Ayats Found (4)
Surah 19 : Ayat 48
وَأَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ وَأَدْعُواْ رَبِّى عَسَىٰٓ أَلَّآ أَكُونَ بِدُعَآءِ رَبِّى شَقِيًّا
میں آپ لوگوں کو بھی چھوڑتا ہوں اور اُن ہستیوں کو بھی جنہیں آپ لوگ خدا کو چھوڑ کر پکارا کرتے ہیں میں تو اپنے رب ہی کو پکاروں گا، امید ہے کہ میں اپنے رب کو پکار کے نامراد نہ رہوں گا"
Surah 33 : Ayat 26
وَأَنزَلَ ٱلَّذِينَ ظَـٰهَرُوهُم مِّنْ أَهْلِ ٱلْكِتَـٰبِ مِن صَيَاصِيهِمْ وَقَذَفَ فِى قُلُوبِهِمُ ٱلرُّعْبَ فَرِيقًا تَقْتُلُونَ وَتَأْسِرُونَ فَرِيقًا
پھر اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے ان حملہ آوروں کا ساتھ دیا تھا1، اللہ ان کی گڑھیوں سے انہیں اتار لایا اور اُن کے دلوں میں اُس نے ایسا رُعب ڈال دیا کہ آج ان میں سے ایک گروہ کو تم قتل کر رہے ہو اور دوسرے گروہ کو قید کر رہے ہو
Surah 33 : Ayat 28
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ قُل لِّأَزْوَٲجِكَ إِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ ٱلْحَيَوٲةَ ٱلدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلاً
اے نبیؐ1، اپنی بیویوں سے کہو، اگر تم دنیا اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ، میں تمہیں کچھ دے دلا کر بھلے طریقے سے رخصت کر دوں
1 | یہاں سے نمبر ۳۵ تک کی آیات جنگِ احزاب اور بنی قُریظہ سے متصل زمانے میں نازل ہوئی تھیں۔ ان کا پس منظر ہم دیباچہ میں مختصراً بیان کر آئے ہیں۔ صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبد اللہ اس زمانے کا یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر ؓ حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دیکھا کہ آپؐ کی ازواج آپؐ کے گرد بیٹھی ہیں اور آپؐ خاموش ہیں۔ آپؐ نے حضرت عمرؓ کو خطاب کر کے فرمایا : ’’ھُنَّ کَمَا تَرٰی یَسْاءَ لْنَبِی النفقۃ،‘‘ یہ میرے گرد بیٹھی ہیں جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو۔ یہ مجھ سے خرچ کے لیے روپیہ مانگ رہی ہیں‘‘۔اس پر دونوں صاحبوں نے اپنی اپنی بیٹیوں کو ڈانٹا اور ان سے کہا کہ تم رسول اللہ علیہ و سلم کو تنگ کرتی ہو اور وہ چیز مانگتی ہو جو آپؐ کے پاس نہیں ہے۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضورؐ اس وقت کیسی مالی مشکلات میں مبتلا تھے اور کفر و اسلام کی انتہائی شدید کشمکش کے زمانے میں خرچ کے تقاضے مزاجِ مبارک پر کیا اثر ڈال رہے تھے۔ |
Surah 60 : Ayat 4
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِىٓ إِبْرَٲهِيمَ وَٱلَّذِينَ مَعَهُۥٓ إِذْ قَالُواْ لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَءَٲٓؤُاْ مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ ٱلْعَدَٲوَةُ وَٱلْبَغْضَآءُ أَبَدًا حَتَّىٰ تُؤْمِنُواْ بِٱللَّهِ وَحْدَهُۥٓ إِلَّا قَوْلَ إِبْرَٲهِيمَ لِأَبِيهِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَآ أَمْلِكُ لَكَ مِنَ ٱللَّهِ مِن شَىْءٍۖ رَّبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ أَنَبْنَا وَإِلَيْكَ ٱلْمَصِيرُ
تم لوگوں کے لیے ابراہیمؑ اور اُس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے کہ اُنہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا 1"ہم تم سے اور تمہارے اِن معبودوں سے جن کو تم خدا کو چھوڑ کر پوجتے ہو قطعی بیزار ہیں، ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت ہو گئی اور بیر پڑ گیا جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لاؤ" مگر ابراہیمؑ کا اپنے باپ سے یہ کہنا (اِس سے مستثنیٰ ہے) کہ "میں آپ کے لیے مغفرت کی درخواست ضرور کروں گا، اور اللہ سے آپ کے لیے کچھ حاصل کر لینا میرے بس میں نہیں ہے" (اور ابراہیمؑ و اصحاب ابراہیمؑ کی دعا یہ تھی کہ) "اے ہمارے رب، تیرے ہی اوپر ہم نے بھروسا کیا اور تیری ہی طرف ہم نے رجوع کر لیا اور تیرے ہی حضور ہمیں پلٹنا ہے
1 | دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے لیے حضرت ابراہیم کی یہ بات تو قابل تقلید ہے کہ انہوں نے اپنی کافر و مشرک قوم سے صاف صاف بیزاری اور قطع تعلق کا اعلان کر دیا، مگر ان کی یہ بات تقلید کے قابل بہیں ہے کہ انہوں نے اپنے مشرک باپ کے لیے مغفرت کی دعا کرنے کا وعدہ کیا اور عملاً اس کے حق میں دعا کی۔ اس لیے کہ کافروں کے ساتھ محبت اور ہمدردی کا اتنا تعلق بھی اہل ایمان کو نہ رکھنا چاہیے۔ سورہ توبہ (آیت 113) میں اللہ تعالیٰ کا صاف صاف ارشاد ہے : مَا کَا نَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوآ اَنْ یَّسْتَغْفِرُ وْ ا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَ لَوْ کَانُوْا اُولِیْ قُرْبیٰ۔ ’’ نبی کا یہ کام نہیں ہے اور نہ ان لوگوں کو یہ زیبا ہے جو ایمان لاۓ ہیں کہ مُشرکوں کے لیے دعاۓ مغفرت کریں، خواہ وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں ‘‘۔ پس کوئی مسلمان اس دلیل سے اپنے کافر عزیزوں کے حق میں دعاۓ مغفرت کرنے کا مجاز نہیں ہے کہ یہ کام حضرت ابراہیمؑ نے کیا تھا۔ رہا سوال کہ خود حضرت ابراہیمؑ نے یہ کام کیسے کیا؟ اور کیا وہ اس پر قائم بھی رہے؟ اس کا جواب قرآن مجید میں ہم کو پوری تفصیل کے ساتھ ملتا ہے۔ ان کے باپ نے جب ان کو گھر سے نکال دیا تو چلتے وقت انہوں نے کہا تھا سَلَامٌ عَلَیْکَ سَاَسْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّیْ، ’’ آپ کو سلام ہے، میں اپنے رب سے آپ کے لیے مغفرت کی دعا کروں گا‘‘ (مریم، 147۔ اسی وعدے کی بنا پر انہوں نے دو مرتبہ اس کے حق میں دعا کی۔ ایک دعا کا ذکر سورہ ابراہیم(آیت 41) میں ہے : رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَ لِوَلِدَیَّ وَ لِلْمُؤْ مِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الحِسَابْ۔ ’’اے ہمارے پروردگار، مجھے اور میرے والدین کو اور سب مومنوں کو اس روز معاف کر دیجیو جب حساب لیا جانا ہے ‘‘۔ اور دوسری دعا سورہ شعَراء (آیت 86) میں ہے : وَاغْفِرْلِاَبِیْ اِنَّہٗ کَانَمَنَالضَّآ لِّیْنَ وَلَا تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ۔ ’’ میرے باپ کو معاف فرما دے کہ وہ گمراہوں میں سے تھا اور مجھے اس دن رسوا نہ کر جب سب لوگ زندہ کر کے اٹھاۓ جائیں گے ‘‘۔ لیکن بعد میں جب ان کو یہ احساس ہو گیا کہ اپنے جس باپ کی مغفرت کے لیے وہ دعا کر رہے ہیں وہ تو اللہ کا دشمن تھا، تو انہوں نے اس سے تبرّی کی اور اس کے ساتھ ہمدردی و محبت کا یہ تعلق بھی توڑ لیا: وَمَا کَانَ اسْتِغْفَا رُ اِبْرَاھِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْ عِدَۃٍ وَّ عَدَھَا اِیَّاہُ، فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ اَنَّہٗ عَدُوٌّ لِّلّٰہِ تَبَرَّ أ مِنْہُ، اِنَّ اَبْرَھِیْمَلَاَوَّ اہٌ حَلِیْمٌ o (التوبہ 114) اور ابراہیمؑ کا اپنے باپ کے لیے مغفرت کی دعا کرنا اس کے سوا کسی وجہ سے نہ تھا کہ ایک وعدہ تھا جو اس نے اپنے باپ سے کر لیا تھا۔ پھر جب اس پر یہ بات واضح ہو گئی کہ وہ الہہ کا دشمن تھا تو اس نے اس سے بیزاری کا اظہار کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ابراہیم ایک رقیق القلب اور نرم خو آدمی تھا۔ ان آیات پر غور کرنے سے یہ اصولی حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ انبیاء کا صرف وہی عمل قابل تقلید ہے جس پر وہ آخر وقت تک قائم رہے ہوں۔ رہے ان کے وہ اعمال جن کو انہوں نے بعد میں خود چھوڑ دیا ہو، یا جن پر اللہ تعالیٰ نے انہیں قائم نہ رہنے دیا ہو، یا جن کی ممانعت اللہ کی شریعت میں وارد ہو چکی ہو، وہ قابل تقلید نہیں ہیں اور کوئی شخص اس حجت سے ان کے ایسے اعمال کی پیروی نہیں کر سکتا کہ یہ فلاں نبی کا عمل ہے۔ یہاں ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے جو آدمی ذہن میں کھٹک پیدا کر سکتا ہے۔ آیت زیر بحث میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کے جس قول کو قابل تقلید نمونہ ہونے سے مستثنیٰ قرار دیا ہے اس کے دو حصے ہیں ایک حصہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے باپ سے کہا ’’ میں آپ کے لیے مغفرت کی دعا کروں گا‘‘۔ اور دوسرا حصہ یہ کہ ’’ میرے بس میں کچھ نہیں ہے کہ اللہ سے آپ کو معافی دلوا دوں ‘‘۔ ان میں سے پہلی بات کا قابل تقلید نہ ہونا تو سمجھ میں آتا ہے، مگر دوسری بات میں کیا خرابی ہے کہ اسے بھی نمونہ قابل تقلید ہونے سے مستثنیٰ کر دیا گیا؟ حالانکہ وہ بجاۓ خود حق بات ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کا یہ قول استثناء میں اس وجہ سے داخل ہوا ہے کہ جب کوئی شخص کسی سے ایک کام کا وعدہ کرنے کے بعد یہ کہتا ہے کہ اس سے زیادہ تیرے لیے کچھ کرنا میرے بس میں نہیں ہے تو اس سے خود بخود یہ مطلب نکلتا ہے کہ اگر اس سے زیادہ کچھ کرنا اس کے بس میں ہوتا تو وہ شخص اس کی خاطر وہ بھی کرتا۔ یہ بات اس آدمی کے ساتھ اس شخص کے ہمدردانہ تعلق کو اور بھی زیادہ شدت کے ساتھ ظاہر کرتی ہے۔ اسی بنا پر حضرت ابراہیمؑ کا یہ دوسرا قول بھی استثناء میں شامل کیے جانے کا مستحق تھا، اگرچہ اس کا یہ مضمون بجاۓ خود برحق تھا کہ اللہ سے کسی کی مغفرت کروا دینا ایک نبی تم کے اختیار سے باہر ہے۔ علامہ آلوسی نے بھی روح المعانی میں اس سوال کا یہی جواب دیا ہے |