Ayats Found (5)
Surah 4 : Ayat 36
۞ وَٱعْبُدُواْ ٱللَّهَ وَلَا تُشْرِكُواْ بِهِۦ شَيْــًٔاۖ وَبِٱلْوَٲلِدَيْنِ إِحْسَـٰنًا وَبِذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْيَتَـٰمَىٰ وَٱلْمَسَـٰكِينِ وَٱلْجَارِ ذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْجَارِ ٱلْجُنُبِ وَٱلصَّاحِبِ بِٱلْجَنۢبِ وَٱبْنِ ٱلسَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَـٰنُكُمْۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالاً فَخُورًا
اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ، اور پڑوسی رشتہ دار سے، اجنبی ہمسایہ سے، پہلو کے ساتھی1 اور مسافر سے، اور اُن لونڈی غلاموں سے جو تمہارے قبضہ میں ہوں، احسان کا معاملہ رکھو، یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کر ے
1 | متن میں”الصا حب بالجنب“ فرمایا گیا ہے جس سے مراد ہم نشین دوست بھی ہےاور ایسا شخص بھی جس سے کہیں کسی وقت آدمی کا ساتھ ہو جائے۔ مثلاً آپ بازار میں جا رہے ہوں اور کوئی شخص آپ کے ساتھ راستہ چل رہا ہو، یا کسی دوکان پر آپ سودا خرید رہے ہوں اور کوئی دوسرا خریدا ر بھی آپ کے پاس بیٹھا ہو ، یاسفر کے دوران میں کوئی شخص آپ کا ہم سفر ہو۔ یہ عارضی ہمسائیگی بھی ہر مہذّب اور شریف انسان پر ایک حق عائد کرتی ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ حتی الامکان اس کے ساتھ نیک برتا ؤ کرے اور اسے تکلیف دینے سے مجتنب رہے |
Surah 4 : Ayat 37
ٱلَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ ٱلنَّاسَ بِٱلْبُخْلِ وَيَكْتُمُونَ مَآ ءَاتَـٰهُمُ ٱللَّهُ مِن فَضْلِهِۦۗ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَـٰفِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا
اور ایسے لوگ بھی اللہ کو پسند نہیں ہیں جو کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کی ہدایت کرتے ہیں اور جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اسے چھپاتے ہیں1 ایسے کافر نعمت لوگوں کے لیے ہم نے رسوا کن عذاب مہیا کر رکھا ہے
1 | اللہ کے فضل کو چھُپانا یہ ہے کہ آدمی اس طرح رہے گویا کہ اللہ نے اس پر فضل نہیں کیا ہے۔ مثلاً کسی کو اللہ نے دولت دی ہو اور وہ اپنی حیثیت سے گِر کر رہے۔ نہ اپنی ذات اور اپنے اہل و عیّال پر خرچ کرے، نہ بندگانِ خدا کی مدد کرے، نہ نیک کاموں میں حصّہ لے۔ لوگ دیکھیں تو سمجھیں کہ بیچارہ بڑا ہی خستہ حال ہے۔ یہ دراصل اللہ تعالٰی کی سخت نا شکری ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انّ اللہ اذا انعم نعمة علی عبد احبّ ان یظھر اثرھا علیہ، اللہ جب کسی بندے کو نعمت دیتا ہے تو وہ پسند کرتا ہے کہ اس نعمت کا اثر بندے پر ظاہر ہو۔ یعنی اس کے کھانے پینے، رہنے سہنے، لباس اور مسکن، اور اس کی داد و دہش، ہر چیز سے اللہ کی دی ہوئی اس نعمت کا اظہار ہوتا رہے |
Surah 17 : Ayat 23
۞ وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوٓاْ إِلَّآ إِيَّاهُ وَبِٱلْوَٲلِدَيْنِ إِحْسَـٰنًاۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ ٱلْكِبَرَ أَحَدُهُمَآ أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلاً كَرِيمًا
تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے1 کہ: تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو، مگر صرف اُس کی 2والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو اگر تمہارے پاس اُن میں سے کوئی ایک، یا دونوں، بوڑھے ہو کر رہیں تو انہیں اف تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو، بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو
2 | اس کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی پرستش اور پوجا نہ کرو، بلکہ یہ بھی ہے کہ بندگی اور غلامی اور بے چون و چرا اطاعت بھی صرف اسی کی کرو، اسی کے حکم کو حکم اور اسی کے قانون کو قانون مانو اور اس کے سوا کسی کا اقتدار اعلیٰ تسلیم نہ کرو۔ یہ صرف ایک مذہبی عقیدہ، اور صرف انفرادی طرز عمل کے لیے ایک ہدایت ہی نہیں ہے بلکہ اُس پورے نظام اخلاق و تمدن و سیاست کا سنگِ بنیاد بھی ہے جو مدینہ طیبہ پہنچ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً قائم کیا۔ اس کی عمارت اسی نظریے پر اٹھائی گئی تھی کہ اللہ جل شانہ ہی ملک کا مالک اور بادشاہ ہے، اور اسی کی شریعت ملک کا قانون ہے۔ |
1 | یہاں وہ بڑے بڑے بنیادی اصول پیش کیے جا رہے ہیں جن پر اسلام پوری انسانی زندگی کے نظام کی عمارت قائم کرنا چاہتا ہے۔ یہ گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا منشور ہے جسے مکی دور کے خاتمے اور آنے والے مدنی دور کے نقطہ آغاز پر پیش کیا گیا، تاکہ دنیا بھر کو معلوم ہو جائے کہ اس نئے اسلامی معاشرے اور ریاست کی بنیاد کن فکری، اخلاقی، تمدنی، معاشی اور قانونی اصولوں پر رکھی جائے گی۔ اس موقع پر سورہ انعام کے رکوع ١۹ اور اس کے حواشی پر بھی ایک نگاہ ڈال لینا مفید ہوگا۔ |
Surah 29 : Ayat 8
وَوَصَّيْنَا ٱلْإِنسَـٰنَ بِوَٲلِدَيْهِ حُسْنًاۖ وَإِن جَـٰهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِى مَا لَيْسَ لَكَ بِهِۦ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَآۚ إِلَىَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
ہم نے انسان کو ہدایت کی ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرے لیکن اگر وہ تجھ پر زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسے (معبُود) کو شریک ٹھیرائے جسے تو (میرے شریک کی حیثیت سے) نہیں جانتا تو ان کی اطاعت نہ کر1 میری ہی طرف تم سب کو پلٹ کر آنا ہے، پھر میں تم کو بتا دوں گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو2
2 | یعنی یہ دینا کی رشتہ داریاں اور ان کے حقوق تو بس اسی دینا تک ہیں۔ آخر کار ماں پاب کو بھی اور اولاد کو بھی خالق کے حضور پٹ کر جانا ہے اور وہاں ہر ایک کی باز پرس اس کی شخصی ذمہ داری کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ اگر ماں باپ نے اولاد کو گمراہ کیا ہے تو وہ پکڑسے جائیں گے۔ اگر اولاد نے ماں باپ کی خطر گمراہی ہی قبول کہ ہے تو اسے سزا ملے گی اور اگر اولاد نے راہ راست اختیار کی اور ماں باپ کے جائز حقوق ادا کرنے میں کوتا ہیئ نہ کی لیکن ماں باپ نے صرف اس قصور پر اسے ستایا کہ اس نے گمراہی میں ان کا ساتھ کیوں نہ دیا، تو وہ اللہ کے مواخذے سے نبچ نہ سکیں گے |
1 | اس آیت کے متعلق مسلم ترمذی، احمد ابوداؤد اور انسانی کی روایت ہے کہ یہ حضرت سعد بن ابی وقاض کے باے میں نازک ہوئی ہے وہ ۱۸۔۱۹ سال کے تھے جب انہوں نے اسلام قبول کیا۔ ان کی ماں حمنہ بنت سُفیان بن امیہ (ابوسفیان کی بھتیجی) وک جب معلام ہوا کہ بیٹا مسلمان ہو گیا تو اس نہ کہا کہ جب تک تو محمد ﷺ کا انکار نہ کرے گا میں نہ کھاؤں گی نہ پیوں گی نہ سائے میں بیٹھوں گی۔ ماں اک حق ادا کرنا تو اللہ کا حکم ہے تو میری بات نہ مانے گا تو اللہ کی نافرمانی کرے گا۔ حضرت سعد اس پر سخت پرشیان ہوئے اور رسولﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر ماجرا عرض کیا ؤ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ممکن ہے کہ ایسے حالات سے دوسرے وہ نوجوان بھی دو چار ہوئے ہوں جو مکہ معظمہ کے اتبدائی دور میں مسلمان ہوئے تھے۔ اسی طرح اس مضمون کو سورہ لقمان میں بھی پورے زور کے ساتھ دوہریا گیا تھا (ملاخطہ ہو آیت ۱۵)۔ آیت کا منشایہ ہے کہ اندسان پر مخلوقات میں کسی کا حق سب سے بڑھ کرہے تو وہ اس کے ماں باپ میں لیکن ماں باپ بھی اگر انسان کو شرک پر مجبور کریں تو ان کی بات قبول نہ کرنی چاہیے کجا کہ کسی اور کہے کہنے پر آدمی ایسا کرے پھر الفاظ یہ ہیں کہ وَان جَاھَدَاک۔ اگر وہ دنوں تجھے مجبور کرنے کے لیے اپنا پورا زور بھی لگا دیں۔ اس سے معلام ہوا مکہ تم تر درجے کا دباؤ یا ماں باپ میں کسی ایک کا زور دینا بدرجہ اولی رد کر دینے کے لائق ہے۔ اس کے ساتھ مَا لَیَیسَ لَکَ بَہ عَلم (جسے تو میرے شریک کی حثییت سے نہیں جانتا)کا فقرہ بھی قابل غور ہے۔ اس میں اُن کی بات نہ ماننے کے لیے ایک معقول دلیل دی گئی ہے۔ ماں باپ کا یہ حق تق بے شک ہے کہ اولاد ان کی خدمت کرے ان کا ادب و احترام کرے ان کی جائز باتوں میں ان کی اطاعت بھی کرے۔ لیکن یہ حق ان کو پنچتا کہ آدمی اپنے علم کے خلاف ان کی اندھی تقلید کرے۔ کوئی وجہ نہیں ہے کہ ایک بیٹا یا بیٹی صرف اس بنا پر ایک مذہب کی پیروی لیے جائے کہ یہ اس کے ماں باپ کا مذہب ہے۔ اگر اولاد کو یہ علم حاصل ہو جائے کہ والدین کا مذہب غلط ہے تو اسےاس مذہب کو چھوڑ کر صحیح مذہب اختیار کرنا چاہیے اور ان کے دباؤ ڈالنے پر بھی اس طریقے کی پیروی نہ کرنی چوہیے جس کی گمراہی اس پر کھل چکی ہوا۔ اور یہ معاملہ جب والدین کے ساتھ ہے تو پھر دنیا کے ہر شخص کے ساتھ بھی یہی ہونا چاہیے ۔ کسی شخص کی تقلید بھی جائز نہیں ہے جب تک آدمی یہ نہ جان لے کہ وہ شخص حق پر ہے |
Surah 46 : Ayat 15
وَوَصَّيْنَا ٱلْإِنسَـٰنَ بِوَٲلِدَيْهِ إِحْسَـٰنًاۖ حَمَلَتْهُ أُمُّهُۥ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًاۖ وَحَمْلُهُۥ وَفِصَـٰلُهُۥ ثَلَـٰثُونَ شَهْرًاۚ حَتَّىٰٓ إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُۥ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِىٓ أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ ٱلَّتِىٓ أَنْعَمْتَ عَلَىَّ وَعَلَىٰ وَٲلِدَىَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَـٰلِحًا تَرْضَـٰهُ وَأَصْلِحْ لِى فِى ذُرِّيَّتِىٓۖ إِنِّى تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّى مِنَ ٱلْمُسْلِمِينَ
ہم نے انسان کو ہدایت کی کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ نیک بر تاؤ کرے اُس کی ماں نے مشقت اٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا اور مشقت اٹھا کر ہی اس کو جنا، اور اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس مہینے لگ گئے1 یہاں تک کہ جب وہ اپنی پوری طاقت کو پہنچا اور چالیس سال کا ہو گیا تو اس نے کہا 2"اے میرے رب، مجھے توفیق دے کہ میں تیری اُن نعمتوں کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھے اور میرے والدین کو عطا فرمائیں، اور ایسا نیک عمل کروں جس سے تو راضی ہو، اور میری اولاد کو بھی نیک بنا کر مجھے سُکھ دے، میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور تابع فرمان (مسلم) بندوں میں سے ہوں"
2 | یعنی مجھے ایسے نیک عمل کی توفیق دے جو اپنے ظاہری صورت میں بھی ٹھیک ٹھیک تیرے قانون کے مطابق ہو، اور حقیقت میں بھی تیرے ہاں مقبول ہونے کے لائق ہو۔ ایک عمل اگر دنیا والوں کے نزدیک بڑا اچھا ہو، مگر خدا کے قانون کی پیروی اس میں نہ کی گئی ہو تو دنیا کے لوگ اس پر کتنی ہی داد دیں، خدا کے ہاں وہ کسی داد کا مستحق نہیں ہو سکتا۔ دوسری طرف ایک عمل ٹھیک ٹھیک شریعت کے مطابق ہوتا ہے اور بظاہر اس کی شکل میں کوئی کسر نہیں ہوتی، مگر نیت کی خرابی، ریا، خود پسندی، فخر و غرور، اور دنیا طلبی اس کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے اور وہ بھی ا س قابل نہیں رہتا ہے کہ اللہ کے یاں مقبول ہو |
1 | یہ آیت اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اگرچہ اولاد کو ماں اور باپ دونوں ہی کی خدمت کرنی چاہیے، لیکن ماں کا حق اپنی اہمیت میں اس بنا پر زیادہ ہے کہ وہ اولاد کے لیے زیادہ تکلیفیں اٹھاتی ہے۔ یہی بات اس حدیث سے معلوم ہوتی ہے جو تھوڑے سے لفظی اختلاف کے ساتھ بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ، مسند احمد، اور امام بخاری کی ادب المفرد میں وارد ہوئی ہے کہ ایک صاحب نے حضورؐ سے پوچھا کس کا ح خدمت مجھ پر زیادہ ہے؟ فرمایا تیری ماں۔ انہوں نے پوچھا اس کے بعد کون؟ فرمایا تیرا باپ۔ حضورؐ کا یہ ارشاد ٹھیک ٹھیک اس آیت کی ترجمانی ہے، کیونکہ اس میں بھی ماں کے تہرے حق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے : (1) اس کی ماں نے اسے مشقت اٹھا کر پیٹ میں رکھا۔ (2) مشقت اٹھا کر اس کو جنا۔(3) اور اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں 30 مہینے لگ گۓ۔ اس آیت، اور سورہ لقمان کی آیت 14، اور سورہ بقرہ کی آیت 233 سے ایک اور قانونی نکتہ بھی نکلتا ہے جس کی نشان دہی ایک مقدمے میں حضرت علیؓ اور حضرت ابن عباس نے کی اور حضرت عثمانؓ نے اسی کی بنا پر اپنا فیصلہ بدل دیا۔ قصہ یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ایک شخص نے قبیلہ جُہیَنہ کی ایک عورت سے نکاح کیا اور شادی کے چھ مہینے بعد اس کے ہاں صحیح و سالم بچہ پیدا ہو گیا۔ اس شخص نے حضرت عثمان کے سامنے لا کر یہ معاملہ پیش کر دیا۔ آپ نے اس عورت کو زانیہ قرار دے کر حکم دیا کہ اسے رجم کر دیا جاۓ۔ حضرت علیؓ نے یہ قصہ سنا تو فوراً حضرت عثمانؓ کے پاس پہنچے اور کہا یہ آپ نے کیا فیصلہ کر دیا؟ انہوں نے جواب دیا کہ نکاح کے چھ مہینے بعد اس نے زندہ سلامت بچہ جن دیا، یہ اس کے زانیہ ہونے کا کھلا ثبوت نہیں ہے۔؟ حضرت علیؓ نے فرمایا نہیں۔ پھر انہوں نے قرآن مجید کی مذکورہ بالا تینوں آیتیں ترتیب کے ساتھ پڑھیں۔سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ بلائیں اس باپ کے لیے جو رضاعت کی پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے۔ سورہ لقمان میں فرمایا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے۔اور سورہ احقاف میں فرمایا اس کے حمل اور اس کا دودھ چھڑانے میں تیس مہینے لگے۔ اب اگر تیس مہینوں میں سے رضاعت کے دو سال نکال دیے جائیں تو حمل کے چھ مہینے رہ جاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ حمل کی کم سے کم مدت، جس میں زندہ سلامت بچہ پیدا ہو سکتا ہے، چھ مہینے ہے۔ لہٰذا جس عورت نے نکاح کے چھ مہینے بعد بچہ جنا ہو اسے زانیہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ حضرت علیؓ کا یہ استدلال سن کر حضرت عثمانؓ نے فرمایا اس بات کی طرف میرا ذہن بالکل نہ گیا تھا۔ پھر آپ نے عورت کو واپس بلوایا اور اپنا فیصلہ بدل دیا۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت علیؓ کے استدلال کی تائید حضرت ابن عباسؓ نے بھی کی اور اس کے بعد حضرت عثمانؓ نے اپنے فیصلے وے رجوع فرما لیا (ابن جریر، احکام القرآن للجصاص، ابن کثیر)۔ ان تینوں آیات کو ملا کر پڑھنے سے جو قانونی احکام نکلتے ہیں وہ یہ ہیں : (1)جو عورت نکاح کے چھ مہینے سے کم مدت میں صحیح و سالم بچہ (یعنی وہ اسقاط نہ ہو بلکہ وضع حمل ہو) وہ زانیہ قرار پاۓ گی اور اس کے بچے کا نسب اس کے شوہر سے ثابت نہ ہو گا۔ (2) جو عورت نکاح کے چھ مہینے بعد یا اس سے زیادہ مدت میں زندہ سلامت بچہ جنے اس پر زنا کا الزام محض اس ولادت کی بنیاد پر نہیں لگایا جا سکتا، نہ اس کے شوہر کو اس پر تہمت لگانے کا حق دیا جا سکتا ہے، اور نہ اس کا شوہر بچے کے نسب سے انکار کر سکتا ہے۔ بچہ لازماً اسی کا مانا جاۓ گا، اور عورت کو سزا نہ دی جاۓ گی۔ (3) رضاعت کی زیادہ سے زیادہ مدت دو سال ہے۔ اس عمر کے بعد اگر کسی بچے نے کسی عورت کا دودھ پیا ہو تو وہ اس کی رضاعی ماں قرار نہیں پاۓ گی اور نہ وہ احکام رضاعت اس پر مترتب ہوں گے جو سورہ نساء آیت 23 میں بیان ہوۓ ہیں۔ اس معاملہ میں امام ابو حنیفہ نے بر سبیل احتیاط دو سال کے بجاۓ ڈھائی سال کی مدت تجویز کی ہے تاکہ حرمت رضاعت جیسے نازک مسئلے میں خطا کر جانے کا احتمال باقی نہ رہے۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم، سورہ لقمان حاشیہ نمبر 23) اس مقام پر یہ جان لینا فائدہ سے خالی نہ ہو گا کہ جدید ترین طبی تحقیقات کی رو سے ماں کے پیٹ میں ایک بچہ کو کم از کم 28 ہفتے درکار ہوتے ہیں جن میں وہ نشو و نما پاکر زندہ ولادت کے قابل ہو سکتا ہے۔ یہ مدت ساڑھے چھ مہینے سے زیادہ بنتی ہے۔ اسلامی قانون میں نصف مہینے کے قریب مزید رعایت دی گئی ہے، کیونکہ ایک عورت کا زانیہ قرار پانا اور ایک بچہ کا نصب سے محروم ہو جانا بڑا سخت معاملہ ہے اور اس کی نزاکت یہ تقاضہ کرتی ہے کہ ماں اور بچے دونوں اس کے قانونی نتائج سے بچانے کے لیے زیادہ سے زیادہ گنجائش دی جائے۔ علاوہ بریں کسی طبیب، قاضی حتی کہ خود حاملہ عورت اسے بار ور کرنے والے مرد کو بھی ٹھیک ٹھیک یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ استقرار حمل کس وقت ہوا ہے۔ یہ بات بھی اس امر کی متقاضی ہے کہ حمل کی کم سے کم قانونی مدت کے تعین میں چند روز کی مزید گنجائش رکھی جائے |