Ayats Found (4)
Surah 11 : Ayat 76
يَـٰٓإِبْرَٲهِيمُ أَعْرِضْ عَنْ هَـٰذَآۖ إِنَّهُۥ قَدْ جَآءَ أَمْرُ رَبِّكَۖ وَإِنَّهُمْ ءَاتِيهِمْ عَذَابٌ غَيْرُ مَرْدُودٍ
(آخر کار ہمارے فرشتوں نے اس سے کہا) 1"اے ابراہیمؑ، اس سے باز آ جاؤ، تمہارے رب کا حکم ہو چکا ہے اور اب ان لوگوں پر وہ عذاب آکر رہے گا جو کسی کے پھیرے نہیں پھر سکتا"
1 | اس سلسلہ بیان میں حضرت ابراہیم کا یہ واقعہ خصوصاََ قوم لوطؑ کے قصّے کی تمحید کے طور پر بظاہر کچھ بے جوڑ سا محسوس ہوتا ہے۔مگرحقیقت میں یہ اس کی مناسبت سمجھنے کے لیے حسب ذیل دو باتوں کا پیش نظر رکھیے:
(۱) مخاطب قریش کے لوگ ہیں جو حضرت ابراہیمؑ کی اولاد ہونے کی وجہ ہی سے تمام عرب کے پیرزادے کعبتہ اللہ کے مجادراورمذہبی واخلاقی اور سیاسی و تمدنی پیشوائی کے مالک بنے ہوئے ہیں اور اس گھمنڈ میں مبتلا ہیں کہ ہم پر خدا کا غضب کیسے نازل ہو سکتا ہے جبکہ ہم خدا کے اس پیار سے بندے کی اولاد ہیں اور وہ خدا کے دربار میں ہماری سفارش کرنے کو موجود ہے اس پندارِغلط کو توڑنے کے لیے پہلے تو انہیں یہ منظر دکھایا گیا کہ حضرت نوحؑ جیسا عظیم الشان پیغبر اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے جگر گوشے کو ڈوبتے دیکھ رہا ہے اور تڑپ کر خدا سے دعا کرتا ہے کہ اس کے بیٹے کو بچا لیا جائے مگر صرف یہی نہیں کہ اس کی سفارش بیٹے کے کچھ کام نہیں آتی بلکہ اس سفارش پر باپ کواُلٹی ڈانٹ سننی پڑتی ہے اس کے بعد اب یہ دوسرا منظر خود حضرت ابراہیمؑ کا دکھایا جاتا ہے کہ ایک طرف تو ان پر بے پایاں عنایات ہیں اور نہایت پیار کے انداز میں ان کا ذکر ہو رہا ہے مگر دو سری طرف جب وہی ابراہیم خلیل انصاف کے معاملہ میں دخل دیتے ہیں تو ان کے اصرار دالحاج کے باوجود اللہ تعالٰی مجرم قوم کے معاملے میں ان کی سفارش کو رد کر دیتا ہے۔(۲) اس تقریر میں یہ بات بھی قریش کے ذہن نشین کرنی مقصود ہے کہ اللہ تعالٰی کا وہ قانون مکافات جس سے لوگ با لکل بے خوف اور مطمئن بیٹھے ہوئے تھے کس طرح تاریخ کے دوران میں تسلسل اور باقاعدگی کے ساتھ ظاہر ہوتا رہا ہے اور خود ان کے گردو پیش اس کے کیسے کھلے کھلے آثار موجود ہیں ایک طرف حضرت ابراہیم ہیں جو حق وصداقت کی خاطر گھر سے بے بے گھر ہو کر ایک اجنبی ملک میں مقیم میں اور بظاہر کوئی طاقت ان کے پاس نہیں ہے مگر اللہ تعالٰی ان کے حسن عمل کا یہ پھل ان کو دیتا ہے کہ بانجھ بیوی کے پیٹ سے بڑھاپے میں اسحاقؑ پیدا ہوتے ہیں پھر ان کے ہاں یعقوبؑ کی پیدائش ہوتی ہے اور ان سے بنی اسرائیل کی وہ عظیم الشان نسل چلتی ہے جس کی عظمت کے ڈنکےصدیوں تک اپسی فلسطین وشام میں بجتے رہے جہاں حضرت ابراہیم ایک بے خانماں مہاجر کی حیثیت سے آکر آباد ہوئے تھے دوسری طرف قوم لوطؑ ہے جو اسی سر زمین کے ایک حصہ میں اپنی خوشحالی پر مگن اور اپنی بدکاریوں کو وہ چٹکیوں میں اڑا رہی ہے مگر جس تاریخ کو ابراہیم کی نسل سے ایک بڑی اقبال مند قوم کے اٹھائے جانے کا فیصلہ کیا جاتا ہے ٹھیک وہی تاریخ ہے جب اس بدکار قوم کو دنیا سے نیست ونابود کرنے کا فرمان نافذ ہوتا ہے اور وہ ایسے عبرتناک طریقہ سے فنا کی جاتی ہے کہ آج اس کی بستیوں کا نشان کہیں ڈھونڈے نہیں ملتا |
Surah 11 : Ayat 81
قَالُواْ يَـٰلُوطُ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَن يَصِلُوٓاْ إِلَيْكَۖ فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ ٱلَّيْلِ وَلَا يَلْتَفِتْ مِنكُمْ أَحَدٌ إِلَّا ٱمْرَأَتَكَۖ إِنَّهُۥ مُصِيبُهَا مَآ أَصَابَهُمْۚ إِنَّ مَوْعِدَهُمُ ٱلصُّبْحُۚ أَلَيْسَ ٱلصُّبْحُ بِقَرِيبٍ
تب فرشتوں نے اس سے کہا کہ 1"اے لوطؑ، ہم تیرے رب کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں، یہ لوگ تیرا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے بس تو کچھ رات رہے اپنے اہل و عیال کو لے کر نکل جا اور دیکھو، تم میں سے کوئی شخص پیچھے پلٹ کر نہ دیکھے مگر تیر ی بیوی (ساتھ نہیں جائے گی) کیونکہ اس پر بھی وہی کچھ گزرنے والا ہے جو اِن لوگوں پر گزرنا ہے 2ان کی تباہی کے لیے صبح کا وقت مقرر ہے صبح ہوتے اب دیر ہی کتنی ہے!"
2 | یہ تیسرا عبرتناک واقعہ ہے جو اس سورہ میں لوگوں کو یہ سبق دینے کے لیے بیان کیا گیا ہے کہ تم کو کسی بزرگ کی رشتہ داری اور کسی بزرگ کی سفارش اپنے گناہوں کی پاداش سے نہیں بچا سکتی |
1 | جیسا کہ ابھی ہم بتا چکے ہیں، یہ دعا حضرت موسیٰ نے زمانۂ قیام مصر کے بالکل آخری زمانے میں کی تھی اور ا س وقت کی تھی جب پے دَر پے نشانات دیکھ لینے اور دین کی حجت پوری ہو جانے کے بعد بھی فرعون اور اس کے اعیان سلطنت حق کی دشمنی پر انتہائی ہٹ دھرمی کے ساتھ جمے رہے ۔ ایسے موقع پر پیغمبر جو بد دعا کرتا ہے وہ ٹھیک ٹھیک وہی ہوتی ہے جو کفر پر اصرار کر نے والوں کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے، یعنی یہ کہ پھر انہیں ایمان کی توفیق نہ بخشی جائے |
Surah 29 : Ayat 31
وَلَمَّا جَآءَتْ رُسُلُنَآ إِبْرَٲهِيمَ بِٱلْبُشْرَىٰ قَالُوٓاْ إِنَّا مُهْلِكُوٓاْ أَهْلِ هَـٰذِهِ ٱلْقَرْيَةِۖ إِنَّ أَهْلَهَا كَانُواْ ظَـٰلِمِينَ
اور جب ہمارے فرستادے ابراہیمؑ کے پاس بشارت لے کر پہنچے1 تو انہوں نے اُس سے کہا 2"ہم اِس بستی کے لوگوں کو ہلاک کرنے والے ہیں، اس کے لوگ سخت ظالم ہو چکے ہیں"
2 | ’’اِس بستی‘‘کااشارہ قومِ لوؑط کےعلاقے کی طرف ہے۔حضرت ابراہیمؑ اس وقت فلسطین کےشہرحَبْرون(موجودہ الخلیل)میں رہتےتھے۔اس شہرکےجنوب مشرق میں چند میل کےفاصلے پربحیرہ مردار(Dead Sea)کاوہ حصّہ واقع ہےجہاں پہلےقومِ لوط آباد تھی اوراب جس پربحیرہ کاپانی پھیلاہُواہے۔یہ علاقہ نشیب میں واقع ہےاورحبرون کی بلندپہاڑیوں پرسےصاف نظرآتاہے۔اسی لیےفرشتوں نےاس کی طرف اشارہ کرکےحضرت ابراہیمؑ سےعرض کیاکہ’’ہم اِس بستی کوہلاک کرنے والے ہیں‘‘۔(ملاحظہ ہوسورہٴشعراء حاشیہ ۱۱۴)۔ |
1 | سورہٴ ہود اورسورہٴ حجِرمیں اس کی تفصیل یہ بیان ہوئی ہےکہ جوفرشتےقوم لُوطؑ پرعذاب نازل کرنے کےلیےبھیجے گئےتھےوہ پہلےحضرت ابراہیمؑ کےپاس حاضرہوئےاورانہوں نے آنجناب کوحضرت اسحاقؑ کی اوران کےبعد حضرت یعقوبؑ کی پیدائش کی بشارت دی،پھریہ بتایاکہ ہمیں قوم لُوط کوتباہ کرنے کےلیےبھیجا گیاہے۔ |
Surah 29 : Ayat 34
إِنَّا مُنزِلُونَ عَلَىٰٓ أَهْلِ هَـٰذِهِ ٱلْقَرْيَةِ رِجْزًا مِّنَ ٱلسَّمَآءِ بِمَا كَانُواْ يَفْسُقُونَ
ہم اس بستی کے لوگوں پر آسمان سے عذاب نازل کرنے والے ہیں اُس فسق کی بدولت جو یہ کرتے رہے ہیں"