Ayats Found (7)
Surah 7 : Ayat 77
فَعَقَرُواْ ٱلنَّاقَةَ وَعَتَوْاْ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِمْ وَقَالُواْ يَـٰصَـٰلِحُ ٱئْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ إِن كُنتَ مِنَ ٱلْمُرْسَلِينَ
پھر انہوں نے اس اونٹنی کو مار ڈالا1 اور پورے تمرد کے ساتھ اپنے رب کے حکم کی خلاف ورزی کر گزرے، اور صالحؑ سے کہہ دیا کہ لے آ وہ عذاب جس کی تو ہمیں دھمکی دیتا ہے اگر تو واقعی پیغمبروں میں سے ہے
1 | اگرچہ مارا ایک شخص نے تھا، جیسا کہ سورہ قمر اور سورہ شمس میں ارشاد ہوا ہے ، لیکن چونکہ پوری قوم اُس مجرم کی پشت پر تھی اور وہ در اصل اِس جرم میں قوم کی مر ضی کا آلہ کار تھا اس لیے الزام پوری قوم پر عا ئد کیا گیا ہے۔ پر وہ گناہ جو قوم کی خواہش کے مطابق کیا جائے، یا جس کے ارتکاب کو قوم کی رضا اور پسندیدگی حاصل ہو ، ایک قومی گناہ ہے، خواہ اس کا ارتکاب کرنے والا ایک فردِ واحد ہو۔ صرف یہی نہیں ، بلکہ قرآن کہتا ہے کہ جو گناہ قوم کے درمیان علی الا علان کیا جائے اور قوم اسے گوارا کرے وہ بھی قومی گناہ ہے |
Surah 11 : Ayat 65
فَعَقَرُوهَا فَقَالَ تَمَتَّعُواْ فِى دَارِكُمْ ثَلَـٰثَةَ أَيَّامٍۖ ذَٲلِكَ وَعْدٌ غَيْرُ مَكْذُوبٍ
مگر انہوں نے اونٹنی کو مار ڈالا اس پر صالحؑ نے اُن کو خبردار کر دیا کہ "بس اب تین دن اپنے گھروں میں اور رہ بس لو یہ ایسی میعاد ہے جو جھوٹی نہ ثابت ہوگی"
Surah 26 : Ayat 157
فَعَقَرُوهَا فَأَصْبَحُواْ نَـٰدِمِينَ
مگر انہوں نے اس کی کوچیں کاٹ دیں1 اور آخرکار پچھتاتے رہ گئے
1 | یہ مطلب نہیں ہے کہ جس وقت انہوں نے حضرت صالح سے یہ چیلنج سنا اسی وقت وہ اونٹنی پر پل پڑے اور اس کونچیں کاٹ ڈالیں ، بلکہ کافی مدت تک یہ اونٹنی ساری قوم کے لیے ایک مسئلہ بنی رہی، لوگ اس پر دلوں میں اونٹتے رہے ، مشورے ہوتے رہے ، اور آخر کار ایک من چلے سردار نے اس کام کا بیڑا اٹھایا کہ وہ قوم کو اس سے نجات دلائے گا۔ سورہ شمس اس شخص کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے : اِذِنٰبَعَثَ اَشْقَا ھَا، ’’ جب کہ اٹھا اس قوم کا سب سے زیادہ شقی آدمی‘‘۔ اور سورہ قمر میں فرمایا گیا ہے : فَنَا دَوْا صَاحِبَھُمْ فَتَعَا طیٰ فَعَقَرَ ’’ انہوں نے اپنے رفیق سے اپیل کی، آخر کار وہ یہ کام اپنے ذمہ لے کر اٹھا اور اس نے کوچیں کاٹ ڈالیں |
Surah 54 : Ayat 29
فَنَادَوْاْ صَاحِبَهُمْ فَتَعَاطَىٰ فَعَقَرَ
آخر کار اُن لوگوں نے اپنے آدمی کو پکارا اور اُس نے اِس کام کا بیڑا اٹھایا اور اونٹنی کو مار ڈالا1
1 | ان الفاظ سے خود بخود یہ صورت حال مترشح ہوتی ہے کہ وہ اونٹنی ایک مدت تک ان کی بستیوں میں دندناتی پھری ۔ اس کی باری کے دن کسی کو پانی پر آنے کی ہمت نہ ہوتی تھی۔ آخر کار اپنی قوم کے ایک من چلے سردار کو انہوں نےپکارا کہ تو بڑا جری اور بیباک آدمی ہے ۔ بات بات پر آستینیں چڑھا کر مارنے اور مرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے ، ذرا ہمت کر کے اس اونٹنی کا قصہ بھی پاک کر دیکھا۔ ان کے بڑھاوے چڑھاوے دینے پر اس نے یہ مہم سر کرنے کا بیڑا اٹھا لیا اور اونٹنی کو مار ڈالا۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ وہ لوگ اس اونٹنی سے سخت مرعوب تھے ، ان کا یہ احساس تھا کہ اس کی پشت پر کوئی غیر معمولی طاقت ہے ، اس پر ہاتھ ڈالتے ہوۓ وہ ڈرتے تھے ، اور اسی بنا پر محض ایک اونٹنی کا مار ڈالنا، ایسی حالت میں بھی جب کہ اس کے پیش کرنے والے پیغمبر کے پاس کوئی فوج نہ تھی جس کا انہیں ڈر ہوتا، ان کے لیے ایک بڑی مہم سر کرنے کا ہم معنی تھا۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الاعراف حاشیہ 58۔ جلد سوم، الشعراء، حاشیہ 104 ۔ 105) |
Surah 54 : Ayat 30
فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِى وَنُذُرِ
پھر دیکھ لو کہ کیسا تھا میرا عذاب اور کیسی تھیں میری تنبیہات
Surah 91 : Ayat 11
كَذَّبَتْ ثَمُودُ بِطَغْوَٮٰهَآ
ثمود1 نے اپنی سرکشی کی بنا پر جھٹلایا2
2 | یعنی حضرت صالح علیہ السلام کی نبوت کو جھٹلا دیا جو ان کی ہدایت کے لیے بھیجے گئے تھے اور اس جھٹلانے کی وجہ ان کی یہ سرکشی تھی کہ وہ اس فجور کو چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے جس میں وہ مبتلا ہو چکے تھے اور اس تقوی کو قبول کرنا انہیں گوارا نہ تھا جس کی طرف حضرت صالح انہیں دعوت دے رہے تھے۔ اس کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو الااعراف، آیات 73 تا 76۔ ہود، آیات 61۔62۔ الشعراء، آیات 141 تا 153 ۔ النمل ، آیات 45 تا 49۔ القمر ، آیات 23 تا 25 |
1 | اوپر آیات میں جن باتوں کو اصولاً بیان کیاگیا ہے اب انہی کی وضاحت ایک تاریخی نظیر سے کی جا رہی ہے۔ یہ کس بات کی نظیر ہے اور اوپر کے بیان سے اس کا کیا تعلق ہے، اس کو سمجھنے کے لیے قرآن مجید کے دوسرے بیانات کی روشنی میں میں ان دو بنیادی حقیقتوں پر اچھی طرح غور کرنا چاہیے جو آیات 7 تا 10 میں بیان کی گئی ہیں۔ اولاً ان میں فرمایا گیا ہے کہ نفس انسانی کو ایک ہموار و مستقیم فطرت پر پیدا کر کے اللہ تعالی نے اس کا فجور اور اس کا تقوی اس پر الہام کر دیا۔ قرآن اس حقیقت کو بیان کرنے کے ساتھ یہ بھی واضح کرتا ہے کہ فجور و تقوی کا یہ ا لہامی علم اس بات کے لیے کافی نہیں ہے کہ ہر شخص خود اس سے تفصیلی ہدایت حاصل کر لے۔ بلکہ اس غرض کے لیے اللہ تعالی نے وحی کے ذریعہ سے انبیاء علیہم السلام کو مفصل ہدایت دی جس میں وضاحت کے ساتھ یہ بتا دیا گیا کہ فجور کا اطلاق کن کن چیزوں پر ہوتا ہے جن سے بچنا چاہیے اور تقوی کس چیز کا نام ہے اور وہ کیسے حاصل ہوتا ہے۔ اگر انسان وحی کے ذریعہ سے آنے والی اس واضح ہدایت کو قبول نہ کرے تو وہ نہ فجور سے بچ سکتا ہے نہ تقوی کا راستہ پا سکتا ہے۔ ثایناً ا ن آیات میں فرمایا گیا ہے کہ جزا اور سزا وہ لازمی نتائج ہیں جو فجور اور تقوی میں سے کسی ایک کے اختیار کرنے پر مترتب ہوتے ہیں۔ نفس کو فجور سے پاک کرنے اور تقوی سے ترقی دینے کا نتیجہ فلاح ہے، اوراس کے اچھے رحجانات کو دبا کر فجور میں غرق کر دینے کا نتیجہ نامرادی اور ہلاکت و بربادی۔ اسی بات کو سمجھانے کے لیے ایک تا ریخی نظیر پیش کی جا رہی ہے اور اس کے لیے ثمود کی قوم کو بطور نمونہ لیا گیا ہے، کیونکہ پچھلی تباہ شدہ قوموں میں سے جس قوم کا علاقہ اہل مکہ سے قریب ترین تھا وہ یہی تھی۔ شمالی حجاز میں اس کے تاریخی آثار موجود تھے جن سے اہل مکہ شام کی طرف اپنے تجارتی سفروں میں ہمیشہ گزرتے رہتے تھے، اور جاہلیت کے اشعار میں جس طرح اس قوم کا ذکر کثرت سے آیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل عرب میں اس کی تباہی کا چرچا عام تھا |
Surah 91 : Ayat 14
فَكَذَّبُوهُ فَعَقَرُوهَا فَدَمْدَمَ عَلَيْهِمْ رَبُّهُم بِذَنۢبِهِمْ فَسَوَّٮٰهَا
مگر انہوں نے اُس کی بات کو جھوٹا قرار دیا اور اونٹنی کو مار ڈالا1 آخرکار اُن کے گناہ کی پاداش میں ان کے رب نے ان پر ایسی آفت توڑی کہ ایک ساتھ سب کو پیوند خاک کر دیا
1 | سورہ اعراف میں ہے کہ اونٹنی کو مارنے کے بعد ثمود کے لوگوں نے حضرت صالح سے کہا کہ اب لے آؤ وہ عذاب جس سے تم ہمیں ڈراتے تھے۔ (آیت 77) اور سورہ ہود میں ہے کہ حضرت صالح نے ان سے کہا تین دن اپنے گھروں میں اور مزے کر لو، اس کے بعد عذاب آ جائے گا اور یہ ایسی تنبیہ ہے جو جھوٹی ثابت نہ ہو گی (آیت 65) |