Ayats Found (6)
Surah 22 : Ayat 8
وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يُجَـٰدِلُ فِى ٱللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَـٰبٍ مُّنِيرٍ
بعض اور لوگ ایسے ہیں جو کسی علم1 اور ہدایت2 اور روشنی بخشنے والی کتاب کے بغیر3، گردن اکڑائے ہوئے4
4 | اس میں تین کیفیتیں شامل ہیں : جاہلانہ ضد اور ہٹ دھرمی۔ تکبر اور غرور نفس۔ اور کسی سمجھانے والے کی بات کی طرف التفات نہ کرنا |
3 | یعنی وہ واقفیت جو خدا کی نازل کردہ کتاب سے حاصل ہوئی ہو |
2 | یعنی وہ واقفیت جو کسی دلیل سے حاصل ہوئی ہو یا کسی علم رکھنے والے کی رہنمائی سے |
1 | یعنی وہ ذاتی واقفیت جو براہ راست مشاہدے اور تجربے سے حاصل ہوئی ہو |
Surah 31 : Ayat 20
أَلَمْ تَرَوْاْ أَنَّ ٱللَّهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُۥ ظَـٰهِرَةً وَبَاطِنَةًۗ وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يُجَـٰدِلُ فِى ٱللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَـٰبٍ مُّنِيرٍ
کیا تم لوگ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے زمین اور آسمانوں کی ساری چیزیں تمہارے لیے مسخر کر رکھی ہیں1 اور اپنی کھلی اور چھپی نعمتیں2 تم پر تمام کر دی ہیں؟ اِس پر حال یہ ہے کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ ہیں جو اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں3 بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی عِلم ہو، یا ہدایت، یا کوئی روشنی دکھانے والی کتاب4
4 | یعنی اس طرح کے مسائل میں جھگڑے اور بحثیں کرتے ہیں کہ مثلاً اللہ ہے بھی یا نہیں؟اکیلا وہی ایک خدا ہے یا دوسرے خدا بھی ہیں؟ اس کی صفات کیا ہیں اور کیسی ہیں؟اپنی مخلوقات سے اسکے تعلق کی کیا نوعیت ہے؟ وغیرہ |
3 | یعنی اس طرح کے مسائل میں جھگڑے اور بحثیں کرتے ہیں کہ مثلاً اللہ ہے بھی یا نہیں؟اکیلا وہی ایک خدا ہے یا دوسرے خدا بھی ہیں؟ اس کی صفات کیا ہیں اور کیسی ہیں؟اپنی مخلوقات سےاسکے تعلق کی کیا نوعیت ہے؟ وغیرہ |
2 | کھلی نعمتوں سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو آدمی کو کسی نہ کسی طرح محسوس ہوتی ہیں، یا جو اس کے علم میں ہیں۔ اور چھپی ہوئی نعمتوں سے وہ نعمتیں مراد ہیں جنہیں آدمی نہ جانتا ہے نہ محسوس کرتا ہے۔ بے حد وحساب چیزیں ہیں جوانسان کے اپنے جسم میں اور اس کے باہر دُنیا میں اس کے مفاد کے لیے کام کر رہی ہیں، مگر انسان کو ان کا پتہ تک نہیں ہے کہ اس کے خالق نے اس کی حفاظت کے لیے، اس کی رز ق رسانی کے لیے، اس کے نشو و نما کے لیے، اور اس کی فلاح کے لیے کیا کیا سر و سامان فراہم کر رکھا ہے۔ سائنس کے مختلف شعبوں میں انسان تحقیق کے جتنے قدم آگے بڑھاتا جا رہا ہے، اس کے سامنے خدا کی بہت سی وہ نعمتیں بے نقاب ہوتی جا رہی ہیں جو پہلےاس سے بالکل مخفی تھیں، اورآج تک جن نعمتوں پر سے پردہ اٹھا ہے وہ ان نعمتوں کے مقابلے میں درحقیقت کسی شمار میں بھی نہیں ہیں جن پر سےاب تک پردہ نہیں اٹھا ہے۔ |
1 | بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی عِلم ہو، یا ہدایت، یا کوئی روشنی دکھانے والی کتاب۔ |
Surah 22 : Ayat 9
ثَانِىَ عِطْفِهِۦ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِۖ لَهُۥ فِى ٱلدُّنْيَا خِزْىٌۖ وَنُذِيقُهُۥ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ عَذَابَ ٱلْحَرِيقِ
خدا کے بارے میں جھگڑتے ہیں تاکہ لوگوں کو راہِ خدا سے بھٹکا دیں1 ایسے شخص کے لیے دُنیا میں رُسوائی ہے اور قیامت کے روز اُس کو ہم آگ کے عذاب کا مزا چکھائیں گے
1 | پہلے ان لوگوں کا ذکر تھا جو خود گمراہ ہیں۔ اور اس آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو خود ہی گمراہ نہیں ہیں بلکہ دوسروں کو بھی گمراہ کرنے پر تلے رہتے ہیں |
Surah 22 : Ayat 10
ذَٲلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ يَدَاكَ وَأَنَّ ٱللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّـٰمٍ لِّلْعَبِيدِ
یہ ہے تیرا وہ مستقبل جو تیرے اپنے ہاتھوں نے تیرے لیے تیار کیا ہے ورنہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے
Surah 31 : Ayat 6
وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَشْتَرِى لَهْوَ ٱلْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًاۚ أُوْلَـٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ
اور انسانوں ہی میں سے کوئی ایسا بھی ہے1 جو کلام دلفریب خرید کر لاتا ہے2 تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستہ سے علم کے بغیر بھٹکا دے3 اور اس راستے کی دعوت کو مذاق میں اڑا دے4 ایسے لوگوں کے لیے سخت ذلیل کرنے والا عذاب ہے5
5 | یہ سزا ان کے جرم کی مناسبت سے ہے۔وہ خدا کے دین اور اس کی آیات اور اس کے رسول کی تذلیل کرنا چاہتے ہیں۔خدا اس کے بدلے میں ان کو سخت ذلت کا عذاب دے گا۔ |
4 | یعنی جب یہ لوگ اللہ کے سوا اس کائنات میں کسی دوسرے کی تخلیق کی کوئی نشان دہی نہیں کر سکتے اور ظاہر ہے کہ نہیں کر سکتے، تو ان کا غیر خالق ہستیوں کو خدائی میں شریک ٹھہرانا اور ان کے آگے سرِ نیاز جھکانا اور ان سے دعائیں مانگنا اور حاجتیں طلب کرنا بجز اس کے کہ صریح بے عقلی ہے اور کوئی دوسر ی تاویل اُن کے اس احمقانہ فعل کی نہیں کی جا سکتی۔ جب تک کوئی شخص بالکل ہی نہ بہک گیا ہو اس سے اتنی بڑی حماقت سرزد نہیں ہو سکتی کہ آپ کے سامنے وہ خود اپنے معبودوں کے غیر خالق ہونے اور صرف اللہ ہی کے خالق ہونے ک اعتراف کرے اور پھر بھی انہیں معبود ماننے پر مُصِر رہے۔ کسی کے بھیجے میں ذرہ برابر بھی عقل ہو تو و ہ لامحالہ یہ سوچے گا کہ جو کسی چیز کے پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے، اور جس کا زمین و آسمان کی کسی شے کی تخلیق میں برائے نام بھی کوئی حصہ نہیں ہے وہ آخر کیوں ہمارا معبود ہو؟ کیوں ہم اس کے آگے سجدہ ریز ہوں یا اس کی قدم بوسی و آستانہ بوسی کرتے پھریں؟ کیا طاقت اس کے پاس ہے کہ وہ ہماری فریاد رسی اور حاجت روائی کر سکے؟ بالفرض وہ ہماری دُعاؤں کو سنتا بھی ہو تو ان کے جواب میں وہ خود کیا کارروائی کر سکتے ہے جبکہ وہ کچھ بنانے کے اختیارات رکھتا ہی نہیں؟ بگڑتی وہی بنائے گا جو کچھ بنا سکتا ہو نہ کہ وہ جو کچھ بھی نہ بنا سکتا ہو۔ |
3 | ’’علم کے بغیر‘‘ کا تعلق ’’خریدتا ہے‘‘ کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے اور ’’بھٹکادے‘‘ کے ساتھ بھی۔اگر اس کا تعلق پہلے فقرے سے مانا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ وہ جاہل اور نادان آدمی اس دلفریب چیز کو خریدتا ہے اور کچھ نہیں جانتا کہ کیسی قیمتی چیز کو چھوڑ کر وہ کس تباہ کن چیز کو خرید رہا ہے۔ایک طرف حکمت اور ہدایت سے لبریز آیاتِ الٰہی ہیں جو مفت اسے مل رہی ہیں مگر وہ ان سے منہ موڑ رہا ہے۔دوسری طرف یہ بیہودہ چیزیں ہیں جو فکر و اخلاق کو غارت کر دینے والی ہیں اور وہ اپنا مال خرچ کر کے انھیں حاصل کر رہا ہے۔اور اگر اسے دوسرے فقرے سے متعلق سمجھا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ علم کے بغیر لوگوں کی رہنمائی کرنے اُٹھا ہے، اسے یہ شعور نہیں ہے کہ خلقِ خدا کو راہ خدا سے بھٹکانے کی کوشش کر کے وہ کتنا بڑا مظلمہ اپنی گردن پر لے رہا ہے۔ |
2 | اصل لفظ ہیں’’ لَھُوَ الْحَدِیث‘‘ یعنی ایسی بات جو آدمی کو اپنے اندر مشغول کر کے ہر دوسری چیز سے غافل کر دے۔ لعنت کے اعتبار سے تو ان الفاظ میں کوئی ذم کا پہلو نہیں ہے۔ لیکن استعمال میں ان کا اطلاق بُری اور فضول اور بے ہودہ باتوں پر ہی ہوتا ہے، مثلاً گپ، خرافات، ہنسی مذاق، داستانیں، افسانے اور ناول، گانا بجانا اور اسی طرح کی دوسری چیزیں۔ لہو الحدیث ’’خریدنے‘‘ کا مطلب یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ وہ حدیثِ حق کو چھوڑ کر حدیثِ باطل کو اختیار کرتا ہے اور ہدایت سے منہ کوڑ کر ان باتوں کی طرف راغب ہوتا ہے جن میں اس کے لئے نہ دنیا میں کوئی بھلائی ہے نہ آخرت میں۔ لیکن یہ مجازی معنی ہیں۔ حقیقی معنی اس فقرے کے یہی ہیں کہ آدمی اپنا مال صَرف کر کے کوئی بیہودہ چیز خریدے۔ اور بکثرت روایات بھی اسی تفسیر کی تائید کرتی ہیں۔ ابن ہشام نے محمد بن اصحاق کی روایت نقل کی ہے کہ جب نبی صل اللہ علیہ و سلم کی دعوت کفار مکّہ کی ساری کوششوں کے باوجود پھیلتی چلی جا رہی تھی تو نَضَر بن حارِث نے قریش کے لوگوں سے کہا کہ جس طرح تم اس شخص کا مقابلہ کر رہے ہو اس سے کام نہ چلے گا۔ یہ شخص تمہارے درمیان بچپن سے ادھیڑ عمر کو پہنچا ہے۔ آج تک وہ اپنے اخلاق میں تمہارا سب سے بہتر آدمی تھا۔ سب سے زیادہ سچا اور سب سے بڑھ کر امانت دار تھا۔ اب تم کہتے ہو کہ وہ کاہن ہے، ساحر ہے، شاعر ہے، مجنوں ہے۔ آخر ان باتوں کو کون باور کرے گا۔ کیا لوگ ساحروں کو نہیں جانتے کہ وہ کس قسم کی جھاڑ پھونک کرتے ہیں؟ کیا لوگوں کو معلوم نہیں کہ کاہن کس قسم کی باتیں بنایا کرتے ہیں؟ کیا لوگ شعر و شاعری سے نا واقف ہیں؟ کیا لوگوں کو جُنون کی کیفیات کا علم نہیں ہے؟ اِن اِلزامات میں سے کونسا الزام محمد (صلی اللہ علیہ و سلم ) پر چسپاں ہوتا ہے کہ اس کا یقین دلا کر تم عوام کو اُس کی طرف توجہ کرنے سے روک سکو گے۔ ٹھیرو، اس کا علاج میں کرتا ہوں۔ اس کے بعد وہ مکہ سے عراق گیا اور وہاں سے شاہان عجم کے قصے اور رستم و اسفند یار کی داستانیں لا کر اس نے قصہ گوئی کی محفلیں برپا کرنا شروع کر دیں تاکہ لوگوں کی توجہ قرآن سے ہٹے اور ان کہانیوں میں کھو جائیں (سیرۃ ابن ہشام ،ج ۱،ص۳۲۰۔۳۲۱) یہی روایات اسباب النزول میں واحدی نے کَلْبی اور مُقاتِل سے نقل کی ہے۔ اور ابن عباسؒ نے اس پر مزید اضافہ کیا ہے کہ نَضْر نے اس مقصد کے لئے گانے والی لونڈیاں بھی خریدی تھیں۔ جس کسی کے متعلق وہ سنتا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی باتوں سے متاثر ہو رہا ہے اس پر اپنی لونڈی مسلط کر دیتا اور اس سے کہتا کہ اسے خوب کھلا پلا اور گانا سناتا کہ تیرے ساتھ مشغول ہو کر اس کا دل ادھر سے ہٹ جائے۔ یہ قریب قریب وہی چال تھی جس سے قوموں کے اکابر مجرمین ہر زمانے میں کام لیتے رہے ہیں۔ وہ عوام کو کھیل تماشوں اور رقص و سرود (کلچر ) میں غرق کر دینے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ انہیں زندگی کے سنجیدہ مسائل کی طرف توجہ کرنے کا ہوش ہی نہ رہے اور اِس عالم مستی میں ان کو سرے سے یہ محسوس ہی نہ ہونے پائے کہ انہیں کس تباہی کی طرف ڈھکیلا جا رہا ہے۔ لہوالحدیث کی یہی تفسیر بکثرت صحابہ و تابعین سے منقول ہے۔ عبداللہ بن مسعودؓ سے پوچھا گیا کہ اس آیت میں لہوالحدیث سے کیا مُراد ہے ؟انہوں نے تین مرتبہ زور دے کر فرمایا ھوواللہ الغناء،’’خدا کی قسم اس سے مُراد گانا ہے‘‘۔ (ابن جریر)ابن ابی شیبہ، حاکم بہقی)۔ اسی سے ملتے جلتے اقوال حضرت عبداللہ بن عباس، جابر بن عبداللہ، مجاہد، عِکرمہ، سعید بن جُبیر، حسن بصری اور مَکُحول سے مروی ہیں۔ ابن ابی جریر، ابن ابی حاتم اور ترمذی نے حضرت ابواُمہؓ باہلی کی یہ نقل روایت کی ہے کہ نبی صلہ اللہ علیہ و سلم نے فرمایا لا یحل بیع المغنیات ولا شراؤھن ولاالتجارۃ فیھن ولا اثمانھن’’مغنیہ عورتوں کا بیچنا اور خریدنا اور ان کی تجارت کرنا حلال نہیں ہے اور نہ اُن کی قیمت لینا حلال ہے۔‘‘ایک دوسری روایت میں آخری فقرے کے الفاظ یہ ہیں اکل ثمنھن حرام۔’’ان کی قیمت کھانا حرام ہے ‘‘۔ایک اور روایت انہی ابو اُمامہؓ سے ان الفاظ میں منقول ہے کہ لایحل تعلیم المغنیات ولا بیعھن ولا شراؤھن و ثمنھن حرام۔ ’’لونڈیوں کو گانے بجانے کی تعلیم دینا اور ان کی خرید و فروخت کرنا حلال نہیں ہے، اور ان کی قیمت حرام ہے۔‘‘ان تینوں حدیثوں میں یہ صراحت بھی ہے کہ آیت مَنْیَّشْترِیْلَھْوالْحَدِیثِ۔ ان ہی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ قاضی ابوبکر ابن العربی ’’احکام القرآن‘‘ میں حضرت عبداللہ بن مبارک اور امام مالک ؒ کے حوالے سے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا من خلس الیٰ قینۃ یسمع منھا صُبّ فی اذنیہ الاٰنُک یَوم القیٰمۃ۔ جو شخص گانے والی مجلس میں بیٹھ کر اس کا گانا سنے گا قیامت کے روزاس کے کان میں پگھلا ہُوا سیسہ ڈالا جائے گا۔‘‘( اس سلسلے میں یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ اُس زمانے میں بجانے کی ’’ثقافت‘‘تمام تر، بلکہ کلیتہً لونڈیوں کی بدولت زندہ تھی۔ آزاد عورتیں اس وقت تک ’’آرٹسٹ‘‘ نہ بنی تھیں۔ اسی لئے حضورؐ نے مغنیات کی بیع و شاکا ذکر فرمایا اور ان کی فیس کو قیمت کے لفظ سے تعبیر کیا اور گانے والی خاتون کے لئے قَینَہ کا لفظ استعمال کیا جو عربی زبان میں لونڈی کے لئے بولا جاتا ہے) |
1 | یعنی ایک طرف تو خدا کی طرف سے یہ رحمت اور ہدایت آئی ہوئی ہے جس سے کچھ لوگ فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ دوسری طرف انہی خوش نصیب انسانوں کے پہلو بہ پہلو ایسے بدنصیب لوگ بھی موجود ہیں جو اللہ کی آیات کے مقابلہ میں یہ طرز عمل اختیار کر رہے ہیں۔ |
Surah 31 : Ayat 7
وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِ ءَايَـٰتُنَا وَلَّىٰ مُسْتَكْبِرًا كَأَن لَّمْ يَسْمَعْهَا كَأَنَّ فِىٓ أُذُنَيْهِ وَقْرًاۖ فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ
اسے جب ہماری آیات سنائی جاتی ہیں تو وہ بڑے گھمنڈ کے ساتھ اس طرح رخ پھیر لیتا ہے گویا کہ اس نے انہیں سنا ہی نہیں، گویا کہ اس کے کان بہرے ہیں اچھا، مژدہ سُنا دو اسے ایک درد ناک عذاب کا