Ayats Found (29)
Surah 2 : Ayat 127
وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَٲهِــۧمُ ٱلْقَوَاعِدَ مِنَ ٱلْبَيْتِ وَإِسْمَـٰعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّآۖ إِنَّكَ أَنتَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْعَلِيمُ
اور یاد کرو ابراہیمؑ اور اسمٰعیلؑ جب اس گھر کی دیواریں اٹھا رہے تھے، تو دعا کرتے جاتے تھے: "اے ہمارے رب، ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے، تو سب کی سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے
Surah 3 : Ayat 34
ذُرِّيَّةَۢ بَعْضُهَا مِنۢ بَعْضٍۗ وَٱللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
یہ ایک سلسلے کے لوگ تھے، جو ایک دوسرے کی نسل سے پیدا ہوئے تھے اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے1
1 | مسیحیوں کی گمراہی کا تمام تر سبب یہ ہے کہ وہ مسیح کو بندہ اور رسول ماننے کے بجائے اللہ کا بیٹا اور الوہیّت میں اس کا شریک قرار دیتے ہیں۔ اگر ان کی یہ بنیادی غلطی رفع ہو جائے، تو اِسلام صحیح و خالص کی طرف ان کا پلٹنا بہت آسان ہو جائے۔ اسی لیے اس خطبے کی تمہید یُوں اُٹھائی گئی ہے کہ آدم ؑ اور نُوح ؑ اور آلِ ابراہیم ؑ اور آلِ عمران کے سب پیغمبر انسان تھے، ایک کی نسل سے دُوسرا پیدا ہوتا چلا آیا، ان میں سے کوئی بھی خدا نہ تھا، ان کی خصُوصیت بس یہ تھی کہ خد انے اپنے دین کی تبلیغ اور دُنیا کی اصلاح کے لیے ان کو منتخب فرمایا تھا |
Surah 2 : Ayat 137
فَإِنْ ءَامَنُواْ بِمِثْلِ مَآ ءَامَنتُم بِهِۦ فَقَدِ ٱهْتَدَواْۖ وَّإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّمَا هُمْ فِى شِقَاقٍۖ فَسَيَكْفِيكَهُمُ ٱللَّهُۚ وَهُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْعَلِيمُ
پھر اگر وہ اُسی طرح ایمان لائیں، جس طرح تم لائے ہو، تو ہدایت پر ہیں، اور اگراس سے منہ پھیریں، تو کھلی بات ہے کہ وہ ہٹ دھرمی میں پڑ گئے ہیں لہٰذا اطمینان رکھو کہ اُن کے مقابلے میں اللہ تمہاری حمایت کے لیے کافی ہے وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے
Surah 6 : Ayat 13
۞ وَلَهُۥ مَا سَكَنَ فِى ٱلَّيْلِ وَٱلنَّهَارِۚ وَهُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْعَلِيمُ
رات کے اندھیرے اور دن کے اجالے میں جو کچھ ٹھیرا ہوا ہے، سب اللہ کا ہے اور وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے
Surah 6 : Ayat 115
وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلاًۚ لَّا مُبَدِّلَ لِكَلِمَـٰتِهِۦۚ وَهُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْعَلِيمُ
تمہارے رب کی بات سچائی اور انصاف کے اعتبار سے کامل ہے، کوئی اس کے فرامین کو تبدیل کرنے والا نہیں ہے اور وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے
Surah 29 : Ayat 5
مَن كَانَ يَرْجُواْ لِقَآءَ ٱللَّهِ فَإِنَّ أَجَلَ ٱللَّهِ لَأَتٍۚ وَهُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْعَلِيمُ
جو کوئی اللہ سے ملنے کی توقع رکھتا ہو (اُسے معلوم ہونا چاہیے کہ) اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت آنے ہی والا ہے1، اور اللہ سب کچھ سُنتا اور جانتا ہے2
2 | یعنی اُن کو اس غلط فہمی میں بھی نہ رہنا چاہیے کہ ان کا سابقہ کسی شہ بے خبر سے ہے۔ جس خدا کے سامنے انہیں جواب دہی کے لیے حاضر ہونا ہے وہ نے خبر نہیں بلکہ سمیع و علیم خدا ہے، ان کی بات بھی اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے |
1 | یعنی جو شخص حیات اخروی کا قائل ہی نہ ہو اور یہ سمجھتا ہو کہ کوئی نہیں ہے جس کے سامنے ہمیں اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہو اور کوئی وقت ایسا نہیں آنا ہے جب ہم سے ہمارے کارنامہ زندگی کا محاسبہ کیا جائے، اس کا معاملہ تو دوسرا ہے۔ وہ اپنی غفلت میں پڑا رہے اور بے فکری کے ساتھ جو کچھ چاہے کرتا رہے۔ اپنا تیجہ اپنے اندازوں کے خلاف وہ خود دیکھ لے گا۔ لیکن جو لوگ یہ توقع رکھتے ہیں کہ ایک وقت ہمیں اپنے خدا کے حضور حاضر ہونا ہے اور اپنے اعمال کے مطابق جزا و سزا بھی پانی ہے، انہیں اس غلط فہمی میں نہ رہنا چاہیے کہ موت کا وقت کچھ بہت دور ہے۔ ان کو تو یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ بس قریب ہی آلگا ہے اور عمل کی مہلت ختم ہوا ہی چاہتے ہے۔ اس لیے جو کچھ بھی وہ اپنی عاقبت کی بھلائی کے لیے کر سکتے ہوں کرلیں۔ طول حیات کے بے بنیاد بھرو سے اپنی اصلاح میں دیر نہ لگائیں |
Surah 29 : Ayat 6
وَمَن جَـٰهَدَ فَإِنَّمَا يُجَـٰهِدُ لِنَفْسِهِۦٓۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَغَنِىٌّ عَنِ ٱلْعَـٰلَمِينَ
جو شخص بھی مجاہدہ کریگا اپنے ہی بھلے کے لیے کرے گا1، اللہ یقیناً دنیا جہان والوں سے بے نیاز ہے2
2 | یعنی اللہ تعالی اس مجاہدہ کا مطالبہ تم سے اس لیے نہیں کر رہا ہے کہ خدائی قائم کرنے اور قائم رکھنے کے لیے اسے تمہاری کسی مدد کی ضرورت ہے اور تمہاری اس لڑائی کے بغیر اس کی خدائی نہ چلے گی۔ بلکہ وہ اس لیے تمہیں اس کش مکش اور صداقت کی راہ بڑھ سکتے ہو اسی سے تم میں یہ طاقت پیدا ہو سکتی ہے کہ دینا میں خیر و صلاح کے عملبر دار اور آخرت میں خدا کی جنت کے حق دار بنو۔ تم یہ لڑائی لڑ کر خدا پر کوئی احسان نہ کرو گے اپنا ہی بھلا کرو گے۔ |
1 | مجاہدہ کے معنی کسی مخالف طاقت کے مقابلہ میں کش مکش اور جدوجہد کرنے کے ہیں اور جب کسی خاص مخالف کی نشان دہی نہ کی جائے بلکہ مطلقا مجاھدہ کا لفظ استعمال کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ ایک ہمہ گیر اور ہر جہتی کش مکش ہے۔ مومن کو اس دینا میں جو کش مکش کرنی ہے اس کی نوعیت یہی کچھ ہے۔ اسے شیطان سے بھی لڑنا ہے جو اس کو ہر آن نیکی کے نقصانات سے ڈراتا اور بدی کے فائدوں اور لذتوں کا لالچ دلاتا رہتا ہے۔ اپنے نفس سے بھی لڑنا ہے جو اسے ہر وقت اپنی خواہشات کا غلام بنانے کے لیے زور لگاتا رہتا ہے۔ اپنے گھر سے لے کر آفاق تک کے اُن تمام انسانوں سے بھی لڑنا ہے جن کے نظریات، رُحجات، اُصول اخلاق رسم ورواج طرز تمدن اور قوانین معشیت و معاشرت دین حق سے متصادم ہوں۔ اور اُس ریاست سے بھی لڑنا ہے جو خدا کی فرمانبرداری سے آزاد رہ کر اپنا فرمان چلائے اور نیکی کے بجائے بدی کو فروغ دینے میں اپنی قوتیں صرف کرے۔ یہ مجاہدہ ایک دن دو دن کا نہیں عمر بھر کا اور دن کے چوبیس گھٹنوں میں سے ہر لمحہ کا ہے۔ اور کسی ایک میدان میں نہیں زندگی کے ہر پہلو میں ہر محاذ پر ہے۔ اسی کے متعلق حضرت حسن بصری فرماتے ہیں ان الرجل لیجاھد وماا ضرب یوما من الدھر بسیف۔ آدمی جہاد کرتا ہے خواہ کبھی ایک دفعہ بھی وہ تلوار نہ چلائے |
Surah 5 : Ayat 76
قُلْ أَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًاۚ وَٱللَّهُ هُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْعَلِيمُ
اِن سے کہو، کیا تم اللہ کو چھوڑ کر اُس کی پرستش کرتے ہو جو نہ تمہارے لیے نقصان کا اختیار رکھتا ہے نہ نفع کا؟ حالانکہ سب کی سننے والا اور سب کچھ جاننے والا تو اللہ ہی ہے
Surah 8 : Ayat 61
۞ وَإِن جَنَحُواْ لِلسَّلْمِ فَٱجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى ٱللَّهِۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْعَلِيمُ
اور اے نبیؐ، اگر دشمن صلح و سلامتی کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کے لیے آمادہ ہو جاؤ اور اللہ پر بھروسہ کرو، یقیناً وہی سننے اور جاننے والا ہے
Surah 12 : Ayat 34
فَٱسْتَجَابَ لَهُۥ رَبُّهُۥ فَصَرَفَ عَنْهُ كَيْدَهُنَّۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْعَلِيمُ
اس کے رب نے اس کی دعا قبول کی اور اُن عورتوں کی چالیں اس سے دفع کر دیں1، بے شک وہی ہے جو سب کی سنتا اور سب کچھ جانتا ہے
1 | دفع کرنا اس معنی میں ہے کہ یوسف علیہ السلام کی سیرت صالحہ کو ایسی مضبوط بخش دی گئی جس کے مقابلہ میں ان عورتوں کی ساری تدبیر یں ناکام ہو کر رہ گئیں۔ نیز اس معنی میں بھی ہے کہ مشیت الہٰی نے جیل کا دروازہ ان کے لیے کھلوادیا |