Ayats Found (2)
Surah 9 : Ayat 114
وَمَا كَانَ ٱسْتِغْفَارُ إِبْرَٲهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَآ إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُۥٓ أَنَّهُۥ عَدُوٌّ لِّلَّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُۚ إِنَّ إِبْرَٲهِيمَ لَأَوَّٲهٌ حَلِيمٌ
ابراہیمؑ نے اپنے باپ کے لیے جو دعائے مغفرت کی تھی وہ تو اُس وعدے کی وجہ سے تھی جو اس نے اپنے باپ سے کیا تھا1، مگر جب اس پر یہ بات کھل گئی کہ اس کا باپ خدا کا دشمن ہے تو وہ اس سے بیزار ہو گیا، حق یہ ہے کہ ابراہیمؑ بڑا رقیق القلب و خداترس اور بردبار آدمی تھا2
2 | متن میں اَوَّاہٌ اور حَلِیْمٌ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اَوَّاہٌ کے معنی ہیں بہت آہیں بھرنے والا، زاری کرنے والا، ڈرنے والا، حسرت کرنے والا۔ اور حلیم اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنے مزاج پر قابو رکھتا ہو، نہ غصّے اور دشمنی اور مخالفت میں آپے سے باہر ہو، نہ محبت اور دوستی اور تعلقِ خاطر میں حد اعتدال سے تجاوز کر جائے۔ یہ دونو ں لفظ اس مقا م پر دوہرے معنی دے رہے ہیں۔ حضرت ابراہیم نے اپنے باپ کے لیے دعائے مغفرت کی کیونکہ وہ نہایت رقیق القلب آدمی تھے، اس خیال سے کانپ اٹھے تھے کہ میرا یہ باپ جہنم کا ایندھن بن جائے گا ۔ اور حلیم تھے ، اُس ظلم و ستم کے باوجود جو ان کے باپ نے اسلام سے ان کوروکنے کے لیے ان پر ڈھایا تھا ۔ ان کی زبان اس کے حق میں دعا ہی کے لیے کھلی۔ پھر انہوں نے یہ دیکھ کر کہ ان کا باپ خدا کا دشمن ہے اس سے تبّری کی، کیونکہ وہ خدا سے ڈرنے والے انسان تھے اور کسی کی محبت میں حد سے تجاوز کر نے والے نہ تھے |
1 | اشارہ ہے اُس بات کی طرف جو اپنے مشرک باپ سے تعلقات منقطع کرتے ہوئے حضرت ابراہیم ؑ نے کہی تھی کہ سَلَامٌ عَلَیْکَ سَاَ سْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّیْ اِنَّہٗ کَانَ بِیْ حَفِیًّاo (مریم ۔ آیت ۴۷)”آپ کو سلام ہے ، میں آپ کے لیے اپنے ربّ سے دعا کروں گا کہ آپ کو معاف کر دے، وہ میرے اوپر نہایت مہربان ہے“۔ اور لَاَ سْتَغْفِرَ نَّ لَکَ وَمَا اَمْلِکُ لَکَ مِنَ اللہِ مِنْ شَیْ ءٍ (الممتحنہ آیت ۴)” میں آپ کے لیے معافی ضرور چاہوں گا، اور میرے اختیار میں کچھ نہیں ہے کہ آپ کو اللہ کی پکڑ سے بچوا لوں“۔ چنانچہ اسی وعدے کی بنا پر آنجناب نے اپنے باپ کے لیے یہ دُعا مانگی تھی کہ : وَاغْفِرْ لِاَ بِیْ اِنَّہٗ کَانَ مِنَ الضَّآلِّیْنَo وَلَا تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ o یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ o اِلَّا مَنْ اَتَی اللہ َ بَقَلْبٍ سَلِیْمٍ o (الشعراء آیات ۸۶ تا ۸۹) ”اور میرے باپ کو معاف کر دے، بے شک وہ گمراہ لوگوں میں سے تھا، اور اس دن مجھے رسوا نہ کر جبکہ سب انسان اٹھائے جائیں گے، جبکہ نہ مال کسی کے کچھ کام آئے گا نہ اولاد، نجات صرف وہ پائے گا جو اپنے خدا کے حضور بغاوت سے پاک دل لے کر حاضر ہوا ہو“۔ یہ دعا اوّل تو خود انتہائی محتاط لہجے میں تھی۔ مگر اس کے بعد جب حضرت ابراہیم کی نظر اس طرف گئی کہ میں جس شخص کے لیے دعا کر رہا ہوں وہ تو خدا کا کھلم کھلا باغی تھا، اور اس کے دین سے سخت دشمنی رکھتا تھا ، تو وہ اس سے بھی باز آگئے اور ایک سچے وفادار مومن کی طرح انہوں نے باغی کی ہمدردی سے صاف صاف تبرّی کر دی، اگرچہ وہ باغی ان کا باپ تھا جس نے کبھی محبت سے ان کو پالا پوسا تھا |
Surah 11 : Ayat 75
إِنَّ إِبْرَٲهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّٲهٌ مُّنِيبٌ
حقیقت میں ابراہیمؑ بڑا حلیم اور نرم دل آدمی تھا اور ہر حال میں ہماری طرف رجوع کرتا تھا