Ayats Found (3)
Surah 11 : Ayat 15
مَن كَانَ يُرِيدُ ٱلْحَيَوٲةَ ٱلدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَـٰلَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ
جو لوگ بس اِسی دنیا کی زندگی اور اس کی خو ش نمائیوں کے طالب ہوتے ہیں1 ان کی کار گزاری کا سارا پھل ہم یہیں ان کو دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی
1 | اس سلسلہ ٔ کلام میں یہ بات اس مناسبت سے فرمائی گئی ہے کہ قرآن کی دعوت کو جس قسم کے لوگ اُس زمانہ میں رد کر رہے تھے اور آج بھِ رد کر رہے ہیں وہ زیادہ تر وہی تھے اور ہیں جن کے دل و دماغ پر دنیا پرستی چھائی ہوئی ہے ۔ خدا کے پیغام کو رد کرنے کے لیے جو دلیل بازیاں وہ کرتے ہیں وہ سب تو بعد کی چیزیں ہیں۔ پہلی چیز جو اس انکار کا اصل سبب ہے وہ ان کے نفس کا یہ فیصلہ ہے کہ دنیا اور اس کے مادی فائدوں سے بالاتر کوئی چے قابل قدر نہیں ہے ، اور یہ کہ ان فائدوں سے متمع ہونے کے لیے ان کو پوری آزادی حاصل رہنی چاہیے |
Surah 11 : Ayat 16
أُوْلَـٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِى ٱلْأَخِرَةِ إِلَّا ٱلنَّارُۖ وَحَبِطَ مَا صَنَعُواْ فِيهَا وَبَـٰطِلٌ مَّا كَانُواْ يَعْمَلُونَ
مگر آخرت میں ایسے لوگوں کے لیے آگ کے سوا کچھ نہیں ہے 1(وہاں معلوم ہو جائے گا کہ) جو کچھ انہوں نے دنیا میں بنایا وہ سب ملیامیٹ ہو گیا اور اب ان کا سارا کیا دھرا محض باطل ہے
1 | یعنی جس کے پیشِ نظر محض دنیا اور اس کا فائدہ ہو، وہ اپنی دنیا بنانے کی جیسی کوشش یہاں کرے گا ویسا ہی اس کا پھل اسے یہاں مل جائَ گا۔ لیکن جب کہ آخرت اس کے پیشِ نظر نہیں ہے اور اس کے لیے اس نے کوئی کوشش بھی نہیں کی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کی دنیا طلب مساعی کی بار آوری کا سلسلہ آخرت تک دراز ہو۔ وہاں پھل پانے کا امکان تو صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کہ دنیا می آدمی کی سعی اُن کاموں کے لیے ہو جو آخرت میں بھی مانع ہوں۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص چاہتا ہے کہ ایک شاندار مکان اسے رہنے کے لیے ملے اور وہ اس کے لیے اُن تدابیر کو عمل میں لاتا ہے جن سے یہاں مکان بنا کرتے ہیں تو ضرور ایک عالی شان محل بن کر تیار ہو جائے گا اور اس کی کوئی اینٹ بھی محض اس بنا پر جمنے سے انکار نہ کرے گی کہ ایک کافر اسے جمانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ لیکن اس شخص کو اپنا یہ محل اور اس کا سارا سروسامان موت کی آخر ی ہچکی کے ساتھ ہی اِس دنیا میں چھوڑ دینا پڑے گا اور اس کی کوئی چیز بھی وہ اپنے ساتھ دوسرے عالم میں نہ لے جا سکے گا ۔ اگر اس نے آخرت میں محل تعمیر کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا ہے تو کوئی معقول وجہ نہیں کہ اس کا یہ م حل وہاں ا س کے ساتھ متنقل ہو۔ وہاں کوئی محل وہ پاسکتا ہے تو صرف اس صورت میں پاسکتا ہے جب کہ دنیا میں اس کی سعی اُن کاموں میں ہو جن سے قانونِ الہٰی کے مطابق آخرت کا محل بنا کرتا ہے۔ اب سوال کیا جا سکتا ہے کہ اس دلیل کا تقاضا تو صرف اتنا ہی ہے کہ وہاں اسے کوئی محل نہ ملے۔ مگر یہ کیا بات ہے کہ محل کے بجائے وہاں اسے آگ ملے؟ اس کا جواب یہ ہے (اور یہ قرآن ہی کا جواب ہے جو مختلف مواقع پر اس نے دیا ہے) کہ جو شخص آخرت کو نظر انداز کر کے محض دنیا کے لیے کام کرتا ہے و ہ لازمًا و فطرۃً ایسے طریقوں سے کام کرتا ہے جن سے آخرت میں محل کے بجائے آگ کا الاؤ تیار ہوتا ہے ۔ (ملاحظہ ہو سورۂ یونس ، حاشیہ نمبر ۱۲) |
Surah 17 : Ayat 18
مَّن كَانَ يُرِيدُ ٱلْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُۥ فِيهَا مَا نَشَآءُ لِمَن نُّرِيدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُۥ جَهَنَّمَ يَصْلَـٰهَا مَذْمُومًا مَّدْحُورًا
جو کوئی عاجلہ1 کا خواہشمند ہو، اسے یہیں ہم دے دیتے ہیں جو کچھ بھی جسے دینا چاہیں، پھر اس کے مقسوم میں جہنم لکھ دیتے ہیں جسے وہ تاپے گا ملامت زدہ اور رحمت سے محروم ہو کر2
2 | مطلب یہ ہے کہ جو شخص آخرت کو نہیں مانتا، یا آخرت تک صبر کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور اپنی کوششوں کا مقصود صرف دنیا اور اس کی کامیابیوں اور خوشحالیوں ہی کو بناتا ہے، اسے جو کچھ بھی ملےگا بس دنیا میں مل جائے گا۔ آخرت میں وہ کچھ نہیں پا سکتا۔ اور بات صرف یہیں تک نہ رہے گی کہ اسے کوئی خوشحالی آخرت میں نصیب نہ ہوگی، بلکہ مزید برآں دنیا پرستی، اور آخرت کی جوابدہی وذمہ داری سے بے پرواہی اس کے طرز عمل کو بنیادی طور پر ایسا غلط کر کے رکھ دے گی کہ آخرت میں وہ اُلٹا جہنم کا مستحق ہو گا۔ |
1 | عاجلہ کےلغوی معنی ہیں جلدی ملنے والی چیز۔ اور اصطلاحاً قرآن مجید اس لفظ کو دنیا کے لیے استعمال کرتا ہے جس کے فائدے اور نتائج اسی زندگی میں حاصل ہوجا تے ہیں۔ اس کے مقابلے کی اصطلاح”آخرت“ہے جس کے فوائد اور نتائج کو موت کے بعد دوسری زندگی تک موخر کر دیا گیاہے |