Ayats Found (7)
Surah 11 : Ayat 69
وَلَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُنَآ إِبْرَٲهِيمَ بِٱلْبُشْرَىٰ قَالُواْ سَلَـٰمًاۖ قَالَ سَلَـٰمٌۖ فَمَا لَبِثَ أَن جَآءَ بِعِجْلٍ حَنِيذٍ
اور دیکھو، ابراہیمؑ کے پاس ہمارے فرشتے خوشخبری لیے ہوئے پہنچے کہا تم پر سلام ہو ابراہیمؑ نے جواب دیا تم پر بھی سلام ہو پھر کچھ دیر نہ گزری کہ ابراہیمؑ ایک بھنا ہوا بچھڑا (ان کی ضیافت کے لیے) لے آیا1
1 | اس سے معلوم ہوا کہ فرشتے حضرت ابراہیم ؑ کے ہاں انسانی صورت میں پہنچے تھے اور ابتداءً انہوں نے اپنا تعارف نہیں کرایا تھا۔ اس لیے حضرت ابراہیم ؑ نے خیال کیا کہ یہ کوئی اجنبی مہمان ہیں اور ان کے آتے ہی فورًا ان کی ضیافت کا انتظا م فرمایا |
Surah 11 : Ayat 73
قَالُوٓاْ أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ ٱللَّهِۖ رَحْمَتُ ٱللَّهِ وَبَرَكَـٰتُهُۥ عَلَيْكُمْ أَهْلَ ٱلْبَيْتِۚ إِنَّهُۥ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ
فرشتوں نے کہا 1"اللہ کے حکم پر تعجب کرتی ہو؟ ابراہیمؑ کے گھر والو، تم لوگوں پر تو اللہ کی رحمت اور اُس کی برکتیں ہیں، اور یقیناً اللہ نہایت قابل تعریف اور بڑی شان والا ہے"
1 | مطلب یہ ہے کہ اگرچہ عادۃََ اس عمر میں انسان کے ہاں اولاد نہیں ہوا کرتی لیکن اللہ کی قدرت سے ایسا ہونا کچھ بعید بھی نہیں ہے اور جب کہ یہ خوشخبری تم کو اللہ کی طرف سے دی جا رہی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ تم جیسی ایک مومنہ اس پر تعجب کرے |
Surah 15 : Ayat 51
وَنَبِّئْهُمْ عَن ضَيْفِ إِبْرَٲهِيمَ
اور انہیں ذرا ابراہیمؑ کے مہمانوں کا قصہ سناؤ1
1 | یہاں حضرت ابراہیم اور ان کے بعد متصلًا قوم لوط کا قصہ جس غرض کے لیے سنایا جا رہا ہے اُس کو سمجھنے کے لیے اس سورۃ کی ابتدائی آیات کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے ۔ آیات ۷ -۸ میں کفار ِ مکّہ کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے کہ ”اگر تم سچے نبی ہو تو ہمارے سامنے فرشتوں کو لے کیوں نہیں آتے؟“ اس کا مختصر جواب وہاں صرف اِس قدر دے کر چھوڑ دیا گیا تھا کہ ”فرشتوں کو ہم یوں ہی نہیں اُتار دیا کرتے ، انہیں تو ہم جب بھیجتے ہیں حق کے ساتھ ہی بھیجتے ہیں“۔ اب اُس کا مفصل جواب یہاں اِن دونوں قصّوں کے پیرائے میں دیا جا رہا ہے۔ یہاں اُنہیں بتایا جا رہا ہے کہ ایک ”حق“ تو وہ ہے جسے لے کر فرشتے ابراہیم کے پاس آئے تھے، اور دوسرا حق وہ ہے جسے لے کر وہ قومِ لوط پر پہنچے تھے۔ اب تم خود دیکھ لو کہ تمہارے پاس اِن میں سے کونسا حق لے کر فرشتے آسکتے ہیں۔ ابراہیم والے حق کے لائق تو ظاہر ہے کہ تم نہیں ہو۔ اب کیا اُس حق کے ساتھ فرشتوں کو بلوانا چاہتے ہو جسے لے کر وہ قومِ لوط کے ہاں نازل ہو ئے تھے |
Surah 15 : Ayat 56
قَالَ وَمَن يَقْنَطُ مِن رَّحْمَةِ رَبِّهِۦٓ إِلَّا ٱلضَّآلُّونَ
ابراہیمؑ نے کہا "اپنے رب کی رحمت سے مایوس تو گمراہ لوگ ہی ہوا کرتے ہیں"
Surah 37 : Ayat 101
فَبَشَّرْنَـٰهُ بِغُلَـٰمٍ حَلِيمٍ
(اس دعا کے جواب میں) ہم نے اس کو ایک حلیم (بردبار) لڑکے کی بشارت دی1
1 | اس سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ دعا کرتے ہی یہ بشارت دے دی گئی۔قرآن مجید ہی میں ایک دوسرے مقام پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ وَھَبَ لِیْ عَلَی ا لْکِبَرِ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ ’’شکر ہے اس خدا کا جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق عطا فرمائے‘‘ (سورہ ابراہیم ، آیت 39)۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور اس بشارت کے درمیان سالہا سال کا فصل تھا۔بائیبل کا بیان ہے کہ حضرت اسماعیلؑ کی پیدائش کے وقت حضرت ابراہیمؑ کی عمر 86 برس کی تھی (پیدائش 16:16)، اور حضرت اسحاق کی پیدائش کے وقت سو برس کی (61:5)۔ |
Surah 51 : Ayat 24
هَلْ أَتَـٰكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْرَٲهِيمَ ٱلْمُكْرَمِينَ
اے نبیؐ،1 ابراہیمؑ کے معزز مہمانوں کی حکایت بھی تمہیں پہنچی ہے؟2
2 | یہ قصہ قرآن مجید میں تین مقامات پرپہلے گزر چکا ہے۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، ص 353 تا 355، 509 تا 511۔ جلد سوم، ص 696 |
1 | اب یہاں سے رکوع دوم کے اختتام تک انبیاء علیہم السلام اور بعض گزشتہ قوموں کے انجام کی طرف پے در پے مختصر اشارات کیے گۓ ہیں جن سے دو باتیں ذہن نشین کرانی مقصود ہیں۔ ایک یہ کہ انسانی تاریخ میں خدا کا قانون مکافات برابر کام کرتا رہا ہے جس میں نیکو کاروں کے لیے انعام اور ظالموں کے لیے سزا کی مثالیں مسلسل پائی جاتی ہیں۔ یہ اس بات کی کھلی علامت ہے کہ دنیا کی اس زندگی میں بھی انسان کے ساتھ اس کے خالق کا معاملہ صرف قوانین طبیعی(Physical Law) پر مبنی نہیں ہے بلکہ اخلاقی قانون (Moral Law) اس کے ساتھ کر فرما ہے۔ اور جب سلطنت کائنات کا مزاج یہ ہے کہ جس مخلوق کو جسم طبیعی میں رہ کر اخلاقی اعمال کا موقع دیا گیا ہو اس کے ساتھ حیوانات و نباتات کی طرح محض طبیعی قوانین پر معاملہ نہ کیا جاۓ بلکہ اس کے اخلاقی اعمال پر اخلاقی قانون بھی نافذ کیا جاۓ، تو یہ بات بجاۓ خود اس حقیقت کی صاف نشاندہی کرتی ہے کہ اس سلطنت میں ایک وقت ایسا ضرور آنا چاہیے جب اس طبیعی دنیا میں انسان کا کام ختم ہو جانے کے بعد خالص اخلاقی قانون کے مطابق اس کے اخلاقی اعمال کے نتائج پوری طرح برآمد ہوں، کیونکہ اس طبیعی دنیا میں وہ مکمل طور پر برآمد نہیں ہو سکتے۔ دوسری بات جو ان تاریخی اشارات سے ذہن نشین کرائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ جن قوموں نے بھی ابنیاء علیہم السلام کی بات نہ مانی اور پانی زندگی کا پورا رویہ توحید،رسالت اور آخرت کے انکار پر قائم کیا وہ آخر کار ہلاکت کی مستحق ہو کر رہیں۔ تاریخ کا یہ مسلسل تجربہ اس بات پر شاہد ہے کہ خدا کا قانون اخلاق جو انبیاء کے ذریعہ دیا گیا، اور اس کے مطابق انسانی اعمال کی باز پرس جو آخرت میں ہوئی ہے، سراسر مبنی بر حقیقت ہے کیونکہ جس قوم نے بھی اس قانون سے بے نیاز ہو کر اپنے آپ کو غیر ذمہ دار اور غیر جواب دہ سمجھتے ہوۓ دنیا میں اپنا رویہ متعین کیا ہے وہ آخر کار سیدھی تباہی کی طرف گئی ہے |
Surah 51 : Ayat 30
قَالُواْ كَذَٲلِكِ قَالَ رَبُّكِۖ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلْحَكِيمُ ٱلْعَلِيمُ
انہوں نے کہا 1"یہی کچھ فرمایا ہے تیرے رب نے، وہ حکیم ہے اور سب کچھ جانتا ہے"
1 | اس قصے سے یہ بتانا مقصود ہے کہ جس بندے نے اپنے رب کی بندگی کا حق دنیا میں ٹھیک ٹھیک ادا کیا تھا، اس کے ساتھ عقبیٰ میں تو جو معاملہ ہوگا سو ہوگا، اسی دنیا میں اس کے یہ انعام دیا گیا کہ عام قوانین طبیعت کی رو سے جس عمر میں اس کے ہاں اولاد پیدا نہ ہو سکتی تھی، او ر اس کی سن رسیدہ بیوی تمام عمر بے اولاد رہ کر اس طرف سے قطعی مایوس ہو چکی تھی، اس وقت اللہ نے اسے نہ صرف اولاد دی بلکہ ایسی بے نظیر اولاد دی جو آج تک کسی کو نصیب نہیں ہوئی ہے۔ دنیا میں کوئی دوسرا انسان ایسا نہیں ہے جس کی نسل میں مسلسل چار انبیاء پیدا ہوۓ ہوں۔ وہ صرف حضرت ابراہیم ہی تھے جن کے ہاں تین پشت تک نبوت چلتی رہی اور حضرت اسماعیل، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب اور حضرت یوسف علیہم السلام جیسے جلیل القدر نبی ان کے گھرانے سے اٹھے |