کو اسحاقؑ اور یعقوبؑ جیسی اولاد دی اور ہر ایک کو نبی بنایا
Surah 21 : Ayat 72
وَوَهَبْنَا لَهُۥٓ إِسْحَـٰقَ وَيَعْقُوبَ نَافِلَةًۖ وَكُلاًّ جَعَلْنَا صَـٰلِحِينَ
اور ہم نے اسے اسحاقؑ عطا کیا اور یعقوبؑ اس پر مزید1، اور ہر ایک کو صالح بنایا
1 | یعنی بیٹے کے بعد پوتا بھی ایسا ہوا جسے نبوت سے سرفراز کیا گیا |
Surah 21 : Ayat 73
وَجَعَلْنَـٰهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا وَأَوْحَيْنَآ إِلَيْهِمْ فِعْلَ ٱلْخَيْرَٲتِ وَإِقَامَ ٱلصَّلَوٲةِ وَإِيتَآءَ ٱلزَّكَوٲةِۖ وَكَانُواْ لَنَا عَـٰبِدِينَ
اور ہم نے اُن کو امام بنا دیا جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے اور ہم نے انہیں وحی کے ذریعہ نیک کاموں کی اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کی ہدایت کی، اور وہ ہمارے عبادت گزار تھے1
1 | حضرت ابراہیمؑ کی زندگی کے اس اہم واقعے کا بائیبل میں کوئی ذکر نہیں ہے ۔ بلکہ ان کی زندگی کے عراقی دور کا کوئی واقعہ بھی اس کتاب میں جگہ نہیں پاسکا ہے ۔ نمرود سے ان کی مد بھیڑ، باپ اور قوم سے ان کی کشمکش ، بت پرستی کے خلاف ان کی جدو جہد ، آگ میں ڈالے جانے کا قصہ ، اور بالآخر ملک چھوڑ نے پر مجبور ہونا ، ان میں سے ہر چیز بائیبل کی کتاب ’’پیدائش‘‘ کے مصنف کی نگاہ میں ناقابل التفات تھی۔ وہ صرف ان کی ہجرت کا ذکر کرتا ہے ، مگر وہ بھی اس انداز سے کہ جیسے ایک خاندان تلاش معاش میں ایک ملک چھوڑ کر دوسرے ملک میں جا کر آباد ہو رہا ہے ۔ قرآن اور بائیبل کا اس سے بھی زیادہ دلچسپ اختلاف یہ ہے کہ قرآن کے بیان کی رو سے حضرت ابراہیمؑ کا مشرک باپ ان پر ظلم کرنے میں پیش پیش تھا، اور بائیبل کہتی ہے کہ ان کا باپ خود اپنے بیٹوں ، پوتوں اور بہوؤں کو لے کر حاران میں جا بسا (باب 11 ۔ آیات 27 تا 32 )۔ اس کے بعد یکایک خدا حضرت ابراہیم سے کہتا ہے کہ تو حاران کو چھوڑ کر کنعان میں جا کرجابسا (باب ۱۱۔آیات ۲۷تا۳۲)۔اس کے بعد یکایک خدا حضرت ابرہیم سے کہتا ہے کہ تو حاران میں بس جا اور ’’ میں تجھے ایک بڑی قوم بناؤں گا اور برکت دوں گا اور تیرا نام سر فراز کروں گا، سو تو باعث برکت ہو، جو تجھے مبارک کہیں ان کو میں برکت دوں گا اور جو تجھ پر لعنت کرے اس پر میں لعنت کروں گا اور زمین کے سب قبیلے تیرے وسیلے سے برکت پائیں گے ‘‘ (باب 12 ۔ آیت 1 ۔3)۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اچانک حضرت ابراہیم پر یہ نظر عنایت کیوں ہو گئی ۔ تَلْمود میں البتہ سیرت ابراہیمی کے عراقی دور کی وہ بیشتر تفصیلات ملتی ہیں جو قرآن کے مختلف مقامات پر بیان ہوئی ہیں ۔ مگر دونوں کا تقابل کرنے سے نہ صرف یہ کہ قصے کے اہم اجزاء میں بین تفاوت نظر آتا ہے ، بلکہ ایک شخص صریح طور پر یہ محسوس کر سکتا ہے کہ تلمود کا بیان بکثرت بے جوڑ اور خلاف قیاس باتوں سے بھرا ہوا ہے اور اس کے برعکس قرآن بالکل منقح صورت میں حضرت ابراہیمؑ کے اہم واقعات زندگی کو پیش کرتا ہے جن میں کوئی لغو بات آنے نہیں پائی ہے ، توضیح مدعا کے لیے ہم یہاں تلمود کی داستاں کا خلاصہ پیش کرتے ہیں تاکہ ان لوگوں کی غلطی پوری طرح کھل جاۓ جو قرآن کو بائیبل اور یہودی لٹریچر کا خوشہ چیں قرار دیتے ہیں ۔ تلمود کا بیان ہے کہ حضرت ابراہیم کی پیدائش کے روز نجومیوں نے آسمان پر ایک علامت دیکھ کر نمرود کو مشورہ دیا تھا کہ تارح کے ہاں جو بچہ پیدا ہوا ہے اسے قتل کر دے ۔ چنانچہ وہ ان کے قتل کے درپے ہوا۔ مگر تارح نے اپنے ایک غلام کا بچہ ان کے بدلے میں دے کر انہیں بچا لیا۔ اس کے بعد تارح نے اپنی بیوی اور بچے کو ایک غار میں لے جا کر چھپا دیا جہاں 10 سال تک وہ رہے ۔ گیارھویں سال حضرت ابراہیم کو تارح نے حضرت نوحؑ کے پاس پہنچا دیا اور 39 سال تک وہ حضرت نوحؑ اور ان کے بیٹے سام کی تربیت میں رہے ۔ اسی زمانے میں حضرت ابراہیمؑ نےاپنی سگی بھتیجی سارہ سے نکاح کرلیاجو عمر میں ان سے ۴۲ سال چھوٹی تھی (بائیبل اس کی تصریح نہیں کرتی کہ سارہ حضرت کی بھتیجی تھی نیز وہ دونوں کے درمیان عمر کا فرق بھی صرف 10 سال بتاتی ہے ۔ پیدائش ۔ باب 11 ۔آیت 29 ۔ اور بابا 17 ۔ آیت 17 ) ۔ پھر تلمود کہتی ہے کہ حضرت ابراہیم پچاس سال کی عمر میں حضرت نوح کا گھر چھوڑ کر اپنے باپ کے ہاں آ گئے ۔ یہاں انہوں نے دیکھا کہ باپ بت پرست ہے اور گھر میں سال کے بارہ مہینوں کے حساب سے 12 بت رکھے ہیں ۔ انہوں نے پہلے تو باپ کو سمجھانے کی کوشش کی، اور جب اس کی سمجھ میں بات نہ آئی تو ایک روز موقع پاکر اس گھریلو بت خانے کے بتوں کو توڑ ڈالا ۔ تارح نے آ کر اپنے خداؤں کا یہ حال جو دیکھا تو سیدھا نمرودکے پاس پینچا اورشکایت کی کہ ۵۰ برس پہلے میرے ہاں جو لڑکا پیداہوا تھا آج اس نے میرے گھر میں حرکت کی ہے آپ اس کا فیصلہ کیجیے۔ نمرود نے بلا کر حضرت ابراہیم سے باز پرس کی۔ انہوں نے سخت جوابات دیے ۔ نمرود نے ان کو تو فوراً جیل بھیج دیا اور پھر معاملہ اپنی کونسل میں پیش کیا تاکہ صلاح مشورے سے اس مقدمے کا فیصلہ کیا جائے ۔ کونسل کے ارکان نے مشورہ دیا کہ اس شخص کو آگ میں جلا دیا جائے ۔ چنانچہ آگ کا ایک بڑا الاؤ تیار کرایا گیا اور حضرت ابراہیمؑ اس میں پھینک دیے گئے ۔ حضرت ابراہیمؑ کے ساتھ ان کے بھائی اور خسر، حاران کو بھی پھینکا گیا، کیونکہ نمرود نے تارح سے جب پوچھا کہ تیرے اس بیٹے کو تو میں پیدائش ہی کے روز قتل کرنا چاہتا تھا، تو نے اس وقت اسے بچا کر دوسرا بچہ کیوں اس کے بدلے قتل کرایا، تو اس نے کہا کہ میں نے حاران کے کہنے سے یہ حرکت کی تھی۔ اس لیے خود اس فعل کے مرتکب کو تو چھوڑ دیا گیا اور مشورہ دینے والے کو حضرت ابراہیمؑ کے ساتھ آگ میں پھینکا گیا۔ آگ میں گرتے ہی حاران فوراً جل بھن کر کوئلہ ہو گیا مگر حضرت ابراہیمؑ کو لوگوں نے دیکھا کہ ’’ آسمانی خدا کے بندے ، آگ سے نکل آ اور میرے سامنے کھڑا ہو جا‘‘۔ حضرت ابراہیم باہر آ گئے ۔ نمرود ان کا معتقد ہو گیا اور اس نے بہت سے قیمتی نذرانے ان کو دے کر رخصت کر دیا۔ اس کے بعد تلمود کے بیان کے مطابق حضرت ابراہیمؑ دو سال تک وہاں رہے ۔ پھر نمرود نے ایک ڈراؤنا خواب دیکھا اور اس کے نجومیوں نے اس کی تعبیر یہ بتائی کہ ابراہیم تیری سلطنت کی تباہی کا موجب بنے گا، اسے قتل کرا دے ۔ اس نے ان کے قتل کے لیے آدمی بھیجے ، مگر حضرت ابراہیمؑ کو خود نمرود ہی کے عطا کیے ہوئے ایک غلام ، الیعزر نے قبل از وقت اس منصوبے کی اطلاع دے دی اور حضرت ابراہیمؑ نے بھاگ کر حضرت نوح کے ہاں پناہ لی۔وہاں تارح آکر ان سے خفیہ طور پر ملتا رہا اور آخر باپ بیٹوں کی یہ صلاح ہوئی کہ ملک چھوڑ دیا جائے ۔ حضرت نوح اور سام نے بھی اس تجویز کو پسند کیا ۔ چنانچہ تارح اپنے بیٹے ابراہیم اور پوتے لوط اور پوتی اور بہو سارا کو لے کر اُر سے حارن چلا گیا۔ (منتخبات تلمو د از ایچ پولونو، لندن ۔ صفحہ 30 تا 42 ۔ )۔ کیا اس داستان کو دیکھ کر کوئی معقول آدمی یہ تصور کر سکتا ہے کہ یہ قرآن کا ماخذ ہو سکتی ہے ؟ |
Surah 29 : Ayat 27
وَوَهَبْنَا لَهُۥٓ إِسْحَـٰقَ وَيَعْقُوبَ وَجَعَلْنَا فِى ذُرِّيَّتِهِ ٱلنُّبُوَّةَ وَٱلْكِتَـٰبَ وَءَاتَيْنَـٰهُ أَجْرَهُۥ فِى ٱلدُّنْيَاۖ وَإِنَّهُۥ فِى ٱلْأَخِرَةِ لَمِنَ ٱلصَّـٰلِحِينَ
اور ہم نے اسے اسحاقؑ اور یعقوبؑ (جیسی اولاد) عنایت فرمائی1 اور اس کی نسل میں نبوت اور کتاب رکھ دی2، اور اسے دنیا میں اُس کا اجر عطا کیا اور آخرت میں وہ یقیناً صالحین میں سے ہو گا3
3 | مقصود بیان یہ ہےکہ بابِل کےوہ حکمراں اورپنڈت اورپرہت جنہوں نے ابراہیمؑ کی دعوت کونیچادکھانا چاہاتھا،اوراس کےوہ مشرک باشندے جنہوں نےآنکھیں بند کرکےان ظالموں کی پیروی کی تھی،وہ تودنیاسےمٹ گئےاورایسےمٹے کہ آج دنیامیں کہیں ان کانام ونشان تک باقی نہیں۔مگروہ شخص جسےاللہ کاکلمہ بلندکرنےکےجرم میں ان لوگوں نےجلاکرخاک کردینا چاہاتھا،اورجسےآخرکاربےسروسامانی کےعالم میں وطن سے نِکل جاناپڑاتھا،اس کواللہ تعالٰی نے یہ سرفرازی عطافرمائی کہ چارہزاربرس سےدنیامیں اس کانام روشن ہےاورقیامت تک رہےگا۔دنیا کےتمام مسلمان،عیسائی اوریہودی اُس خلیلِ ربّ العالمین کوبالاتفاق اپناپیشوامانتے ہیں۔دنیا کوان چالیس صدیوں میں جوکچھ بھی ہدایت کی روشنی میسرآئی ہےاسی ایک انسان اوراس کی پاکیزہ اولاد کی بدولت میسّرآئی ہے۔آخرت میں جواجرعظیم اس کو ملےگاوہ توملےگاہی،مگراِس دنیامیں بھی اس نے وہ عزّت پائی جوحصُولِ دنیاکےپیچھےجان کھپانے والوں میں سےکسی کوآج تک نصیب نہیں ہوئی۔ |
2 | اس میں وہ تمام انبیاءآگئے جونسلِ ابراہیمی کی سب شاخوں میں مبعوث ہوئےہیں۔ |
1 | حضرت اسحاقؑ بیٹے تھےاورحضرت یعقوبؑ پوتے۔یہاں حضرت ابراہیمؑ کےدوسرےبیٹوں کاذکراس لیےنہیں کیاگیا ہےکہ اولادِابراہیمؑ کی مدیافی شاخ میں صرف حضرت شعیبؑ مبعوث ہوئے،اوراسماعیلی شاخ میں سرکاررسالت مآب محمدصلی اللہ علیہ وسلم تک ڈھائی ہزارسال کی مدت میں کوئی نبی نہیں آیا۔اس کےبرعکس نبوت اورکتاب کی نعمت حضرت عیسٰی علیہ السلام تک مسلسل اُس شاخ کوعطا ہوتی رہی جوحضرت اسحاق علیہ السلام سےچلی تھی۔ |