Ayats Found (3)
Surah 32 : Ayat 20
وَأَمَّا ٱلَّذِينَ فَسَقُواْ فَمَأْوَٮٰهُمُ ٱلنَّارُۖ كُلَّمَآ أَرَادُوٓاْ أَن يَخْرُجُواْ مِنْهَآ أُعِيدُواْ فِيهَا وَقِيلَ لَهُمْ ذُوقُواْ عَذَابَ ٱلنَّارِ ٱلَّذِى كُنتُم بِهِۦ تُكَذِّبُونَ
اور جنہوں نے فسق اختیار کیا ہے اُن کا ٹھکانا دوزخ ہے جب کبھی وہ اس سے نکلنا چاہیں گے اسی میں دھکیل دیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ چکھو اب اُسی آگ کے عذاب کا مزا جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے
Surah 71 : Ayat 25
مِّمَّا خَطِيٓـَٔـٰتِهِمْ أُغْرِقُواْ فَأُدْخِلُواْ نَارًا فَلَمْ يَجِدُواْ لَهُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ أَنصَارًا
اپنی خطاؤں کی بنا پر ہی وہ غرق کیے گئے اور آگ میں جھونک دیے گئے1، پھر انہوں نے اپنے لیے اللہ سے بچانے والا کوئی مددگار نہ پایا2
2 | یعنی اپنے جن معبودوں کو وہ اپنی حامی و مددگار سمجھتے تھے ان میں سےکوئی بھی انہیں بچانے کے لیے نہ آیا۔ یہ گویا تنبیہ تھی اہل مکہ کے لٍیے کہ تم بھی اگر خدا کے عذاب میں مبتلا ہو گئے تو تمہارے یہ معبود ، جن پر تم بھروسا کیے بیٹھے ہو، تمہارے کسی کام نہ آئیں گے |
1 | یعنی غرق ہونے پر ان کا قصہ تمام نہیں ہو گیا، بلکہ مرنے کے بعد فوراً ہی ان کی روحیں آگ کے عذاب میں مبتلا کر دی گئیں۔ یہ بعینہ وہی معاملہ ہے جو فرعون اور اس کی قوم کے ساتھ کیا گیا، جیسا کہ سورہ مومن ، آیات 45۔46 میں بیان کیا گیا ہے (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم، المومن، حاشیہ 63) ۔ یہ آیت بھی ان آیات میں سے ہے جس سے برزخ کا عذاب ثابت ہوتا ہے |
Surah 40 : Ayat 43
لَا جَرَمَ أَنَّمَا تَدْعُونَنِىٓ إِلَيْهِ لَيْسَ لَهُۥ دَعْوَةٌ فِى ٱلدُّنْيَا وَلَا فِى ٱلْأَخِرَةِ وَأَنَّ مَرَدَّنَآ إِلَى ٱللَّهِ وَأَنَّ ٱلْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحَـٰبُ ٱلنَّارِ
نہیں، حق یہ ہے اور اِس کے خلاف نہیں ہو سکتا کہ جن کی طرف تم مجھے بلا رہے ہو اُن کے لیے نہ دنیا میں کوئی دعوت ہے نہ آخرت میں1، اور ہم سب کو پلٹنا اللہ ہی کی طرف ہے، اور حد سے گزرنے والے آگ میں جانے والے ہیں2
2 | ’’حد سے گزر جانے‘‘ کا مطلب حق سے تجاوز کرنا ہے۔ ہر وہ شخص جو اللہ کے سوا دوسروں کی خدائی مانتا ہے یا خود خدا بن بیٹھتا ہے، یا خدا سے باغی ہو کر دنیا میں خود مختاری کا رویہ اختیار کرتا ہے، اور پھر اپنی ذات پر، خلق خدا پر اور دنیا کی ہر اس چیز پر جس سے اس کو سابقہ پیش آۓ، طرح طرح کی زیادتیاں کرتا ہے، وہ حقیقت میں عقل اور انصاف کی تمام حدوں کو پھاند جانے والا انسان ہے۔ |
1 | اس فقرے کے کئی معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ان کو نہ دنیا میں یہ حق پہنچتا ہے اور نہ آخرت میں کہ ان کی خدائی تسلیم کرنے کے لیے خلق خدا کو دعوت دی جاۓ۔ دوسرے یہ کہ انہیں تو لوگوں نے زبردستی خدا بنایا ہے ورنہ وہ خود نہ اس دنیا میں خدائی کے مدعی ہیں، نہ آخرت میں یہ دعویٰ لے کر اٹھیں گے کہ ہم بھی تو خدا تھے، تم نے ہمیں کیوں نہ مانا۔ تیسرے یہ کہ ان کو پکارنے کا کوئی فائدہ نہ اس دنیا میں ہے نہ آخرت میں، کیونکہ وہ بالکل بے اختیار ہیں اور انہیں پکارنا قطعی لا حاصل ہے |