Ayats Found (6)
Surah 9 : Ayat 34
۞ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ ٱلْأَحْبَارِ وَٱلرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَٲلَ ٱلنَّاسِ بِٱلْبَـٰطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِۗ وَٱلَّذِينَ يَكْنِزُونَ ٱلذَّهَبَ وَٱلْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ
اے ایمان لانے والو، اِن اہل کتاب کے اکثر علماء اور درویشوں کا حال یہ ہے کہ وہ لوگوں کے مال باطل طریقوں سے کھاتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ سے روکتے ہیں1 دردناک سزا کی خوش خبری دو ان کو جو سونے اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور انہیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے
1 | یعنی ظالم صرف یہی ستم نہیں کرتے کہ فتوے بیچتے ہیں، رشوتیں کھاتے ہیں، نذرانے لوٹتے ہیں ، ایسے ایسے مذہبی ضابطے اور مراسم ایجاد کرتے ہیں جن سے لوگ اپنی نجات اِن سے خریدیں اور اُن کا مرنا جینا اور شادی و غم کچھ بھی اِن کو کھلائے بغیر نہ ہو سکے اور وہ اپنی قسمتیں بنانے اور بگاڑنے کا ٹھیکہ دار اِن کو سمجھ لیں۔ بلکہ مزید براں اپنی اِنہی اغراض کی خاطر یہ حضرات خلقِ خدا کو گمراہیوں کے چکر میں پھنسا ئے رکھتے ہیں اور جب کبھی کوئی دعوتِ حق اصلا ح کے لیے اُٹھتی ہے تو سب سے پہلے یہی اپنی عالمانہ فریب کاریوں اور مکاریوں کے حربے لے لے کر اس کا راستہ روکنے کھڑے ہو جاتے ہیں |
Surah 9 : Ayat 35
يَوْمَ يُحْمَىٰ عَلَيْهَا فِى نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَىٰ بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْۖ هَـٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوقُواْ مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ
ایک دن آئے گا کہ اسی سونے چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اسی سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا، لو اب اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزہ چکھو
Surah 70 : Ayat 17
تَدْعُواْ مَنْ أَدْبَرَ وَتَوَلَّىٰ
پکار پکار کر اپنی طرف بلائے گی ہر اُس شخص کو جس نے حق سے منہ موڑا اور پیٹھ پھیری
Surah 70 : Ayat 18
وَجَمَعَ فَأَوْعَىٰٓ
اور مال جمع کیا اور سینت سینت کر رکھا1
1 | یہاں بھی سورہ الحاقہ 33۔34 کی طرح آخرت میں آدمی کے برے انجام کے دو وجوہ بیان کیے گئے ہیں۔ ایک حق سے انحراف اور ایمان لانے سے انکار۔ دوسرے دنیا پرستی اور بخل، جس کی بنا پر آدمی مال جمع کرتا ہے ا ور ا سے کسی بھلائی کے کام میں خرچ نہیں کرتا |
Surah 102 : Ayat 1
أَلْهَـٰكُمُ ٱلتَّكَاثُرُ
تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا حاصل کرنے کی دھن نے غفلت میں ڈال رکھا ہے1
1 | اصل میں ’’ اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُرُ ۔ ‘‘فرمایا گیا ہے جس کے معنی میں اتنی وسعت ہے کہ ایک پوری عبارت میں بمشکل اس کو ادا کیا جا سکتا ہے۔ ’’ اَلْھٰکُمُ ۔ لَہْو ‘‘ سے ہے جس کے اصل معنی غفلت کے ہیں، لیکن عربی زبان میں یہ لفظ ہر اس شغل کے لیے بولالا جاتا ہے جس سے آدمی کو دلچسپی اتنی بڑھ جائے کہ وہ اس میں ’’ مُنہمِک ‘‘ ہو کر دوسری ا ہم ترین چیزوں سے غافل ہو جائے۔ اس مادے سے جب الھاکم کا لفاظ بولا جائے گا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ کسی لہو نے تم کو اپنے اندر ایسا مشغول کر لیا ہے کہ تمہیں کسی اور چیز کا، جو اس سے اہم تر ہے، ہوش باقی نہیں رہا ہے۔ اسی کی دھن تم پر سوار ہے۔ اسی کی فکر میں تم لگے ہوئے ہو۔ اور اس انہماک نے تم کو بالکل غافل کر دیا ہے۔ ’’ تَکاثُر ‘‘کثرت سے ہے، اور اس کے تین معنی ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی زیادہ سے زیادہ کثرت حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ دوسرے یہ کہ لوگ کثرت کے حصول میں ایک دوسرے بڑھ جانے کی کوشش کریں۔ تیسرے یہ کہ لوگ ایک دوسرے کے مقابلے میں اس بات پر فخر جتائیں کہ انہیں دوسروں سے زیادہ کثرت حاصل ہے۔ پس ’’ اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُرُ ۔ ‘‘کے معنی ہوئے ’’ تکاثُر ‘‘نے تمہیں اپنے اندر ایسا مشغول کر لیا ہے کہ اس کی دھن نے تمہیں اس سے اہم تر چیزوں سے غافل کر دیا ہے۔ اس فقرے میں یہ تصریح نہیں کی گئی ہے کہ تکاثر میں کس چیز کی کثرت اور ’’ اَلْھٰکُمْ ‘‘ میں کس چیز سے غافل ہو جانا مراد ہے، اور ’’ اَلْھٰکُمْ ‘‘ (تم کو غافل کر دیا ہے) کے مخاطب کون لوگ ہیں۔ اس عدم تصریح کی وجہ سے ان الفاظ کا اطلاق اپنے وسیع ترین مفہوم پر ہو جاتا ہے۔ تکاثر کے معنی معدود نہیں رہتے بلکہ دنیا کے تمام فوائد و منافع ، سامان عیش، اسبابِ لذت اور وسائل قوت و اقتدار کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی سعی و جہد کرنا، ان کے حصول میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا، اور ایک دوسرے کے مقابلے میں ان کی کثرت پر فخر جتانا اس کے مفہوم میں شامل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ’’ اَلْھٰکُمْ ‘‘کے مخاطب بھی محدود نہیں رہتے بلکہ ہر زمانے کے لوگ اپنی انفرادی حیثیت سے بھی اور اجتماعی حیثیت سے بھی اس کے مخاطب ہو جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہو تا ہے کہ زیادہ سے زیادہ دنیا حاصل کرنے، اور اس میں ایک دوسرے سے بڑھ، اور دوسرے کے مقابلے میں اس پر فخر جتانے کی دھن افراد پر بھی سوار ہے اور ا قوم پر بھی۔ اسی طرح ’’ اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُر ‘‘میں چونکہ اس امر کی صراحت نہیں کی گئی کہ تکاثر نے لوگوں کو اپنے اندر منہمک کر کے کس چیز سے غافل کر دیا ہے، اس لیے اس کے مفہوم میں بھی بڑی وسعت پیدا ہو گئی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ لوگ کو اس تکاثر کی دھن نے ہر اس چیز سے غافل کر دیا ہے جو اس کی بہ نسبت اہم تر ہے۔ وہ خدا سے غافل ہو گئے ہیں ۔ عاقبت سے غافل ہو گئے ہیں۔ اخلاقی حدود اور اخلاقی ذمہ داریوں سے غافل ہو گئے ہیں۔ حق داروں کے حقوق اور ان کی ادائیگی کے معاملہ میں اپنے فرائض سے غافل ہو گئے ہیں۔ انہیں معیار زندگی بلند کرنے کی فکر ہے، اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ معیار آدمیت کس قدر گر رہا ہے۔ انہیں زیادہ سے زیادہ دولت چاہیے، اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ وہ کس ذریعہ سے حاصل ہوتی ہے۔ انہیں عیش و عشرت اور جسمانی لذتوں کے سامان زیادہ سے زیادہ مطلوب ہیں، اس ہوس رانی میں غرق ہو کر وہ اس بات سے بالکل غافل ہو گئے ہیں کہ اس روش کا انجام کیا ہے۔ انہیں زیادہ سے زیادہ طاقت ، زیادہ سے زیادہ فوجیں، زیادہ سے زیادہ ہتھیار فراہم کرنے کی فکر ہے اور اس معاملہ میں ان کے درمیان ایک دوسرےسے آگے نکل جانے کی دوڑ جا ری ہے، اس بات کی فکر انہیں نہیں ہے کہ یہ سب کچھ خدا کی زمین کو ظلم سے بھر دینے اور انسانیت کو تباہ و برباد کر دینے کا سرو سامان ہے۔ غرض تکاثر کی بے شمار صورتیں ہیں جنہوں نے اشخاص اور اقوام سب کو اپنے اندر ایسا مشغول کر رکھا ہے کہ انہیں دنیا اور اس کے فائدوں اور لذتوں سے بالاتکر کسی چیز کا ہوش نہیں رہا ہے |
Surah 102 : Ayat 7
ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَيْنَ ٱلْيَقِينِ
پھر (سن لو کہ) تم بالکل یقین کے ساتھ اُسے دیکھ لو گے