Ayats Found (5)
Surah 21 : Ayat 57
وَتَٱللَّهِ لَأَكِيدَنَّ أَصْنَـٰمَكُم بَعْدَ أَن تُوَلُّواْ مُدْبِرِينَ
اور خدا کی قسم میں تمہاری غیر موجودگی میں ضرور تمہارے بتوں کی خبر لوں گا1"
1 | یعنی اگر تم استدلال سے بات نہیں سمجھتے ہو تو میں عملاً تمہیں مشاہدہ کرا دوں گا کہ یہ بے بس ہیں ، ان کے پاس کچھ بھی اختیارات نہیں ہیں ، اور ان کو خدا بنانا غلط ہے ۔ رہی یہ بات کہ عملی تجربے اور مشاہدے سے یہ بات وہ کس طرح ثابت کریں گے ، تو اس کی کوئی تفصیل حضرت ابراہیمؑ نے اس موقع پر نہیں بتائی |
Surah 21 : Ayat 71
وَنَجَّيْنَـٰهُ وَلُوطًا إِلَى ٱلْأَرْضِ ٱلَّتِى بَـٰرَكْنَا فِيهَا لِلْعَـٰلَمِينَ
اور ہم نے اُسے اور لوطؑ کو بچا کر اُس سرزمین کی طرف لے گئے جس میں ہم نے دنیا والوں کے لیے برکتیں رکھی ہیں12
2 | یعنی شام و فلسطین کی سر زمین۔ اس کی برکتیں مادی بھی ہیں اور روحانی بھی ۔ مادی حیثیت سے وہ دنیا کے زر خیز ترین علاقوں میں سے ہے ۔ اور روحانی حیثیت سے وہ 2 ہزار برس تک انبیاء علیہم السلام کا مہبط رہی ہے ۔ دنیا کے کسی دوسرے خطے میں اتنی کثرت سے انبیاء مبعوث نہیں ہوۓ ہیں |
1 | یعنی شام و فلسطین کی سر زمین۔ اس کی برکتیں مادی بھی ہیں اور روحانی بھی ۔ مادی حیثیت سے وہ دنیا کے زر خیز ترین علاقوں میں سے ہے ۔ اور روحانی حیثیت سے وہ 2 ہزار برس تک انبیاء علیہم السلام کا مہبط رہی ہے ۔ دنیا کے کسی دوسرے خطے میں اتنی کثرت سے انبیاء مبعوث نہیں ہوۓ ہیں |
Surah 29 : Ayat 24
فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِۦٓ إِلَّآ أَن قَالُواْ ٱقْتُلُوهُ أَوْ حَرِّقُوهُ فَأَنجَـٰهُ ٱللَّهُ مِنَ ٱلنَّارِۚ إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَأَيَـٰتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
پھر 1اُس کی قوم کا جواب اِس کے سوا کچھ نہ تھا کہ انہوں نے کہا "قتل کر دو اِسے یا جلا ڈالو2 اِس کو" آخر کار اللہ نے اسے آگ سے بچا لیا3، یقیناً اس میں نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لانے والے ہیں4
4 | یعنی اہل ایمان کے لیے نشایناں ہیں اس بات میں کہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام نے خاندان قوم اور ملک کے مذہب کی پیروی کرنے کے بجائے اس علم حق کی جس کی رو سے انہیں معلوم ہو گیا تھا کہ شرک باطل ہے اور توحید ہی حقیقت ہے۔ اور اس بات میں کہ وہ قوم کی ہٹ دھرمی اور اس کے شدید تعصب کی پروا کیے بغیر اس کو باطل سے باز آجانے اور حق قبول کر لینے کے لیے پیہیم تبلیغ کرتے رہے۔ اور اس بات میں کہ وہ آگ کی ہولناک سزا برداشت کرنے کے لیے تیار ہوگئے مگر صداقت سے منہ موڑنے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ اور اس بات میں کہ اللہ تعالی نے ابراہیم خلیل علیہ اسلام تک آزمائشوں سے گزارے بغیر نہ چھوڑا۔ اور اس بات میں کہ حضرت ابراہیمؑ اللہ کے ڈالے ہوئے امتحان سے کامیابی کے ساتھ گزر گئے تب اللہ کی مدد ان کے لیے آئی اور ایسے معجزانہ طریقہ سے آئی کہ آگ کا الاؤ ان کے لیے ٹھنڈا کر دیا گیا |
3 | اس فقرے سے خود بخود یہ بات نکلتی ہے کہ ان لوگوں نے آخر کار حضرت ابراہیمؑ جلانے کا فیصلہ کیا تھا اور وہ آگ میں پھنیک دیے گئے تھے۔ یہاں بات اتنی کہی گئی ہے کہ اللہ تعالی نے ان کو آگ سے بچا لیا لیکن سورۃ الابنیاء میں صراحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے کہ آگ اللہ تعالی کے حکم سے حضرت ابراہیمؑ کے لیے ٹھنٹدی اور غیر مضر ہو گئی، قُلناَ یٰنَارُ کُونیِ بَردا وَ سَلاَ عَلٰی اِبرٰھِیمَ (آیت ۶۹)۔ ہم نے کہا اے آگ ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا ابراہیمؑ پر۔ ظاہر ہے کہ اگر اُن کو آگ میں پھینکا ہی نہ گیا ہو تو آگ کو یہ حکم دینے کے کوئی معنی نہیں ہیں کہ تو ان پر ٹھنڈی ہو جا اور ان کے لیے سلامتی بن جا۔ اس سے یہ بات طور پر ثابت ہوتی ہے کہ تمام اشیاء کی خاصتیں اللہ تعالی کے حکم پر منبی ہیں، اور وہ جس وقت جس چیز کی خاصیت کو چاہے بدل سکتا ہے۔ معمول کے مطابق آگ کا عمل یہی ہے کہ وہ جلائے اور ہر آتش پذیر چیز اس میں پڑ کر جل جائے۔ لیکن آگ کا یہ معمول اس کا اپنا قائم کیا ہُوا نہیں ہے بلکہ خدا کا قائم کیا ہُوا ہے۔ اور اس نے خدا کو پابن نہیں کر دیا ہے کہ وہ اس کے خلاف کوئی حکم نہ دے سکے۔ وہ اپنی آگ کا مالک ہے۔ کسی وقت بھی وہ اسے حکم دے سکتا ہے کہ وہ جلانے کا عمل چھوڑ دے۔ کسی وقت بھی وہ اپنے ایک اشارہ سے آتش کدے کو گلزار میں تبدیل کر سکتا ہے۔ یہ غیر معمولی خرق عادت اس کے ہاں روز روز نہیں ہوتے۔ کسی بڑی حکمت اور مصلحت کی خاطر یہ ہوتے ہیں۔ لیکن معمولات کو جنہیں روز مرہ دیکھنے کے ہم خو گرہیں، اس بات کے لیے ہر گز دیل نہیں ٹھیرایا جا سکتا کہ اللہ تعالی کی قدرت اُن سے بندھ گئی ہے اور خلاف معمول کوئی واقعہ اللہ کے حکم سے بھی نہیں ہوسکتا |
2 | یعنی حضرت ابراہیمؑ کے معقول دلائل کا کوئی جواب ان کے پاس نہ تھا۔ ان کا جواب اگر تھا تو یہ کہ کاٹ دو اُس زبان کو جو حق بات کہتی ہے اور جینے نہ دو اس شخص کو جو ہماری غلطی ہم پر واضح کرتا ہے اور ہمیں اس سے باز آنے کے لیے کہتا ہے۔ قتل کر دو یا جلا ڈالو کے الفاظ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ پورا مجمع اس بات پر تو متفق تھا کہ حضرت ابراہیمؑ کو ہلاک کر دیا جائے۔ البتہ ہلاک کرنے کے طریقے میں اختلاف تھا۔ کچھ لوگوں کی رائے یہ تھی کہ قتل کیا جائے، اور کچھ کی رائے یہ تھی کہ زندہ جلا دیا جائے تاکہ ہر شخص کو عبرت صاصل ہو جسے آئندہ کبھی ہماری سرزمین میں حق گوئی کا جنون لاحق ہو |
1 | یہاں سے پھر سلسلہ کلام حضرت ابراہیمؑ کے قصے کی طرف مُڑتا ہے |
Surah 37 : Ayat 88
فَنَظَرَ نَظْرَةً فِى ٱلنُّجُومِ
پھر 1اس نے تاروں پر ایک نگاہ ڈالی2
2 | ابن ابی حاتم نے مشہور تابعی مفسر قتادہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اہل عرب نَظَرَفِی النُّجُوْ مِ (اس نے تاروں پر نگاہ ڈالی) کے الفاظ محاصرے کے طور پر اس معنی میں بولا کرتے ہیں کہ اس شخص نے غور کیا، یا وہ شخص سوچنے لگا۔ علامہ ابن کثیر نے اسی قول کو ترجیح دی ہے اور ویسے بھی یہ بات اکثر مشاہدے میں آتی ہے کہ جب کسی شخص کے سامنے کوئی غور طلب معاملہ آتا ہے تو وہ آسمان کی طرف،یا اوپر کی جانب کچھ دیر دیکھتا رہتا ہے،پھر سوچ کر جواب دیتا ہے۔ |
1 | اب ایک خاص واقعہ کا ذکر کیا جا رہا ہے جس کی تفصیلات سورہ (آیات 51 تا 73) اور سورہ عنکبوت (آیات 16 تا 27) میں گزر چکی ہیں |
Surah 37 : Ayat 98
فَأَرَادُواْ بِهِۦ كَيْدًا فَجَعَلْنَـٰهُمُ ٱلْأَسْفَلِينَ
انہوں نے اس کے خلاف ایک کاروائی کرنی چاہی تھی، مگر ہم نے انہی کو نیچا دکھا دیا1
1 | سورہ انبیاء (آیت 69) میں الفاظ یہ ہیں۔قُلْنَا یٰنَا رُکُوْنِیْ بَرْ داً وَّ سَلَاماً عَلیٓ اِبْرَاہیم ( ہم نے کہا،اے آگ ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا ابراہیم کے لیے)۔اور سورہ عنکبوت (آیت 24) میں ارشاد ہوا ہے فَاَنْجٰہُ اللہُ مِنَ النَّارِ، (پھر اللہ نے اس کو آگ سے بچا لیا)۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے ابراہیمؑ کو آگ میں پھینک دیا تھا، اور پھر اللہ تعالٰی نے انہیں اس سے بسلامت نکال دیا۔آیت کے یہ الفاظ کہ ’’انہوں نے اس کے خلاف ایک کاروائی کرنی چاہی تھی مگر ہم نے انہیں نیچا دکھا دیا‘‘ اس معنی میں نہیں لیے جا سکتے کہ انہوں نے حضرت ابراہیمؑ کو آگ میں پھینکنا چاہا تھا مگر نہ پھینک سکے۔بلکہ مذکورہ بالا آیات کے ساتھ ملا کر دیکھنے سے ان کا صاف مطلب یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ آگ میں پھینک کر انہیں ہلاک کر دینا چاہتے تھے مگر نہ کر سکے،اور ان کے معجزانہ طریقہ سے بچ جانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ابراہیم علیہ السلام کی برتری ثابت ہو گئی اور مشرکین کو اللہ نے نیچا دکھا دیا۔اس واقعہ کو بیان کرنے سے اصل مقصود قریش کے لوگوں کو اس بات پر متنبہ کرنا ہے کہ جن ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ہونے پر تم فخر کرتے ہو ان کا طریقہ وہ نہ تھا جو تم نے اختیار کر رکھا ہے،بلکہ وہ تھا جسے محمد صلی اللہ علیہ و سلم پیش کر رہے ہیں۔اب اگر تم ان کو نیچا دکھانے کے لیے وہ چالیں چلو گے جو حضرت ابراہیم کی قوم نے ان کے ساتھ چلی تھیں تو آخر کار نیچا تم ہی دیکھو گے،محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو نیچا تم نہیں دکھا سکتے۔ |