Ayats Found (2)
Surah 2 : Ayat 258
أَلَمْ تَرَ إِلَى ٱلَّذِى حَآجَّ إِبْرَٲهِــۧمَ فِى رَبِّهِۦٓ أَنْ ءَاتَـٰهُ ٱللَّهُ ٱلْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَٲهِــۧمُ رَبِّىَ ٱلَّذِى يُحْىِۦ وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا۟ أُحْىِۦ وَأُمِيتُۖ قَالَ إِبْرَٲهِــۧمُ فَإِنَّ ٱللَّهَ يَأْتِى بِٱلشَّمْسِ مِنَ ٱلْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ ٱلْمَغْرِبِ فَبُهِتَ ٱلَّذِى كَفَرَۗ وَٱللَّهُ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلظَّـٰلِمِينَ
کیا تم نے اُس شخص کے حال پر غور نہیں کیا، جس نے ابراہیمؑ سے جھگڑا کیا تھا1؟ جھگڑا اِس بات پر کہ ابراہیمؑ کا رب کون ہے، اور اس بنا پر کہ اس شخص کو اللہ نے حکومت دے رکھی تھی2 جب ابراہیمؑ نے کہا کہ 3"میرا رب وہ ہے، جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہے، تو اُس نے جواب دیا: "زندگی اور موت میرے اختیار میں ہے"ابراہیمؑ نے کہا: "اچھا، اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، تو ذرا اُسے مغرب سے نکال لا" یہ سن کر وہ منکر حق ششدر رہ گیا، مگر اللہ ظالموں کو راہ راست نہیں دکھایا کرتا
3 | اگرچہ حضرت ابراہیم ؑ کے پہلے فقرے ہی سے یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ ربّ اللہ کےسوا کوئی دُوسرا نہیں ہوسکتا، تاہم نمرُود اس کا جواب ڈھٹائی سے دے گیا۔ لیکن دُوسرے فقرے کے بعد اس کے لیے مزید ڈھٹائی سے کچھ کہنا مشکل ہو گیا۔ وہ خود بھی جانتا تھا کہ آفتاب و ماہتاب اُسی خدا کے زیرِ فرمان ہیں، جس کو ابراہیم ؑ نے ربّ مانا ہے۔ پھر وہ کہتا، تو آخر کیا کہتا؟ مگر اس طرح جو حقیقت اس کے سامنے بے نقاب ہو رہی تھی ، اس کو تسلیم کر لینے کے معنی اپنی مطلق العنان فرماں روائی سے دست بردار ہو جانے کے تھے، جس کے لیے اس کے نفس کا طاغوت تیار نہ تھا۔ لہٰذا وہ صرف ششدر ہی ہو کر رہ گیا، خود پرستی کی تاریکی سے نِکل کر حق پرستی کی روشنی میں نہ آیا۔ اگر اس طاغوت کے بجائے اس نے خدا کو اپنا ولی و مددگار بنایا ہوتا ، تو اس کے لیے حضرت ابراہیم ؑ کی اس تبلیغ کے بعد راہِ راست کھُل جاتی ۔ تلموُد کا بیان ہے کہ اس کے بعد اس بادشاہ کے حکم سے حضرت ابراہیم ؑ قید کر دیے گئے۔ دس روز تک وہ جیل میں رہے۔ پھر بادشاہ کی کونسل نے اُن کوزندہ جلانے کا فیصلہ کیا اور ان کے آگ میں پھینکے جانے کا وہ واقعہ پیش آیا، جو سُورہ انبیاء ، رکوع ۵، العنکبوت، رکوع ۳-۲، اور الصافّات، رکوع ۴ میں بیان ہوا ہے |
2 | یعنی اس جھگڑنے میں جو بات ما بِہ ِ النّزاع تھی، وہ یہ تھی کہ ابراہیم ؑ اپنا ربّ کس کو مانتے ہیں۔ اور یہ نزاع اس وجہ سے پیدا ہوئی تھی کہ اُس جھگڑنے والے شخص، یعنی نمرود کو خدا نے حکومت عطا کر رکھی تھی۔ اِن دو فقروں میں جھگڑے کی نوعیّت کی طرف جو اشارہ کیا گیا ہے، اس کو سمجھنے کے لیے حسبِ ذیل حقیقتوں پر نگاہ رہنی ضروری ہے: (۱) قدیم ترین زمانے سے آج تک تمام مشرک سوسائیٹیوں کی یہ مشترک خصُوصیّت رہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو ربّ الارباب اور خدائے خدائیگان کی حیثیت سے تو مانتے ہیں، مگر صرف اسی کو ربّ اور تنہا اُسی کو خدا اور معبُود نہیں مانتے۔ (۲)خدائی کو مشرکین نے ہمیشہ دو حصّوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک فوق الفطری (Supernatural ) خدائی، جو سلسلہء اسباب پر حکمراں ہے اور جس کی طرف انسان اپنی حاجات اور مشکلات میں دستگیری کے لیے رُجوع کرتا ہے ۔ اس خدائی میں وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اَرواح اور فرشتوں اور جِنوں اور سیّاروں اور دُوسری بہت سی ہستیوں کو شریک ٹھیراتے ہیں ، ان سے دُعائیں مانگتے ہیں، ان کے سامنے مراسِم پرستش بجا لاتے ہیں، اور ان کے آستانوں پر نذر و نیاز پیش کرتے ہیں۔ دوسری تمدّنی اور سیاسی معاملات کی خدائی( یعنی حاکمیّت)، جو قوانینِ حیات مقرر کر نے کی مجاز اور اطاعتِ امر کی مستحق ہو، اور جسے دُنیوی معاملات میں فرماں روائی کے مطلق اختیارات حاصل ہوں۔ اِس دُوسری قسم کی خدائی کو دُنیا کے تمام مشرکین نے قریب قریب ہر زمانے میں اللہ تعالیٰ سے سلب کر کے، یا اس کے ساتھ، شاہی خاندانوں اور مذہبی اور سوسائیٹی کے اگلے پچھلے بڑوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ اکثر شاہی خاندان اِسی دُوسرے معنی میں خدائی کے مدّعی ہوئے ہیں ، اور اسے مستحکم کرنے کے لیے اُنہوں نے بالعموم پہلے معنی والے خدا ؤ ں کی اولاد ہونے کا دعویٰ کیا ہے، اور مذہبی طبقے اس معاملے میں ان کے ساتھ شریک ِ سازش رہے ہیں۔ (۳) نمرود کا دعوائے خدائی بھی اسی دُوسری قسم کا تھا۔ وہ اللہ تعالیٰ کے وجود کا منکر نہ تھا۔ اس کا دعویٰ یہ نہیں تھا کہ زمین و آسمان کا خالق اور کائنات کا مدبّر وہ خود ہے۔ اس کا کہنا یہ نہیں تھا کہ اسبابِ عالم کے پُورے سلسلے پر اسی کی حکومت چل رہی ہے۔ بلکہ اسے دعویٰ اس امر کا تھا کہ اِس ملکِ عراق کا اور اس کے باشندوں کا حاکمِ مطلق مَیں ہوں، میری زبان قانون ہے، میرے اوپر کوئی بالاتر اقتدار نہیں ہے جس کے سامنے میں جواب دہ ہوں، اور عراق کا ہر وہ باشندہ باغی و غدّار ہے جو اس حیثیت سے مجھے اپنا ربّ نہ مانے یا میرے سوا کسی اَور کو ربّ تسلیم کرے۔ (۴) ابراہیم ؑ نے جب کہا کہ میں صرف ایک ربّ العالمین ہی کو خدا اور معبُود اور ربّ مانتا ہوں، اور اس کے سوا سب کو خدائی اور ربوبیّت کا قطعی طور پر منکر ہوں، تو سوال صرف یہی پیدا نہیں ہوا کہ قومی مذہب اور مذہبی معبُودوں کے بارے میں ان کا یہ نیا عقیدہ کہاں تک قابلِ برداشت ہے، بلکہ یہ سوال بھی اُٹھ کھڑا ہوا کہ قومی ریاست اور اس کے مرکزی اقتدار پر اس عقیدے کی جو زَد پڑتی ہے، اُسے کیونکر نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ جُرمِ بغاوت کے الزام میں نمرُود کے سامنے پیش کیے گئے |
1 | اس شخص سے مُراد نمرُود ہے، جو حضرت ابراہیم ؑ کے وطن(عراق) کا بادشاہ تھا۔ جس واقعے کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے ، اس کی طرف کوئی اشارہ بائیبل میں نہیں ہے۔ مگر تَلْموُد میں یہ پُورا واقعہ موجود ہے اور بڑی حد تک قرآن کے مطابق ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کا باپ نمرُود کے ہاں سلطنت کے سب سے بڑے عہدے دار (Chief Officer Of The State ) کا منصب رکھتا تھا۔ حضرت ابراہیم ؑنے جب کھُلم کھُلا شرک کی مخالفت اور توحید کی تبلیغ شرُوع کی اور بُت خانے میں گھُس کر بُتوں کو توڑ ڈالا، تو اُن کے باپ نے خود ان کا مقدمہ بادشاہ کے دربار میں پیش کیا اور پھر وہ گفتگو ہُوئی ، جو یہاں بیان کی گئی ہے |
Surah 37 : Ayat 99
وَقَالَ إِنِّى ذَاهِبٌ إِلَىٰ رَبِّى سَيَهْدِينِ
ابراہیمؑ نے کہا1 "میں اپنے رب کی طرف جاتا ہوں2، وہی میری رہنمائی کرے گا
2 | اس کا مطلب یہ ہے کہ میں اللہ کی خاطر نکل رہا ہوں کیونکہ اسی کا ہو جانے کی وجہ سے میری قوم میری دشمن ہو گئی ہے ورنہ کوئی دنیوی جھگڑا میرے اور اس کے درمیان نہ تھا کہ اس کی بنا پر مجھے اپنا وطن چھوڑنا پڑ رہا ہو۔نیز یہ کہ میرا دنیا میں کوئی ٹھکانا نہیں ہے جس کا رخ کروں۔تن بتقدیر بس اللہ کے بھروسے پر نکل رہا ہوں۔جدھر وہ لے جائے گا اسی طرف چلا چاؤں گا۔ |
1 | یعنی آگ سے بسلامت نکل آنے کے بعد جب حضرت ابراہیمؑ نے ملک سے نکل جانے کا فیصلہ کیا تو چلتے وقت یہ الفاظ کہے |