Ayats Found (2)
Surah 22 : Ayat 11
وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَعْبُدُ ٱللَّهَ عَلَىٰ حَرْفٍۖ فَإِنْ أَصَابَهُۥ خَيْرٌ ٱطْمَأَنَّ بِهِۦۖ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ ٱنقَلَبَ عَلَىٰ وَجْهِهِۦ خَسِرَ ٱلدُّنْيَا وَٱلْأَخِرَةَۚ ذَٲلِكَ هُوَ ٱلْخُسْرَانُ ٱلْمُبِينُ
اور لوگوں میں کوئی ایسا ہے جو کنارے پر رہ کر اللہ کی بندگی کرتا ہے1، اگر فائدہ ہوا تو مطمئن ہو گیا اور جو کوئی مصیبت آ گئی تو الٹا پھر گیا2 اُس کی دنیا بھی گئی اور آخرت بھی یہ ہے صریح خسارہ3
3 | یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے جو چند لفظوں میں بیان کر دی گئی ہے۔ مذبذب مسلمان کا حال در حقیقت سب سے بد تر ہوتا ہے۔ کافر اپنے رب سے بے نیاز ، آخرت سے بے پروا، اور قوانین الہٰی کی پابندیوں سے آزاد ہو کر جب یکسوئی کے ساتھ مادی فائدوں کے پیچھے پڑجاتا ہے تو چاہے وہ اپنی آخرت کھو دے ، مگر دنیا تو کچھ نہ کچھ بنا ہی لیتا ہے۔ اور مومن جب پورے صبر و ثبات اور عزم و استقلال کے ساتھ خدا کے دین کی پیروی کرتا ہے تو اگرچہ دنیا کی کامیابی بھی آخر کار اس کے قدم چوم کررہتی ہے ، تاہم اگر دنیا بالکل ہی اس کے ہاتھ سے جاتی رہے ، آخرت میں بہر حال اس کی فلاح و کامرانی یقینی ہے۔ لیکن یہ مذبذب مسلمان نہ اپنی دنیا ہی بنا سکتا ہے اور نہ آخرت ہی میں اس کے لیے فلاح کا کوئی امکان ہے۔ دنیا کی طرف لپکتا ہے تو کچھ نہ کچھ خدا اور آخرت کے ہونے کا گمان جو اس کے دل ودماغ کے کسی کونے میں رہ گیا ہے ، اور کچھ نہ کچھ اخلاقی حدود کا لحاظ جو اسلام سے تعلق نے پیدا کر دیا ہے ، اس کا دامن کھینچتا رہتا ہے ، اور خالص دنیا طلبی کے لیے جس یکسوئی و استقامت کی ضرورت ہے وہ کافر کی طرح اسے بہم نہیں پہنچتی۔ آخرت کا خیال کرتا ہے تو دنیا کے فائدوں کا لالچ اور نقصانات کا خوف ، اور خواہشات پر پابندیاں قبول کرنے سے طبیعت کا انکار اس طرف جانے نہیں دیتا بلیہ دنیا پرستی اس کے عقیدے اور عمل کو اتنا کچھ بگاڑ دیتی ہے کہ آخرت میں اس کا عذاب سے بچنا ممکن نہیں رہتا۔ اس طرح وہ دنیا بھی کھوتا ہے اور آخرت بھی |
2 | اس سے مراد ہیں وہ خام سیرت ، مضطرب العقیدہ اور بندۂ نفس لوگ جو اسلام قبول تو کرتے ہیں مگر فائدے کی شرط کے ساتھ۔ ان کا ایمان اس شرط کے ساتھ مشروط ہوتا ہے کہ ان کی مرادیں پوری ہوتی رہیں ، ہر طرح چین ہی چین نصیب ہو، نہ خدا کا دین ان سے کسی قربانی کا مطالبہ کرے ، اور نہ دنیا میں ان کی کوئی خواہش اورآرزو پوری ہونے سے رہ جائے۔ یہ ہو تو خدا سے وہ راضی ہیں اور اس کا دین ان کے نزدیک بہت اچھا ہے۔ لیکن جہاں کوئی آفت آئی ، یا خدا کی راہ میں کسی مصیبت اور مشقت اور نقصان سے سابقہ پیش آگیا، یا کوئی تمنا پوری ہونے سے رہ گئی ، پھر ان کو خدا کی خدائی اور رسول کی رسالت اور دین کی حقانیت ، کسی چیز پر بھی اطمینان نہیں رہتا۔ پھر وہ ہر اس آستانے پر جھکنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں جہاں سے ان کو فائدے کی امید اور نقصان سے بچ جانے کی توقع ہو |
1 | یعنی دائرہ دین کے وسط میں نہیں بلکہ کنارے پر ، یا بالفاظ دیگر کفر واسلام کی سرحد پر کھڑا ہوکر بندگی کرتا ہے۔ جیسے ایک مذبذب آدمی کسی فوج کے کنارے پرکھڑا ہو، اگر فتح ہوتی دیکھے تو ساتھ آ ملے اورشکست ہوتی دیکھے تو چپکے سے سٹک جائے |
Surah 22 : Ayat 13
يَدْعُواْ لَمَن ضَرُّهُۥٓ أَقْرَبُ مِن نَّفْعِهِۦۚ لَبِئْسَ ٱلْمَوْلَىٰ وَلَبِئْسَ ٱلْعَشِيرُ
وہ اُن کو پکارتا ہے جن کا نقصان اُن کے نفع سے قریب تر ہے1 بدترین ہے اُس کا مولیٰ اور بدترین ہے اُس کا رفیق2
2 | یعنی جس نے بھ اس کو اس راستے پر ڈالا ، خواہ وہ کوئی انسان ہو یا شیطان ، وہ بد ترین کار ساز و سرپرست اور بد ترین دوست اور ساتھی ہے |
1 | پہلی آیت میں معبود ان غیر اللہ کے نافع و ضار ہونے کی قطعی نفی کی گئی ہے ، کیونکہ حقیقت کے اعتبار سے وہ کسی نفع و ضرر کی قدرت نہیں رکھتے۔ دوسری آیت میں ان کے نقصان کو ان کے نفع سے قریب تر بتایا گیا ہے ، کیونکہ ان سے دعائیں مانگ کر اور ان کے آگے حاجت روائی کے لیے ہاتھ پھیلا کر وہ اپنا ایمان تو فوراً اور یقیناً کھو دیتا ہے۔ رہی یہ بات کہ وہ نفع اسے حاصل ہو جس کی امید پر اس نے انہیں پکارا تھا، توحقیقت سے قطع نظر ، ظاہر حال کے لحاظ سے بھی وہ خود مانے گا کہ اس کا حصول نہ تو یقینی ہے اور نہ قریب الوقوع۔ ہو سکتا ہے کہ اللہ اس کو مزید فتنے میں ڈالنے کے لیے آستانے پر اس کی مراد بر لائے، اور ہو سکتا ہے کہ اس آستانے پر وہ اپنا ایمان بھی بھینٹ چڑھا آئے اور اپنی مراد بھی نہ پائے |