Ayats Found (18)
Surah 10 : Ayat 28
وَيَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِينَ أَشْرَكُواْ مَكَانَكُمْ أَنتُمْ وَشُرَكَآؤُكُمْۚ فَزَيَّلْنَا بَيْنَهُمْۖ وَقَالَ شُرَكَآؤُهُم مَّا كُنتُمْ إِيَّانَا تَعْبُدُونَ
جس روز ہم ان سب کو ایک ساتھ (اپنی عدالت میں) اکٹھا کریں گے، پھر ان لوگوں سے جنہوں نے شرک کیا ہے کہیں گے کہ ٹھیر جاؤ تم بھی اور تمہارے بنائے ہوئے شریک بھی، پھر ہم ان کے درمیان سے اجنبیّت کا پردہ ہٹا دیں گے1 اور ان کے شریک کہیں گے کہ “تم ہماری عبادت تو نہیں کرتے تھے
1 | متن میں فَزَیَّلْنَا بَیْنَھُمْ کے الفاظ ہیں۔ اس کا مفہوم بعض مفسرین نے یہ لیا ہے کہ ہم ان کا باہمی ربط و تعلق توڑ دیں گے تاکہ کسی تعلق کی بنا پر وہ ایک دوسرے کا لحاظ نہ کریں۔ لیکن یہ معنی عربی محاورے کے مطابق نہیں ہیں۔ محاورہ عرب کی رو سے اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ ہم ان کے درمیان تمیز پیدا کردیں گے، یا ان کو ایک دوسرے سے ممیز کر دیں گے۔ اسی معنی کو ادا کرنے کے لیے ہم نے یہ طرزِبیان اختیار کیا ہے کہ”ان کے درمیان سے اجنبیت کا پردہ ہٹا دیں گے“ یعنی مشرکین اور ان کے معبود آمنے سامنے کھڑے ہوں گے اور دونوں گروہوں کی امتیازی حیثیت ایک دوسرے پر واضح ہو گی، مشرکین جان لیں گے کہ یہ ہیں وہ جن کو ہم دنیا میں معبود بنائے ہوئے تھے، اور ان کے معبود جان لیں گے کہ یہ ہیں وہ جنہوں نے ہمیں اپنا معبود بنا رکھا تھا۔ |
Surah 10 : Ayat 29
فَكَفَىٰ بِٱللَّهِ شَهِيدَۢا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ إِن كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغَـٰفِلِينَ
ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے کہ (تم اگر ہماری عبادت کرتے بھی تھے تو) ہم تمہاری اس عبادت سے بالکل بے خبر تھے1 "
1 | یعنی وہ تمام فرشتے جن کو دنیا میں دیوی اور دیوتا قرار دے کر پوجا گیا، اور وہ تمام جِنّ، ارواح، اسلاف، اجداد، انبیاء، اولیاء، شہداء وغیرہ جن کو خدائی صفات میں شریک ٹھیرا کر وہ حقوق انہیں ادا کیے گئے جو دراصل خدا کے حقو ق تھے، وہاں اپنے پرستاروں سے صاف کہہ دیں گے کہ ہمیں تو خبر تک نہ تھی کہ تم ہماری عبادت بجا لا رہے ہو۔ تمہاری کوئی دعا، کوئی التجا، کوئی پکار اور فریاد، کوئی نذر و نیاز، کوئی چڑہاوے کی چیز، کوئی تعریف و مدح اور ہمارے نام کی جاپ اور کوئی سجدہ ریزی و آستانہ بوسی و درگاہ گردی ہم تک نہیں پہنچی۔ |
Surah 14 : Ayat 21
وَبَرَزُواْ لِلَّهِ جَمِيعًا فَقَالَ ٱلضُّعَفَـٰٓؤُاْ لِلَّذِينَ ٱسْتَكْبَرُوٓاْ إِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ أَنتُم مُّغْنُونَ عَنَّا مِنْ عَذَابِ ٱللَّهِ مِن شَىْءٍۚ قَالُواْ لَوْ هَدَٮٰنَا ٱللَّهُ لَهَدَيْنَـٰكُمْۖ سَوَآءٌ عَلَيْنَآ أَجَزِعْنَآ أَمْ صَبَرْنَا مَا لَنَا مِن مَّحِيصٍ
اور یہ لوگ جب اکٹھے اللہ کے سامنے بے نقاب ہوں گے1 تو اُس وقت اِن میں سے جو دنیا میں کمزور تھے و ہ اُن لوگوں سے جو بڑے بنے ہوئے تھے، کہیں گے 2"دنیا میں ہم تمہارے تابع تھے، اب کیا تم اللہ کے عذاب سے ہم کو بچانے کے لیے بھی کچھ کرسکتے ہو؟"وہ جواب دیں گے "اگر اللہ نے ہمیں نجات کی کوئی راہ دکھائی ہوتی تو ہم ضرور تمہیں بھی دکھا دیتے اب تو یکساں ہے، خواہ ہم جزع فزع کریں یا صبر، بہرحال ہمارے بچنے کی کوئی صورت نہیں"
2 | یہ تنبیہ ہے اُن سب لوگوں کے لیے جو دنیا میں آنکھیں بند کر کے دوسروں کے پیچھے چلتے ہیں یا اپنی کمزوری کو حجت بنا کر طاقتور ظالموں کی اطاعت کرتے ہیں۔ ان کو بتایا جا رہا ہے کہ آج جو تمہارے لیڈر اور پیشوا اور افسر او ر حاکم بنے ہوئے ہیں، کل ان میں سے کوئی بھی تمہیں خدا کے عذاب سے ذرہ برابر بھی نہ بچا سکے گا۔ لہٰذا آج ہی سوچ لو کہ تم جس کےپیچھے چل رہے ہو یا جس کا حکم مان رہے ہو وہ خود کہاں جا رہا ہے اور تمہیں کہاں پہنچا کر چھوڑے گا |
1 | بروز کے معنی محض نکل کر سامنے آنے اور پیش ہونے ہی کے نہیں ہیں بلکہ اس میں ظاہر ہونے اور کھل جانے کا مفہوم بھی شامل ہے ۔ اسی لیے ہم نے اس کا ترجمہ بے نقاب ہو کر سامنے آجانا کیاہے۔ حقیقت کے اعتبار سے تو بندے ہر وقت اپنے رب کے سامنے بے نقاب ہیں ۔ مگر آخرت کی پیشی کے دن جب وہ سب کے سب اللہ کی عدالت میں حاضر ہوں گے تو انہیں خود بھی معلوم ہوگا کہ ہم اس احکم الحاکمین اور مالک یوم الدین کےسامنے بالکل بے نقاب ہیں ، ہمارا کوئی کام بلکہ کوئی خیال اور دل کے گوشوں میں چھپا ہوا کوئی ارادہ تک اس سے مخفی نہیں ہے |
Surah 14 : Ayat 22
وَقَالَ ٱلشَّيْطَـٰنُ لَمَّا قُضِىَ ٱلْأَمْرُ إِنَّ ٱللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ ٱلْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْۖ وَمَا كَانَ لِىَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَـٰنٍ إِلَّآ أَن دَعَوْتُكُمْ فَٱسْتَجَبْتُمْ لِىۖ فَلَا تَلُومُونِى وَلُومُوٓاْ أَنفُسَكُمۖ مَّآ أَنَا۟ بِمُصْرِخِكُمْ وَمَآ أَنتُم بِمُصْرِخِىَّۖ إِنِّى كَفَرْتُ بِمَآ أَشْرَكْتُمُونِ مِن قَبْلُۗ إِنَّ ٱلظَّـٰلِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
اور جب فیصلہ چکا دیا جائے گا تو شیطان کہے گا "حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے جو وعدے تم سے کیے تھے و ہ سب سچے تھے اور میں نے جتنے وعدے کیے ان میں سے کوئی بھی پورا نہ کیا میرا تم پر کوئی زور تو تھا نہیں، میں نے اِس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ اپنے راستے کی طرف تمہیں دعوت دی اور تم نے میری دعوت پر لبیک کہا2 اب مجھے ملامت نہ کرو، اپنے آپ ہی کو ملامت کرو یہاں نہ میں تمہاری فریاد رسی کر سکتا ہوں اور نہ تم میر ی اس سے پہلے جو تم نے مجھے خدائی میں شریک بنا رکھا تھا3 میں اس سے بری الذمہ ہوں، ایسے ظالموں کے لیے درد ناک سزا یقینی ہے"
3 | یہاں پھر شرکِ اعتقادی کے مقابلہ میں شرک کی ایک مستقل نوع یعنی شرکِ عملی کے وجود کا ایک ثبوت ملتا ہے۔ ظا ہر بات ہے کہ شیطان کو اعتقادی حیثیت سے تو کوئی بھی نہ خدائی میں شریک ٹھیراتا ہے اور نہ اس کی پرستش کرتا ہے۔سب اُس پر لعنت ہی بھیجتے ہیں ۔ البتہ اس کی اطاعت اور غلامی اور اس کے طریقے کی اندھی یا آنکھوں دیکھے پیروی ضرور کی جا رہی ہے، اور اُسی کو یہاں شرک کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ممکن ہے کوئی صاحب جوا ب میں فرمائیں کے یہ تو شیطان کا قول ہے جسے اللہ تعالیٰ نے نقل فرمایا ہے۔ لیکن ہم عرض کریں گے کہ اول تو اس کے قول کی اللہ تعالیٰ خود تردید فرما دیتا اگر وہ غلط ہوتا ۔ دوسرے شرکِ عملی کا صرف یہی ایک ثبوت قرآن میں نہیں ہے بلکہ اس کی متعدد ثبوت پچھلی سورتوں میں گزر چکے ہیں اورآگے آرہے ہیں۔ مثال کے طور پر یہودیوں اور عیسائیوں کو یہ الزام کہ وہ اپنے احبار اور رُہبان کو اربابٌ من دون اللہ بنائے ہوئے ہیں (التوبہ۔ آیت ۱۳۷) ۔ خواہشاتِ نفس کی بندگی کرنے والوں کے متعلق یہ فرمانا کہ انہوں نے اپنی خواہشِ نفس کو خدا بنا لیا ہے (الفرقان۔ آیت نمبر ۴۳)۔ نافرمان بندوں کے متعلق یہ ارشاد کہ وہ شیطان کی عبادت کرتے رہے ہیں(یٰسین۔ آیت ۶۰)۔ انسانی ساخت کے قوانین پر چلنے والوں کو ان الفاظ میں ملامت کہ اذن ِ خداوندی کے بغیر جن لوگوں نے تمہارے لیے شریعت بنائی ہے وہ تمہارے ”شریک“ ہیں(الشوریٰ۔ آیت نمبر ۲۱)۔ یہ سب کیا اُسی شرکِ عملی کی نظیر یں نہیں ہیں جس کا یہاں ذکر ہو رہا ہے؟ ان نظیروں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ شرک کی صرف یہی ایک صورت نہیں ہے کہ کوئی شخص عقیدۃً کسی غیراللہ کو خدائی میں شریک ٹھیرائے۔ اس کی ایک دوسری صورت یہ بھی ہے کہ وہ خدائی سند کے بغیر ، یا احکام ِ خداوندی کے علی الرغم ، اُس کی پیروی اور اطاعت کرتا چلا جائے ۔ ایسا پیرو اور مطیع اگر اپنے پیشوا اور مطاع پر لعنت بھیجتے ہوئے بھی عملًا یہ روش اختیار کر رہا ہو تو قرآن کی روح سے وہ اُس کوخدائی میں شریک بنائے ہوئے ہے، چاہے شرعًا اُس کا حکم بالکل وہی نہ ہو جو اعتقادی مشرکین کا ہے ۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ انعام، حاشیہ نمبر ۸۷ و ۱۰۷۔ الکہف حاشیہ ۵۰) |
2 | یعنی اگر آپ حضرات ایسا کوئی ثبوت رکھتے ہو کہ آپ خود راہِ راست پر چلنا چاہتے تھے اور میں نے زبردستی آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کو غلط راستے پر کھینچ لیا ، تو ضرور اسے پیش فرمائیے ، جو چور کی سزا سو میری۔ لیکن آپ خود مانیں گے کہ واقعہ یہ نہیں ہے ۔ میں نے اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا کہ دعوتِ حق کے مقابلے میں اپنی دعوتِ باطل آپ کے سامنے پیش کی، سچائی کے مقابلہ میں جھوٹ کی طرف آپ کو بلایا ، نیکی کے مقابلہ میں بدی کی طرف آپ کو پکارا۔ ماننے ااور نہ ماننے کے جملہ اختیارات آپ ہی حضرات کو حاصل تھے۔ میرے پاس آپ کو مجبور کرنے کی کوئی طاقت نہ تھی۔ اب اپنی اس دعوت کا ذمہ دار تو بلا شبہہ تو میں خود ہوں اور اس کی سزا بھی پا رہا ہوں ۔ مگر آپ نے جوا س پر لبیک کہا اس کی ذمہ داری آپ مجھ پر کہاں ڈالنے چلے ہیں۔ اپنے غلط انتخاب اور اپنے اختیار کے غلط استعمال کی ذمہ داری تو آپ کو خود ہی اُٹھانی چاہیے |
1 | یعنی تمہارے تمام گلے شکوے اس حد تک تو بالکل صحیح ہیں کہ اللہ سچا تھا اور میں جھوٹا تھا۔ اس واقعے سے مجھے ہر گز انکار نہیں ہے ۔ اللہ کے وعدے اور اس کی وعیدیں ، تم دیکھ ہی رہے ہو کہ ان میں سے ہر بات جوں کی توں سچی نکلی ۔ اور میں خود مانتا ہوں کہ جو بھروسے میں نے تمہیں دلائے، جن فائدوں کے لالچ تمہیں دیے، جن خوشنما توقعات کے جال میں تم کو پھانسا اور سب سے بڑھ کر یہ یقین جو تمہیں دلایا کہ اول تو آخرت واخرت کچھ بھی نہیں ہے، سب محض ڈھکوسلا ہے ، اور اگر ہوئی بھی تو فلاں حضرت سے تصدق سے تم صاف بچ نکلو گے ، بس ان کی خدمت میں نذر و نیاز کی رشوت پیش کرتے رہو اور پھر جو چاہو کرتے پھرو، نجات کا ذمہ اُن کا، یہ ساری باتیں جو میں تم سے کہتا رہا اور اپنے ایجنٹوں کے ذریعے سے کہلواتا رہا، یہ سب محض دھوکا تھا |
Surah 16 : Ayat 86
وَإِذَا رَءَا ٱلَّذِينَ أَشْرَكُواْ شُرَكَآءَهُمْ قَالُواْ رَبَّنَا هَـٰٓؤُلَآءِ شُرَكَآؤُنَا ٱلَّذِينَ كُنَّا نَدْعُواْ مِن دُونِكَۖ فَأَلْقَوْاْ إِلَيْهِمُ ٱلْقَوْلَ إِنَّكُمْ لَكَـٰذِبُونَ
اور جب وہ لوگ جنہوں نے دنیا میں شرک کیا تھا اپنے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے 1"اے پروردگار، یہی ہیں ہمارے وہ شریک جنہیں ہم تجھے چھوڑ کر پکارا کرتے تھے" اس پر اُن کے وہ معبود انہیں صاف جواب دیں گے کہ "تم جھوٹے ہو"
1 | اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ بجائے خود اِس واقعہ کا انکار کریں گے کہ مشرکین انہیں حاجت روائی و مشکل کشائی کے لیے پکارا کرتے تھے، بلکہ دراصل وہ اس واقعہ کے متعلق اپنے علم واطلاع اور اس پراپنی رضامندی و ذمہ داری کا انکار کریں گے۔ وہ کہیں گے کہ ہم نے کبھی تم سے یہ نہیں کہا تھا کہ تم خدا کو چھوڑ کر ہمیں پکارا کرو، نہ ہم تمہاری اس حرکت پر راضی تھے، بلکہ ہمیں تو خبر تک نہ تھی کہ تم ہمیں پکار رہے ہو۔ تم نے اگر ہمیں سمیع الدُّعاء اور مجیب الدعوات، اور دستگیر وفریاد رس قرار دیا تھا تو یہ قطعی ایک جھوٹی بات تھی جو تم نے گھڑ لی تھی اور اس کے ذمہ دار تم خود تھے۔اب ہمیں اس کی ذمہ داری میں لپیٹنے کی کوشش کیوں کر تے ہو۔ |
Surah 16 : Ayat 87
وَأَلْقَوْاْ إِلَى ٱللَّهِ يَوْمَئِذٍ ٱلسَّلَمَۖ وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُواْ يَفْتَرُونَ
اُس وقت یہ سب اللہ کے آگے جھک جائیں گے اور ان کی وہ ساری افترا پردازیاں رفو چکر ہو جائیں گی جو یہ دنیا میں کرتے رہے تھے1
1 | یعنی وہ سب غلط ثابت ہوں گی۔ جن جن سہاروں پر وہ دنیا میں بھروسا کیے ہوئے تھے وہ سارے کے سارے گم ہو جائیں گے۔ کسی فریاد رس کو وہاں فریاد رسی کے لیے موجود نہ پائیں گے۔ کوئی مشکل کشا ان کی مشکل حل کرنے کے لیے نہیں ملے گا۔ کوئی آگے بڑھ کر یہ کہنے والا نہ ہو گا کہ یہ میرے متوسل تھے، انہیں کچھ نہ کہا جائے۔ |
Surah 18 : Ayat 52
وَيَوْمَ يَقُولُ نَادُواْ شُرَكَآءِىَ ٱلَّذِينَ زَعَمْتُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ يَسْتَجِيبُواْ لَهُمْ وَجَعَلْنَا بَيْنَهُم مَّوْبِقًا
پھر کیا کریں گے یہ لوگ اُس روز جبکہ اِن کا رب اِن سے کہے گا کہ پکارو اب اُن ہستیوں کو جنہیں تم میرا شریک سمجھ بیٹھے تھے1 یہ ان کو پکاریں گے، مگر وہ اِن کی مدد کو نہ آئیں گے اور ہم ان کے درمیان ایک ہی ہلاکت کا گڑھا مشترک کر دیں گے2
2 | مفسرین نے اس آیت کے دو مفہوم بیان کیے ہیں۔ ایک وہ جو ہم نے اوپر ترجمے میں اختیار کیا ہے۔ اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ ’’ہم ان کے درمیان عداوت ڈال دیں گے‘‘۔ یعنی دنیا میں ان کے درمیان جو دوستی تھی آخرت میں وہ سخت عداوت میں تبدیل ہو جائے گی۔ |
1 | یہاں پھر وہی مضمون بیان کیا گیا ہے جو اس سے پہلے بھی کئی جگہ قرآن میں گزر چکا ہے کہ اللہ کے احکام اور اس کی ہدایات کو چھوڑ کر کسی دوسرے کے احکام اور رہنمائی کا اتباع کرنا دراصل اس کو خدائی میں اللہ کا شریک ٹھیرانا ہے، خواہ آدمی اس دوسرے کو زبان سے خدا کا شریک قرار دیتا ہو یا نہ قرار دیتا ہو۔ بلکہ اگر آدمی ان دوسری ہستیوں پر لعنت بھیجتے ہوئے بھی امر الہٰی کے مقابلے میں ان کے اوامر کا اتباع کر رہا ہو تب بھی وہ شرک کا مجرم ہے۔ چنانچہ یہاں شیاطین کے معاملے میں آپ علانیہ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں ہر ایک ان پر لعنت کرتا ہے، مگر اس لعنت کے باوجود جو لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں، قرآن ان سب کی یہ الزام دے رہا ہے کہ تم شیاطین کو خدا کا شریک بنائے ہوئے ہو۔ یہ شرک اعتقادی نہیں بلکہ شرک عملی ہے اور قرآن اس کو بھی شرک ہی کہتا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، النساء حاشیہ ۹۱۔ ۱۴۵۔ الانعام، حاشیہ ۶۷۔ ۱۰۷ جلد دوم التوبہ، حاشیہ ۳۱۔ ابراہیم، حاشیہ ۲۳۔ جلد سوم، مریم، حاشیہ ۲۷۔ المومنون، حاشیہ ۴۱۔ الفرقان، حاشیہ ۵۶۔ القصص، حاشیہ ۸۶ جلد چہارم، سَبَا، حاشیہ ۵۹۔ ۶۰۔ ۶۱۔ ۶۲ ۶۳۔ یٰسین، حاشیہ ۵۳، الشوریٰ، حاشیہ ۳۸۔ لجاثیہ، حاشیہ ۳۰) |
Surah 18 : Ayat 53
وَرَءَا ٱلْمُجْرِمُونَ ٱلنَّارَ فَظَنُّوٓاْ أَنَّهُم مُّوَاقِعُوهَا وَلَمْ يَجِدُواْ عَنْهَا مَصْرِفًا
سارے مجرم اُس روز آگ دیکھیں گے اورسمجھ لیں گے کہ اب انہیں اس میں گرنا ہے اور وہ اس سے بچنے کے لیے کوئی جائے پناہ نہ پائیں گے
Surah 19 : Ayat 81
وَٱتَّخَذُواْ مِن دُونِ ٱللَّهِ ءَالِهَةً لِّيَكُونُواْ لَهُمْ عِزًّا
اِن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے کچھ خدا بنا رکھے ہیں تاکہ وہ اِن کے پشتیبان ہوں1
1 | اصل میں لفظ عزا استعمال ہوا ہے، یعنی وہ ان کے لیے سببِ عزت ہوں۔ مگر عزت سے مراد عربی زبان میں کسی شخص کا ایسا طاقت ور اور زبردست ہونا ہے کہ اس پر کوئی ہاتھ نہ ڈال سکے اور ایک شخص کا دوسرے شخص کے لیے سببِ عزت بننا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ اس کی حمایت پر ہو جس کی وجہ سے اس کا کوئی مخالف اس کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھ سکے۔ |
Surah 19 : Ayat 82
كَلَّاۚ سَيَكْفُرُونَ بِعِبَادَتِهِمْ وَيَكُونُونَ عَلَيْهِمْ ضِدًّا
کوئی پشتیبان نہ ہوگا وہ سب ان کی عبادت کا انکار کریں گے1 اور الٹے اِن کے مخالف بن جائیں گے
1 | یعنی وہ کہیں گے کہ نہ ہم نےکبھی ان سے کہا تھا ہماری عبادت کرو، اورنہ ہمیں یہ خبر تھی کہ یہ احمق لوگ ہماری عبادت کر رہے ہیں۔ |