Ayats Found (5)
Surah 16 : Ayat 123
ثُمَّ أَوْحَيْنَآ إِلَيْكَ أَنِ ٱتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَٲهِيمَ حَنِيفًاۖ وَمَا كَانَ مِنَ ٱلْمُشْرِكِينَ
پھر ہم نے تمہاری طرف یہ وحی بھیجی کہ یک سو ہو کر ابراہیمؑ کے طریقے پر چلو اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا1
1 | یہ معترضین کے پہلے اعتراض کا مکمل جواب ہے۔ اس جواب کے دو اجزا ہیں۔ ایک یہ کہ خدا کی شریعت میں تضاد نہیں ہے، جیسا کہ تم نے یہودیوں کے مذہبی قانون اور شریعت محمدیؐ کے ظاہری فرق کو دیکھ کر گمان کیا ہے، بلکہ دراصل یہودیوں کو خاص طور پر ان کی نافرمانیوں کی پاداش میں چند نعمتوں سے محروم کیا گیا تھا جن سے دوسروں کو محروم کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ دوسرا جزء یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جس طریقے کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے وہ ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ ہے اور تمہیں معلوم ہے کہ ملتِ ابراہیمی میں وہ چیزیں حرام نہ تھیں جو یہودیوں کے ہاں حرام ہیں۔ مثلًا یہودی اونٹ نہیں کھاتے، مگر مِلّتِ ابراہیمی میں وہ حلال تھا۔ یہودیوں کے ہاں شتر مرغ، بط، خرگوش وغیرہ حرام ہیں، مگر ملّتِ ابراہیمی میں یہ سب چیزیں حلال تھیں۔ اس جواب کے ساتھ ساتھ کفارِمکّہ کو اس بات پر بھی متنبہ کر دیا گیا کہ نہ تم کو ابراہیمؑ سے کوئی واسطہ ہے نہ یہودیوں کو، کیونکہ تم دونوں ہی شرک کر رہے ہو۔ ملّتِ ابراہیمی کا اگر کوئی صحیح پیرو ہے تو وہ یہ نبی اور اس کے ساتھی ہیں جن کے عقائد اور اعمال میں شرک کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ |
Surah 2 : Ayat 135
وَقَالُواْ كُونُواْ هُودًا أَوْ نَصَـٰرَىٰ تَهْتَدُواْۗ قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَٲهِــۧمَ حَنِيفًاۖ وَمَا كَانَ مِنَ ٱلْمُشْرِكِينَ
یہودی کہتے ہیں: یہودی ہو تو راہ راست پاؤ گے عیسائی کہتے ہیں: عیسائی ہو، تو ہدایت ملے گی اِن سے کہو: 1"نہیں، بلکہ سب کو چھوڑ کر ابراہیمؑ کا طریقہ اور ابراہیمؑ مشر کو ں میں سے نہ تھا"
1 | اس جواب کی لطافت سمجھنے کے لیے دو باتیں نگا ہ میں رکھیے: ایک یہ کہ یہُودیّت اور عیسائیت دونوں بعد کی پیداوار ہیں۔ ”یہُودیّت“ اپنے اِس نام اور اپنی مذہبی خصُوصیات اور رسُوم و قواعد کے ساتھ تیسری چوتھی صدی قبل مسیح میں پیدا ہوئی۔ اور ”عیسائیت “ جن عقائد اورمخصُوص مذہبی تصوّرات کے مجمُوعے کا نام ہے وہ تو حضرت مسیح ؑ کے بھی ایک مُدت بعد وجود میں آئے ہیں۔ اب یہ سوال خود بخود پیداہوتا ہے کہ اگر آدمی کے برسرِ ہدایت ہونے کا مدار یہُودیّت یا عیسائیت اختیار کرنے ہی پر ہے ، تو حضرت ابراہیم ؑ اور دُوسرے انبیا اور نیک لوگ، جو اِن مذہبوں کی پیدائش سے صدیوں پہلے پیدا ہوئے تھے اور جن کو خود یہُودی اور عیسائی بھی ہدایت یافتہ مانتے ہیں، وہ آخر کس چیز سے ہدایت پاتے تھے؟ ظاہر ہے کہ وہ ”یہُودیّت“ اور ”عیسائیت“ نہ تھی۔ لہٰذا یہ بات آپ سے آپ واضح ہو گئی کہ انسان کے ہدایت یافتہ ہونے کا مدار اُن مذہبی خصُوصیّات پر نہیں ہے، جن کی وجہ سے یہ یہُودی اور عیسائی وغیرہ مختلف فرقے بنے ہیں، بلکہ دراصل اس کا مدار اُس عالمگیر صراطِ مستقیم کے اختیار کرنے پر ہے، جس سے ہر زمانے میں انسان ہدایت پاتے رہے ہیں۔ دُوسرے یہ کہ خود یہُودو نصاریٰ کی اپنی مقدس کتابیں اس بات پر گواہ ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ ایک اللہ کے سوا کسی دُوسرے کی پرستش ، تقدیس ، بندگی اور اطاعت کے قائل نہ تھے اور ان کا مشن ہی یہ تھا کہ خدائی کی صفات و خصُوصیات میں اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ ٹھیرایا جائے۔ لہٰذا یہ بالکل ظاہر ہے کہ یہُودیت اور نصرانیت دونوں اُس راہِ راست سے منحرف ہوگئی ہیں، جس پر حضرت ابراہیم ؑ چلتے تھے، کیونکہ ان دونوں میں شرک کی آمیزش ہو گئی ہے |
Surah 3 : Ayat 95
قُلْ صَدَقَ ٱللَّهُۗ فَٱتَّبِعُواْ مِلَّةَ إِبْرَٲهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ ٱلْمُشْرِكِينَ
کہو، اللہ نے جو کچھ فرمایا ہے سچ فرمایا ہے، تم کو یکسو ہو کر ابراہیمؑ کے طریقہ کی پیروی کرنی چاہیے، اور ابراہیمؑ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھا1
1 | مطلب یہ ہے کہ ان فقہی جزئیات میں کہاں جا پھنسے ہو ۔ دین کی جڑ تو اللہ واحد کی بندگی ہے جسے تم نے چھوڑ دیا اور شرک کی آلائشوں میں مبتلا ہوگئے۔ اب بحث کرتے ہو فقہی مسائل میں، حالانکہ یہ وہ مسائل ہیں جو اصل ملّتِ ابراہیمی سے ہٹ جانے کے بعد انحطاط کی طویل صدیوں میں تمہارے علماء کی موشگافیوں سے پیدا ہوئے ہیں |
Surah 4 : Ayat 126
وَلِلَّهِ مَا فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِۚ وَكَانَ ٱللَّهُ بِكُلِّ شَىْءٍ مُّحِيطًا
آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ کا ہے اور اللہ ہر چیز پر محیط ہے12
2 | یعنی اگر انسان اللہ کے آگے سر تسلیم خم نہ کرے اور سرکشی سے باز نہ آئے تو وہ اللہ کی گرفت سے بچ کر کہیں بھاگ نہیں سکتا ، اللہ کی قدرت اس کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے |
1 | یعنی اللہ کے آگے سرِ تسلیم خم کر دینا اور خود سَری و خود مختاری سے باز آجانا اِس لیے بہترین طریقہ ہے کہ یہ حقیقت کے عین مطابق ہے۔ جب اللہ زمین و آسمان کا اور ان ساری چیزوں کا مالک ہے جو زمین و آسمان میں ہیں تو انسان کے لیے صحیح رویّہ یہی ہے کہ اس کی بندگی و اطاعت پر راضی ہو جائے اور سر کشی چھوڑ دے |
Surah 16 : Ayat 123
ثُمَّ أَوْحَيْنَآ إِلَيْكَ أَنِ ٱتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَٲهِيمَ حَنِيفًاۖ وَمَا كَانَ مِنَ ٱلْمُشْرِكِينَ
پھر ہم نے تمہاری طرف یہ وحی بھیجی کہ یک سو ہو کر ابراہیمؑ کے طریقے پر چلو اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا1
1 | یہ معترضین کے پہلے اعتراض کا مکمل جواب ہے۔ اس جواب کے دو اجزا ہیں۔ ایک یہ کہ خدا کی شریعت میں تضاد نہیں ہے، جیسا کہ تم نے یہودیوں کے مذہبی قانون اور شریعت محمدیؐ کے ظاہری فرق کو دیکھ کر گمان کیا ہے، بلکہ دراصل یہودیوں کو خاص طور پر ان کی نافرمانیوں کی پاداش میں چند نعمتوں سے محروم کیا گیا تھا جن سے دوسروں کو محروم کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ دوسرا جزء یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جس طریقے کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے وہ ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ ہے اور تمہیں معلوم ہے کہ ملتِ ابراہیمی میں وہ چیزیں حرام نہ تھیں جو یہودیوں کے ہاں حرام ہیں۔ مثلًا یہودی اونٹ نہیں کھاتے، مگر مِلّتِ ابراہیمی میں وہ حلال تھا۔ یہودیوں کے ہاں شتر مرغ، بط، خرگوش وغیرہ حرام ہیں، مگر ملّتِ ابراہیمی میں یہ سب چیزیں حلال تھیں۔ اس جواب کے ساتھ ساتھ کفارِمکّہ کو اس بات پر بھی متنبہ کر دیا گیا کہ نہ تم کو ابراہیمؑ سے کوئی واسطہ ہے نہ یہودیوں کو، کیونکہ تم دونوں ہی شرک کر رہے ہو۔ ملّتِ ابراہیمی کا اگر کوئی صحیح پیرو ہے تو وہ یہ نبی اور اس کے ساتھی ہیں جن کے عقائد اور اعمال میں شرک کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ |