Ayats Found (12)
Surah 6 : Ayat 74
۞ وَإِذْ قَالَ إِبْرَٲهِيمُ لِأَبِيهِ ءَازَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا ءَالِهَةًۖ إِنِّىٓ أَرَٮٰكَ وَقَوْمَكَ فِى ضَلَـٰلٍ مُّبِينٍ
ابراہیمؑ کا واقعہ یاد کرو جبکہ اُس نے اپنے باپ آزر سے کہا تھا 1"کیا تو بتوں کو خدا بناتا ہے؟ میں تو تجھے اور تیری قوم کو کھلی گمراہی میں پاتا ہوں"
1 | یہاں حضرت ابراہیم ؑ کے واقعہ کا ذکر اس امر کی تائید اور شہادت میں پیش کیا جا رہا ہے کہ جس طرح اللہ کی بخشی ہوئی ہدایت سے آج محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ ؐ کے ساتھیوں نے شرک کا انکار کیا ہے اور سب مصنوعی خداؤں سے منہ موڑ کر صرف ایک مالکِ کائنات کے آگے سرِ اطاعت خم کر دیا ہے اسی طرح کل یہی کچھ ابراہیم ؑ بھی کر چکے ہیں۔ اور جس طرح آج محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان پر ایمان لانے والوں سے ان کی جاہل قوم جھگڑ رہی ہے اسی طرح کل حضرت ابراہیم ؑ سے بھی ان کی قوم یہی جھگڑا کر چکی ہے۔ اور کل جو جواب حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی قوم کو دیا تھا آج محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے پیرووں کی طرف سے ان کی قوم کو بھی وہی جواب ہے ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس راستہ پر ہیں جو نوح ؑ اور ابراہیم ؑ اور نسلِ ابراہیمی کے تمام انبیاء کا راستہ رہا ہے۔ اب جو لوگ ان کی پیروی سے انکار کر رہے ہیں انھیں معلوم ہو جانا چاہیے کہ وہ انبیاء کے طریقہ سے ہٹ کر ضلالت کی راہ پر جا رہے ہیں۔ یہاں یہ بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ عرب کے لوگ بالعموم حضرت ابراہیم ؑ کو اپنا پیشوا اور مقتدا مانتے تھے ۔ خصُوصاً قریش کے تو فخر و ناز کی ساری بُنیاد ہی یہ تھی کہ وہ ابراہیم علیہ السّلام کی اولاد اور ان کے تعمیر کردہ خانۂ خدا کے خادم ہیں۔ اس لیے ان کے سامنے حضرت ابراہیم ؑ کے عقیدۂ توحید کا اور شرک سے اُن کا انکار اور مشرک قوم سے اُن کی نزاع کا ذکر کرنے کے معنی یہ تھے کہ قریش کا سارا سرمایۂ فخر و ناز اور کفارِ عرب کا اپنے مشرکانہ دین پر سارا اطمینان ان سے چھین لیا جائے اور اُن پر ثابت کر دیا جائے کہ آج مسلمان اُس مقام پر ہیں جس پر حضرت ابراہیم ؑ تھے اور تمہاری حیثیت وہ ہے جو حضرت ابراہیم ؑ سے لڑنے والی جاہل قوم کی تھی۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے معتقدوں اور قادری النسب پیرزادوں کے سامنے حضرت شیخ کی اصل تعلیمات اور ان کی زندگی کے واقعات پیش کر کے یہ ثابت کر دے کہ جن بزرگ کے تم نام لیوا ہو، تمہارا اپنا طریقہ ان کے بالکل خلاف ہے اور تم نے آج انہی گمراہ لوگوں کی حیثیت اختیار کر لی ہے جن کے خلاف تمہارے مقتدا تمام عمر جہاد کرتے رہے |
Surah 19 : Ayat 41
وَٱذْكُرْ فِى ٱلْكِتَـٰبِ إِبْرَٲهِيمَۚ إِنَّهُۥ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا
اور اس کتاب میں ابراہیمؑ کا قصہ بیان کرو1، بے شک وہ ایک راست باز انسان اور ایک نبی تھا
1 | یہاں سے خطاب کا رُخ اہل مکہ کی طرف پھر رہا ہے جنہوں نے اپنے نوجوان بیٹوں،بھائیوں، اور دوسرے رشتہ داروں کو اسی طرح خدا پرستی کے جرم میں گھر چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا جس طرح حضرت ابراہیم کو ان کے باپ اور بھائی بندوں دیس نکالا دیا تھا۔ اس غرض کے لیے دوسرے ابنیا کو چھوڑ کر خاص طور پر ابراہیم کے قصے کا انتخاب اس لیے کیا گیا کہ قریش کے لوگ ان کو اپنا پیشوا مانتے تھے اور انہی کی اولاد ہونے پر عرب میں اپنا فخر جتایا کرتے تھے۔ |
Surah 19 : Ayat 48
وَأَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ وَأَدْعُواْ رَبِّى عَسَىٰٓ أَلَّآ أَكُونَ بِدُعَآءِ رَبِّى شَقِيًّا
میں آپ لوگوں کو بھی چھوڑتا ہوں اور اُن ہستیوں کو بھی جنہیں آپ لوگ خدا کو چھوڑ کر پکارا کرتے ہیں میں تو اپنے رب ہی کو پکاروں گا، امید ہے کہ میں اپنے رب کو پکار کے نامراد نہ رہوں گا"
Surah 21 : Ayat 51
۞ وَلَقَدْ ءَاتَيْنَآ إِبْرَٲهِيمَ رُشْدَهُۥ مِن قَبْلُ وَكُنَّا بِهِۦ عَـٰلِمِينَ
اُس سے بھی پہلے ہم نے ابراہیمؑ کو اُس کی ہوش مندی بخشی تھی اور ہم اُس کو خوب جانتے تھے1
1 | ہوشمندی‘‘ ہم نے ’’ رشد‘‘ کا ترجمہ کیا ہے جس کے معنی ہیں ’’ صحیح و غلط میں تمیز کر کے صحیح بات یا طریقے کو اختیار کرنا اور غلط بات یا طریقے سے احتراز کرنا ‘‘۔ اس مفہوم کے لحاظ سے ’’ رشد ‘‘ کا ترجمہ ’’ راست روی‘‘ بھی ہو سکتا ہے ، لیکن چونکہ رشد کا لفظ محض راست روی کو نہیں بلکہ اس راست روی کو ظاہر کرتا ہے جو نتیجہ ہو فکر صحیح اور عقل سلیم کے استعمال کا ، اس لیے ہم نے ’’ ہوش مندی‘‘ کے لفظ کو اس کے مفہوم سے اقرب سمجھا ہے ۔ ’’ ابراہیم کو اس کی ہوش مندی بخشی’’ یعنی جو ہوش مندی اس کو حاصل تھی وہ ہماری عطا کر دہ تھی۔ ’’ ہم اس کو خوب جانتے تھے ‘‘ ، یعنی ہماری یہ بخشش کوئی اندھی بانٹ نہ تھی۔ ہمیں معلوم تھا کہ وہ کیا آدمی ہے ، اس لیے ہم نے اس کو نوازا :اللہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ ’’ اللہ خوب جانتا ہے کہ اپنی رسالت کس کے حوالے کرے ‘‘ (الانعام ، آیت 124) ۔ اس میں ایک لطیف اشارہ ہے سرداران قریش کے اس اعتراض کی طرف جو وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر کرتے تھے ۔ وہ کہا کرتے تھے کہ آخر اس شخص میں کون سے سرخاب کے پر لگے ہوۓ ہیں کہ اللہ ہم کو چھوڑ کر اسے رسالت کے منصب پر مقرر کرے ۔ اس کا جواب مختلف مقامات پر قرآن مجید میں مختلف طریقوں سے دیا گیا ہے ۔ یہاں صرف اس لطیف اشارے پر اکتفا کیا گیا کہ یہی سوال ابراہیم کے متعلق بھی ہو سکتا تھا، پوچھا جا سکتا تھا کہ سارے ملک عراق میں ایک ابراہیم ہی کیوں اس نعمت سے نوازا گیا ، مگر ہم جانتے تھے کہ ابراہیم میں کیا اہلیت ہے ، اس لیے ان کی پوری قوم میں سے ان کو اس نعمت کے لیے منتخب کیا گیا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت پاک کے مختلف پہلو اس سے پہلے سورہ بقرہ آیات 124 تا 141 ۔ 258 ۔ 260 الانعام، آیات 74 تا 81 جلد دوم ۔ التوبہ آیت 114 ۔ ھود ۔ آیات 69 تا 76 ۔ ابراہیم آیات 35 تا 41 ۔ الحجر آیات 15 تا 60 ۔ النحل، آیات 120 تا 133 میں گزر چکے ہیں جن پر ایک نگاہ ڈال لینا مفید ہو گا |
Surah 21 : Ayat 56
قَالَ بَل رَّبُّكُمْ رَبُّ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِ ٱلَّذِى فَطَرَهُنَّ وَأَنَا۟ عَلَىٰ ذَٲلِكُم مِّنَ ٱلشَّـٰهِدِينَ
اُس نے جواب دیا "نہیں، بلکہ فی الواقع تمہارا رب وہی ہے جو زمین اور آسمانوں کا رب اور اُن کا پیدا کرنے والا ہے اِس پر میں تمہارے سامنے گواہی دیتا ہوں
Surah 26 : Ayat 69
وَٱتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ إِبْرَٲهِيمَ
اور اِنہیں ابراہیمؑ کا قصہ سناؤ1
1 | یہاں حضرت ابراہیمؑ کی حیات طیبہ کے اس دور کا قصہ بیان ہوا ہے جب کہ نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد شرک و توحید کے مسئلے پر آپ کی اپنے خاندان اور اپنی قوم سے کشمکش شروع ہوئی تھی۔ اس دور کی تاریخ کے مختلف گوشے قرآن مجید میں حسب ذیل مقامات پر بیان ہوئے ہیں : البقرہ رکوع 35۔ الانعام رکوع 9۔ مریم رکوع 3۔ الانبیاء رکوع 5۔ الصّٰفّٰت رکوع 3۔ الممتحنہ رکوع 1 )۔ سیرت ابراہیمی کے اس دور کی تاریخ خاص طور پر جس وجہ سے قرآن مجید بار بار سامنے لاتا ہے وہ یہ ہے کہ عرب کے لوگ بالعموم اور قریش بالخصوص اپنے آپ کو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا پیرو سمجھتے اور کہتے تھے اور یہ دعویٰ رکھتے تھے کہ ملت ابراہیمی ہی ان کا مذہب ہے۔ مشرکین عرب کے علاوہ نصاریٰ اور یہود کا بھی یہ دعویٰ تھا کہ حضرت ابراہیمؑ ان کے دین کے پیشوا ہیں۔ اس پر قرآن مجید جگہ جگہ ان لوگوں کو متنبہ کرتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام جو دین لے کر آئے تھے وہ یہی خالص اسلام تھا جسے نبی عربی محمد صلی اللہ علیہ و سلم لائے ہیں اور جس سے آج تم لوگ بر سر پیکار ہو۔ وہ مشرک نہ تھے بلکہ ان کی ساری لڑائی شرک ہی کے خلاف تھی اور اسی لڑائی کی بدولت انہیں اپنے باپ، خاندان، قوم، وطن سب کو چھوڑ کر شام و فلسطین اور حجاز میں غریب الوطنی کی زندگی بسر کرنی پڑی تھی۔ اسی طرح وہ یہودی و نصرانی بھی نہ تھے بلکہ یہودیت و نصرانیت تو ان کے صدیوں بعد وجود میں آئیں۔ اس تاریخی استدلال کا کوئی جواب نہ مشرکین کے پاس تھا نہ یہود و نصاریٰ کے پاس، کیونکہ مشرکین کو بھی یہ تسلیم تھا کہ عرب میں بتوں کی پرستش حضرت ابراہیمؑ کے کئی صدی بعد شروع ہوئی تھی، اور یہود و نصاریٰ بھی اس سے انکار نہ کر سکتے تھے کہ حضرت ابراہیمؑ کا زمانہ یہودیت اور عیسائیت کی پیدائش سے بہت پہلے تھا۔ اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا تھا کہ جن مخصوص عقائد اور اعمال پر یہ لوگ اپنے دین کا مدار رکھتے ہیں وہ اس دین قدیم کے اجزاء نہیں ہیں جو ابتدا سے چلا آ رہا تھا، اور صحیح دین وہی ہے جو ان آمیزشوں سے پاک ہو کر خالص خدا پرستی پر مبنی ہو۔ اسی بنیاد پر قرآن کہتا ہے : مَا کَانَاِبْرَاھِیْمُ یَھُوْدِیاً وَّ لَا نَصْرَا نِیاً وَّلٰکِنْ کَانَ حَنِیْفاً مُّسْلِماً وَّ مَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ہ اِنَّ اَوْلَی النَّاسِ بِاِبْرٰھِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ وَھٰذَ ا النَّبِیُّ وَا لَّذِیْنَ اٰمِنُوْ ا مَعَہٗ۔ (آل عمران۔ آیات 67۔ 68 )۔ ابراہیم نہ یہودی تھا نہ عیسائی بلکہ وہ تو ایک مسلم یکسو تھا۔ اور وہ مشرکوں میں سے بھی نہ تھا۔ در حقیقت ابراہیمؑ سے نسبت رکھنے کا سب سے زیادہ حق ان ہی لوگوں کو پہنچتا ہے جنہوں نے اس کے طریقے کی پیروی کی (اور اب یہ حق) اس نبی اور اس کے ساتھ ایمان لانے والوں کو (پہنچتا ہے ) |
Surah 26 : Ayat 82
وَٱلَّذِىٓ أَطْمَعُ أَن يَغْفِرَ لِى خَطِيٓــَٔتِى يَوْمَ ٱلدِّينِ
اور جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ روزِ جزا میں وہ میری خطا معاف فرما دے گا1"
1 | یہ تیسری وجہ ہے جس کی بنا پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کی عبادت درست نہیں ہو سکتی۔ انسان کا معاملہ اپنے خدا کے ساتھ صرف اس دنیا اور اس کی زندگی تک محدود نہیں ہے کہ وجود کی سرحد میں قدم رکھنے سے شروع ہو کر موت کی آخری ہچکی پر وہ ختم ہو جائے ، بلکہ اس کے بعد اس کا انجام بھی سراسر خدا ہی کے ہاتھ میں ہے ، وہی خدا جو اس کو وجود میں لایا ہے ، آخر کار اسے اس دنیا سے واپس بلا لیتا ہے اور کوئی طاقت دنیا میں ایسی نہیں ہے جو انسان کی اس واپسی کو روک سکے۔ آج تک کسی دوا یا طبیب یا دیوی دیوتا کی مداخلت اس ہاتھ کو پکڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے جو انسان کو یہاں سے نکال لے جاتا ہے ، حتیٰ کہ وہ بہت سے انسان بھی جنہیں معبود بنا کر انسانوں نے پوج ڈالا ہے ، خود اپنی موت کو نہیں ٹال سکے ہیں۔ صرف خدا ہی اس امر کا فیصلہ کرنے ولا ہے کہ کس شخص کو کب اس جہان سے واپس طلب کرنا ہے ، اور جس وقت جس کی طلبی بھی اس کے ہاں سے آ جاتی ہے اسے چارو نا چار جانا ہی پڑتا ہے۔ پھر وہی خدا ہے جو اکیلا اس امر کا فیصلہ کرے گا کہ کب ان تمام انسانوں کو جو دنیا میں پیدا ہوئے تھے دوبارہ وجود میں لائے اور ان سے ان کی حیات دنیا کا محاسبہ کرے۔ اس وقت بھی کسی کی یہ طاقت نہ ہو گی کہ بعث بعد الموت سے کسی کو بچا سکے یا خود بچ سکے۔ہر ایک کو اس کے حکم پر اٹھنا ہی ہو گا اور اس کی عدالت میں حاضر ہونا پڑے گا۔ پھر وہی اکیلا خدا اس عدالت کا قاضی و حاکم ہو گا۔ کوئی دوسرا اس کے اختیارات میں ذرہ برابر بھی شریک نہ ہو گا۔ سزا دینا یا معاف کرنا بالکل اس کے اپنی ہی ہاتھ میں ہو گا۔ کسی کی یہ طاقت نہ ہو گی کہ جسے وہ سزا دینا چاہے اس کو بخشوا لے جائے ، یا جسے وہ بخشنا چاہے اس سزا دلوا سکے۔ دنیا میں جن کو بخشوا لینے کا مختار سمجھا جاتا ہے وہ خود اپنی بخشش کے لیے بھی اسی کے فضل و کرم کی آس لگائے بیٹھے ہوں گے۔ ان حقائق کی موجودگی میں جو شخص خدا کے سوا کسی کی بندگی کرتا ہے وہ اپنی بد انجامی کا خود سامان کرتا ہے۔ دنیا سے لے کر آخرت تک آدمی کی ساری قسمت تو ہو خدا کے اختیار میں ، اور اسی قسمت کے بناؤ کی خاطر آدمی رجوع کرے ان کی طرف جن کے اختیار میں کچھ نہیں ہے ! اس سے بڑھ کر شامت اعمال اور کیا ہو سکتی ہے |
Surah 29 : Ayat 16
وَإِبْرَٲهِيمَ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ ٱعْبُدُواْ ٱللَّهَ وَٱتَّقُوهُۖ ذَٲلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ
اور ابراہیمؑ کو بھیجا1 جبکہ اُس نے اپنی قوم سے کہا "اللہ کی بندگی کرو اور اُس سے ڈرو2 یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو
2 | یعنی اُس کے ساتھ شرک اور اس کی نافرمانی کرنے سے ڈرو |
1 | تقابل کے لیے ملاخطہ ہو البقر، رکوع ۱۵۔۱۶۔۳۵۔ آل عمران۷۔ الانعام۹۔ ہود۷۔ ابراہیم۔۲الحجحر۴۔۔ مریم۳۔ الانبیاء۵۔ الشعراء۵۔ الصافات۳۔ الزخرف۳۔ الذاریات۳۔ |
Surah 29 : Ayat 18
وَإِن تُكَذِّبُواْ فَقَدْ كَذَّبَ أُمَمٌ مِّن قَبْلِكُمْۖ وَمَا عَلَى ٱلرَّسُولِ إِلَّا ٱلْبَلَـٰغُ ٱلْمُبِينُ
اور اگر تم جھٹلاتے ہو تو تم سے پہلے بہت سی قومیں جھٹلا چکی ہیں1، اور رسول پر صاف صاف پیغام پہنچا دینے کے سوا کوئی ذمّہ داری نہیں ہے"
1 | یعنی اگر تم میری دعوت توحید کو اور اس خبر کو کہ تمہیں اپنے رب کی طر پلٹنا اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے، جھٹلاتے ہو تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تاریح میں اس سے پہلے بھی بہت سے بنی (مثلا نوح ہود صالح علہیم السلام وغیرہ) یہی تعلیم لے کر آچکے ہیں اور ان کی قوموں نے بھی ان کو اسی طرح جھٹلایا ہے۔ اب تم خود دیکھ لوکہ انہوں نے جھٹلا کر ان نبیوں کا کچھ بگاڑایا اپنا انجام خراب کیا |
Surah 29 : Ayat 25
وَقَالَ إِنَّمَا ٱتَّخَذْتُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ أَوْثَـٰنًا مَّوَدَّةَ بَيْنِكُمْ فِى ٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَاۖ ثُمَّ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ يَكْفُرُ بَعْضُكُم بِبَعْضٍ وَيَلْعَنُ بَعْضُكُم بَعْضًا وَمَأْوَٮٰكُمُ ٱلنَّارُ وَمَا لَكُم مِّن نَّـٰصِرِينَ
اور اُس نے کہا1 "تم نے دنیا کی زندگی میں تو اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو اپنے درمیان محبت کا ذریعہ بنا لیا ہے2 مگر قیامت کے روز تم ایک دُوسرے کا انکار اور ایک دُوسرے پر لعنت کرو گے 3اور آگ تمہارا ٹھکانا ہو گی اور کوئی تمہارا مدد گار نہ ہو گا"
3 | یعنی عقیدہ باطلہ پر تمہاری یہ ہئیت اجتماعی آخرت میں بنی نہیں رہ سکتی۔ وہاں آپس کی محبت دوستی تعاون، رشتہ داری اور عقیدت وارادت کے صرف عہی تعلقات برقرار رہ سکتے ہیں جو دینا میں خدائے واحد کی بندگی اور نیکی و تقوی پر قائم ہوئے ہوں۔ کفر و شرک اور گمراہی و بدراہی پر جُڑے ہوئے سارے رشتے وہاں کٹ جائیں گے، ساری مجتیں دشمنی میں تبدیل ہو جائیں گی، ساری عقیدتیں نفرت میں بدل جائیں گی، بیٹے اور باپ، شوہر اور بیوی، پیراور مرید تک ایک دوسرے پر لعنت بھیجیں گے اور ہر ایک اپنی گمراہی کی ذٓمہ داری دوسرے پر ڈال کر پکارے گا کی اس ظالم نے مجھے خراب کیا اس لیے اسے دوہرا عذاب دیا جائے۔ یہ بات قرآن مجید میں متعدد مقامات پر فرمائی گئی ہے مثلا سورہ خرف میں فرمایا اَلاَ خَلاَءُ یَومَذِِ بَعضُہم لِبَعض عَدو اَلاَ المُتَقِینَ (آیت ۶۷) ۔ دوست اس روز ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے سوائے متقین کے۔ سورہ اعراف میں فرمایا: کُلماَ دَخَلَت اُمَۃ لَعَنَت اُختَھاَ حَتٰی اِذَ ادَا رَکُو فِیہاَ جَمِیعا قَالَت اُخرٰھُم لِاُ ولٰھُم رَبَنَا ھٰوُلَاء اَضَلُونَا فَا تِھِم عَذَابا ضِعفا مِنَ النَارِ (آیت ۳۸) ہر گروہ جب جہنم میں داخل ہو گا تو اپنے پاس والے گروہ پر لعنت کرتا ہُوا داخل ہون گا حتی کہ جب سب وہاں جمع ہو جائیں گے تو ہر بعد والا گر وہ پہلے گروہ کے حق میں کہے گا اے ہمارے رب، یہ لوگ تھے جہنوں نے گمراہ کیا، لہذا انہیں آگ کا دوہرا عذاب دے۔ اور سورہ احزاب میں فرمایا وَقاَلُو رَبَنَا اِنَا اَطَعنَا سَادَتَنَا وَکُبَرَءَ نَا فَاضَلُونَا السَبِیلَا رَبَنَا اٰتِھم ضَعفَیِن مِنَ العَذَابِ وَلعَنھۃم لَعنِِا کَبِیرا (آیات ۶۷۔۶۸)۔ اور وہ کہیں گے اے ہمارے رب، ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کی اطاعت کی اور انہوں نے ہم کو راہ سے بے راہ کر دیا، اے ہمارے رب تو انہیں دوہری سزا دے اور ان پر سخت لعنت فرما |
2 | یعنی تم نے خدا پرستی کے بجائے بُت پرستی کی بنیاد پر اپنی اجتماعی زندگی کی تعمیر کر لی ہے جو دینوی زندگی کی حد تک تمہارا قومی شیرازہ باندھ سکتی ہے۔ اس لیے کہ یہاں کسی عقیدے پر بھی لوگ جمع ہو سکتے ہیں خواہ حق ہو یا باطل۔ اور ہر اتفاق و اجتماع، چاہے وہ کیسے ہی غلط عقیدے پر ہو، باہم دوستوں، رشتہ واریوں، برادریوں اور دوسرے تمام مذہبی، معاشرتی و تمدنی اور معاشی و سیاسی تعلقات کے قیام کا ذریعہ بن سکتا ہے |
1 | سلسہ کلام سے متر شح ہوتا ہے کہ یہ بات آگ سے بسلامت نکل آنے کے بعد حضرت ابراہیمؑ نے لوگوں سے فرمائی ہوگی |